پاکستانی ڈراما انڈسٹری کی بات کی جائےتو یہ بلندیوں میں اپنی مثال آپ ہے، دوسرے ممالک میںجو شہرت فلم انڈسٹری کو حاصل ہوتی ہے ، وہ پاکستان میں ڈراما انڈسٹری کوحاصل ہے۔ پاکستانی خصوصاًماضی کےڈرامے نہ صرف اپنے ملک میں بلکہ دنیا بھر میں بہت شوق سے دیکھے جاتے ہیں ۔پاکستانی ڈراموں کے حوالے سے یہ بات مشہور ہے کہ یہ ناظرین کو کو ایسے سحر میں جکڑ لیتے ہیں کہ ٹی وی اسکرینز پر چلنے والا سین لوگوں کو حقیقت معلوم ہوتا ہے۔ پرانے ڈراموں سے بات شروع کریں تو ایسے مایہ ناز اور معیاری ڈرامے ذہن میں آتے ہیں جن کی عوام کے ذہنوں پر ایسی چھاپ ہے کہ کئی برس گزرنے کے باوجود وہ ڈرامے اور کردار لوگوں کے ذہن سے نہیں نکل پائے ۔پاکستان میں ٹیلی ویژن کی آمد کے ساتھ ہی ٹی وی ڈراما وجود میں آیا۔وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ پاکستانی ڈراموں میں تبدیلیاں بھی آئیں،تاہم موضوعاتی اعتبار سے ٹیلی ویژن ڈرامے پر کئی ادوار آئے۔ہر دور دوسرے سے منفرد خصوصیات اور تبدیلیوں کا حامل ہے۔ ابتدائی دور سے سن ستّرکے درمیان کئی بہترین ڈراما سیریل سامنے آئیں ،کیوں کہ ابتدا سے ہی تعلیم یافتہ لوگوں نے ٹی وی کا رخ کیااور ڈراما سازی کے لیےمایہ ناز ادیب و کہانی نویس ٹیلی وژن کا حصہ بن گئے،جن کے لکھے ہوئے شاہ کار ڈرامے ہماری پہچان بن گئے۔
پاکستان ٹیلی ویژن کے لیے شروع میں جن لوگوں نے لکھا یا جن کی کہانیوں کو ڈرامے کا حصہ بنایا گیا ان میں امتیاز علی تاج، رفیع پیرزادہ ، ضیاء سرحدی،انتظار حسین اور ریاض فرشوری جیسے نامور ادیب شامل ہیں،جبکہ پی ٹی وی لاہور سینٹر سے اشفاق احمد، بانو قدسیہ، ، منو بھائی ،انور سجاد، کمال احمد رضوی، اطہر شاہ خان، آغا ناصر وغیرہ نے ڈراما نگاری میں اچھوتے موضوعات شامل کیے۔ان دنوںلائیو نشریات میں ڈرامے بنانا بہت مشکل کام تھا۔ ہجرت کے واقعات ساتھ ساتھ سماجی مسائل کے موضوعات کوشاعری، افسانے اور ناول کے ساتھ ساتھ ڈراموں میں بھی شامل کیا گیا۔ اس کے علاوہ سیاسی و سماجی مسائل پر بھی ڈرامے بنائے گئے۔ سنجیدہ موضوعات کے ساتھ چند مزاحیہ سیریزکو کافی شہرت ملی۔ ان دنوں اشفاق احمد نے ، 'یقین نہیںآتا '، 'کاروان سرائے ' اور پنجابی سیریز 'ٹاہلی تھلے 'جیسی معیاری ڈراما سیریز ٹیلی ویژن کے لیے لکھیں ، جبکہ بانو قدسیہ نے 'گوشئہ عافیت '، 'سہارے ، 'سراب 'اور کئی ڈرامے لکھے۔خدیجہ مستور اور شوکت صدیقی کی کاوشوں کو بھی بہت سراہا گیا۔خدیجہ مستو کا ڈرامہ برقعہ اور شوکت صدیقی کاچور دروازہ 'بہت پسند کیے گئے۔اس دورانمزاحیہ ڈراما نگاری میں کمال احمد رضوی اور اطہر شاہ خان نے میدان میں قدم رکھا ،اسی طرح نعیم طاہر نے 'تصویر کھنچائی ' اور فاروق ضمیر نے 'منگل میں جنگل 'جیسی سیریز لکھ کر شہرت حاصل کی۔ اطہر شاہ خان نے 'لاکھوں میں تین ' ڈراما سیریز لکھ کر شہرت حاصل کی۔ اس سیریز میں محمد قوی خان اورعلی اعجاز نے اداکاری کے جوہر دکھائے،جبکہ اطہر شاہ خان نے '’’مسٹر جیدی '‘‘لکھ کر اس کردار کو امر کردیا۔کمال احمد رضوی کو اصل شہرت 'الف نون ' کی بدولت ملی۔ الف نو ن کے عنوان سے اس سیریز میں کمال احمد رضوی اور رفیع خاور نے اپنی مزاحیہ اداکاری کے جوہر دکھائے۔
رنگین نشریات کے آغاز کے بعدکئی فنی تبدیلیاں آئیں اور ریکارڈنگز کا سلسلہ شروع ہوا۔ڈراموں میں بھی فکری اور موضوعاتی سطح پر تبدیلی رونما ہوئی ۔اس دور میں اے آر خاتون، عظیم بیگ چغتائی ، شبیر شاہ کے علاوہ غیر ملکی ناول نویسوں اور کہانی کاروں کی تخلیقات کو ڈرامائی شکل میں ڈھالا گیا۔ ٹی وی ڈراما نگاری کو فروغ ملا اور معیاری لکھنے والوں میں اضافہ ہوتا گیا۔ بانو قدسیہ کے ساتھ اس میدان میں خالدہ حسین، جمیلہ ہاشمی، حسینہ معین اور فاطمہ ثریا بجیا بھی شامل ہو گئیں۔ اسی طرح امجد اسلام امجد، حمید کاشمیری جیسے ادبی شخصیات بھی اس میدان میں آئیں۔اس دور میں سیریلز کے ساتھ طویل دورانیہ کے کھیل اور ڈراما سیریز کو خاص مقبولیت حاصل ہوئی۔ بجیا اور حسینہ معین کے ڈرامے بہت شوق سے دیکھے گئے،جبکہ اشفاق احمد نے 'حیرت کدہ '، 'ایک محبت سو افسانے '، 'طوطا کہانی ' کے عنوان سے طویل سیریز سے شہرت حاصل کی۔بانو قدسیہ کے 'نیا دور '، 'سراب ' اور 'خلیج ' کو بھی پسند کیا گیا۔ حمید کاشمیری نے ماں '، 'لمحوں کی زنجیر '، ' کافی ہائوس ' جیسے کامیاب کھیل اور سیریز لکھیں۔ ان ہی دنوں انتظار حسین کا ڈراما 'تم کو خبر ہونے تک ' اور تاج حید ر کا 'آبلہ پا 'مقبول ہواجبکہ مستنصر حسین تارڑ نے 'آدھی رات کا سورج جیسی مضبوط کہانیاں ٹیلی ویژن کے لیے لکھی ہیں۔فاطمہ ثریا بجیا نے’’اوراق '‘‘ کے عنوان سے اردو کے بڑے ناولوں سے کہانیاں، اسٹیج ڈراموں اور داستانوں کو اس کا حصہ بنایا۔اس دوران ٹیلی ویژن پرطویل دورانیے کے ڈرامے بھی دکھائے گئے۔جن میں منو بھائی کا شبیر شاہ کے ناول سے ماخوذ 'جھوک سیال ' ، راحت کاظمی کا 'تیسرا کنارہ 'اور انتظار حسین کا 'زرد دوپہر جیسے دیگر ڈرامے بے حد مقبول ہوئے۔ فاطمہ ثریا بجیا نے ڈراما سیریز کی طرح ڈراما سیریلز بھی کامیابی سے لکھے،جن میں شمع اور افشاں بے حد مقبول ہوئے۔ یہ دونوں ڈرامے ' اے آر خاتون کے ناولوں کی ڈرامائی تشکیل ہیں۔ حسینہ معین کے 'کرن کہانی '، 'انکل عرفی '، 'پرچھائیاں، شہزوری ' کامیاب رہے۔سن اسّی کے عشرے میںملک میں آمریت کی وجہ سے پاکستانی معاشرے پر گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ اس دوران امجد اسلام امجد کے ڈراما 'وارث ' نے ٹیلی ویژن پر ایک نئے کلچر کو متعارف کرایا۔ جاگیرداری نظام کے خلاف ٹیلی ویژن نے اچھے ڈرامے پیش کیے۔ امجد اسلام امجد کے ساتھ اصغر ندیم سید، نور الہٰدی شاہ ، عبد القادر جونیجو، عطاالحق قاسمی، ڈاکٹر ڈینس آئزک اور یونس جاوید جیسے نامور ادیبوں نے ٹیلی ویژن کے لیے ڈرامے لکھنا شروع کیے۔
اگر یہ کہا جائے تو زیادہ صحیح ہو گا کہ اس دور میں ڈراما نگاری کو عروج حاصل ہوا۔ اس زمانے میں ٹی وی ڈراما پورے گھرانے کی تفریح و تعلیم کا باعث تھا۔ زیادہ تر ڈراموں کی سیریلزپیش کی جاتی تھیں۔امجد اسلام امجد نےدہلیز '، 'سمندر ' اور 'رات ' جیسے ڈرامے لکھ کر ٹیلی ویژن کو نئی ریت دی۔ اصغر ندیم سید نے 'لازوال ' (بشریٰ رحمان کے ناول سے ماخوذ)، 'دریا،پیاس 'اور 'خواہش ' کے عنوان سے اچھے ڈرامے لکھے۔ان کے ڈراموں میںاستحصالی معاشرے پر کڑی تنقید موجود ہوتی۔مستنصر حسین تارڑ نے 'ہزاروں راستے ' اور 'سورج کے ساتھ ساتھ ' سیریلز لکھیں۔ شوکت صدیقی کے ایک اور بہترین ناول کو بنیاد بنا کرجانگلوس ڈراما لکھا گیا جس کی شہرت آج بھی ہے، عطاالحق قاسمی نےخواجہ اینڈ سن ' جیسے مزاحیہ اور طنزیہ ڈراما سیریز لکھیں۔ منو بھائی نے 'ابابیل '، 'خاموشی '، وادی 'جیسے بے مثال ڈرامے ٹیلی ویژن کو دیے ۔ان دنوں حسینہ معین کے ڈراموں کاجا دو بھی خوب سر چڑھ کر بولا۔انہوں نےان کہی '، 'اجنبی '، 'تنہائیاں ' اور 'دھوپ کنارے 'جیسے ڈرامے لکھ کرمنفردپہچان بنائی۔ عبد القادر جونیجو نے 'دیواریں '، 'چھوٹے بڑے لوگ 'اور 'سیڑھیاں جبکہ نور الہٰدی شاہ نے جنگل '، 'تپش '، 'آسمان تک دیواراورماروی جیسی سیریلز لکھ کر شہرت حاصل کی۔ ان کے ڈراموں میں سندھ کی وڈیرہ شاہی اور جاگیردارانہ نظام کو بے نقاب کیا گیا۔ اس دوران پاک فوج کے قومی ہیروز کو خراج عقیدت پیش کرنے اور ان کی قربانیوں کی یاد تازہ کرنے کے لیے ، نشان حیدر کا اعزا زپانے والے فوجی جوانوں کی زندگی پر مبنی ڈرامے بھی پیش کیے گئے۔
ٹیلی ویژن ڈراما نگاری میں سن نوّے کے بعدکا دور ٹیلی ویژن پر جدید اور کمرشل ڈراما نگاری کاکہلاتا ہے۔اس دوران ڈرامے کا معیار برقرار رہا تاہم ڈراما کمرشل بنیادوں پر بنایا اور لکھوایا جانے لگا۔اس دوران بننے والے نان کمرشل ڈراموں دھواں اور الفا براؤ چارلی کی دھوم آج بھی ہے۔ان دنوں بیرون ملک عکس بندی کا رجحان بھی فروغ پایا۔ اس رجحان نے بیرون ممالک میں رہنے والوں کے مسائل سے زیادہ گلیمر کو فروغ دیا۔ ایک طرف پرائیویٹ پروڈکشن سے ڈراموں کی بھر مار ہو گئی تو دوسری طرف نئے ٹی وی چینلزکھلنے شروع ہو ئے۔موضوعات کے حوالے سے آج کا ڈراما ماضی سے ذرا مختلف ہے اور موضوعات کے حوالے سے یکسانیت کا شکار ضرور ہے ،اس حوالے سے بہتری کی گنجائش موجودہے۔