ملتان کی گرمی تو بارہا دیکھی تھی، اب کے ملتان کی گرمجوشی دیکھی۔ لوگ گانے بجانے کے نام پر جمع ہوجاتے ہیں لیکن ادب، تہذیب اور تمدن کی خاطر اتنے لوگوں کا اکٹھا ہونا حیران کرتا ہے۔ شہر میں ایک نوجوان قانون داں کی لکھی ہوئی کتاب کی رسمِ اجرا تھی۔وہیں کسی بھلے شخص نے صحافیوں، ادیبوں اور شاعروں کی خاطر اچھے دنوں میں ایک بیٹھنے کا ٹھکانا بنا دیا تھا جو ملتان ٹی ہاؤس کہلاتا ہے۔ اسکے کشادہ ہال میں کتاب کا تعارف کرایا جارہا تھا۔ کئی روز سے میڈیا پر اسکی تشہیر ہورہی تھی۔اعلان سے میرا نام بھی نتھی تھا۔کچھ کتاب کی کشش تھی، کچھ مصنف سے مراسم کا کمال تھا اور کچھ میرے احباب یہ دیکھنے آئے کہ ریڈیو پر کم و بیش تیس برس لگانے والا شخص کیسا ہے۔غرض یہ کہ خوب رونق رہی۔
قیصر عباس صابرملتان کے ادبی حلقوں میں خوب جانے پہچانے ہیں۔ان کی لکھی ہوئی کتابوں کی تعداد درجن بھر ہوا چاہتی ہے۔ ہرچند کہ عدالت کچہری کے آدمی ہیں اور ہر وقت سائلین کے مسائل سلجھاتے نظر آتے ہیں لیکن ذوق اور طرح کا پایا ہے۔ شعر بھی کہتے ہیں۔ملکی حالات پر بھی نگاہ ہے۔دو ایک شخصیتوں کی سوانح بھی لکھی ہے لیکن قیصر عباس کا اصل کمال ان کا جہاں بینی کا شوق ہے۔جن پہاڑوں، وادیوں، دریاؤں، جھیلوں اور جھرنوں کا ہم دور سے نظارہ کرتے رہ جاتے ہیں،قیصر عباس دشوار راستوں کو پھلانگتے، ناہموار پہاڑی راستے طے کرتے ہوئے اُن منظروںکے درمیان جا پہنچتے ہیں۔یہ سوچ کر رشک آتا ہے کہ وہ قدرت کے ان حسین نظاروں کے اندر اتر جاتے ہیں، ان کا مشاہدہ کرتے ہیں، ان کے قرب کا لطف اٹھاتے ہیں، وہاں کے بچوں سے اُن ہی جیسی باتیں کرتے ہیں، عورتوں سے موقع ہوتو بے تکلف سوالات کرلیتے ہیں اور بوڑھوں سے پرانے زمانوں کی کہانیاں سنتے ہیں۔ بڑا کمال اس کے بعد کرتے ہیں۔ جو کچھ دیکھتے، سنتے اور محسوس کرتے ہیں، اسے بڑے سلیقے سے لکھ ڈالتے ہیں۔یہ ہنر ہرایک کو نہیں آتا۔ قیصر عباس کے اسی اشتیاق کو دیکھتے ہوئے میں نے اونچے پہاڑوں میں چھپی کیلاش کی وادیوںکی ان کی منظر نگاری کا مطالعہ کیا اور ان کی تحریر کا مختصر سا پیش لفظ لکھ دیا۔ کسی سفر نامہ نگار کے لئے یہ بھی ایک سوغات ٹھہرتی ہے۔ مگر قصہ یہاں ختم نہیں ہوا۔ اب قیصر عباس صابر کا اصرار ہوا کہ اس تازہ تصنیف ’سفر کیلاش کے‘ کی تعارفی تقریب ملتان ہی میں ہو اور میں ہی اس کی صدارت کروں۔عجب اتفاق ہوا کہ ان ہی دنوں میرا لندن سے پاکستان آنا ہوا۔ بس پھر کیا تھا۔نوجوان جہاں گشت نے دوسرے کام کاج چھوڑ چھاڑ کر اپنی تازہ تخلیق کے رخ سے پردہ اٹھانے کی تقریب کی تیاری شر وع کردی۔احباب جس خلوص سے شریک ِمحفل ہوئے اس سے یہ خوشگوار احساس ہوا کہ اردو کی محفل میں ابھی نثر کی پذیرائی ہو سکتی ہے۔ میں سفر نامے لکھنے والوںکو یوںسراہتا ہوں کہ اس بہانے ہماری نثر بھی لکھی جارہی ہے۔اب سارا زور غزل پر ہے۔ وہ کہانیاں کہنے کا زمانہ خواب ہوا، لوگ ’جدید‘ کے نام پر کچھ لکھ رہے ہیں پر وہ بات نہیں رہی۔ سفر ناموں کا بھی یہی قصہ ہے کہ جسے دیکھئے پیرس، لندن اور نیو یارک کی داستان لکھ رہا ہے۔ میں ہمیشہ کہتا رہا کہ کوئی ٹمبکٹو کا سفر نامہ کیوں نہیں لکھتا۔کوئی بھی تحریر اگر حیرت سے خالی ہو تو پڑھنے والا اس سے جی کیوں لگائے گا؟تو یہ طے پایا کہ سفر کے دو راستے ہوتے ہیں، ایک انجان نگر سے گزر کر اور دوسرا جانی پہچانی بستیوں سے ہوتا ہوا۔قیصر عباس نے کاغان، کالام، گلگت بلتستان اور کیلاش جیسے دور درازعلاقوں کے سفر اختیار کئے۔ انہوں نے دنیا کی نگاہوں سے پوشیدہ ایک اور وادی ڈھونڈ نکالی جسے ہم دیوسائی کے نام سے جانتے ہیں۔یہ بلتستان کے پہاڑوں کے پچھواڑے وہ سپاٹ علاقہ ہے جسے ہم جغرافیے کی کتاب میں سطح ِ مرتفع کے نام سے پڑھا کرتے تھے۔ دیوسائی کے بارے میں ایک عجب بات سننے میں آتی ہے جس پر یقین نہیں آتا۔ وہ یہ کہ وہاں کوئی بستی ہے نہ آبادی، وہاں نہ کوئی رہتا ہے نہ قیام کرتا ہے۔ وہاں کی زمینوں پر بس جولائی اور اگست کے مہینوں میں سبزہ اپنی چادر تان لیتا ہے اور کیا اونچائیاں اور کیا نیچائیاں، پھر وہاں پھول کھلتے ہیں، پھول ہی پھول۔
یہ دیوسائی کی گھاٹی مجھے اشاروں سے بلاتی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ وہاں آؤں گا تو بات کس سے کروں گا۔ جواب ملتا ہے؛خاموشی سے۔ اس کی بھی اپنی زبان ہوتی ہے، بالکل ویسی جیسی نئے نئے بچے کی ہوتی ہے۔ صاف سمجھ میں آتی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ انسان نہ ہوتو کہانی نہیں بنتی،بے جان زمینوں کی کوئی داستان نہیں ہوتی۔ جواب ملتا ہے:آکر تو دیکھو، سبزے کو راہ سے ہٹا کر اور باہر نکلنے کی اور نیلے آسمان کو دیکھنے کی تڑپ لئے جب زمین کی تہہ سے پھول پھوٹتے ہیں تو ایسی ایسی کہانیاں کہتے ہیں کہ پریاں بھی شرماجائیں۔
اس دلیل کے آگے کون ٹھہر سکتا ہے۔ دیو سائی کی بات چھڑی تو قیصر عباس نے جھٹ اعلان کردیا کہ میں لے چلوں گا آپ کو۔ پھر وہ وہاں پہنچنے کا راستے بتانے لگے۔ کس طرف سے فاصلہ کم ہے مگر سڑک ناقص ہے، کس راستے سے سڑک اچھی ہے اور راستہ دل کش ہے۔میں نے بارہا دیکھا ہے، لوگ منزل ہی کی بات کرتے ہیں اور راستے کو محض راہ گزر سمجھتے ہیں۔’سفر کیلاش کے‘ کی داستان میں منزل کی تفصیل توخوب ہے مگر راہ کے پڑاؤ کا احوا ل کچھ یوں ہے جیسے تیز رفتار گاڑی چلتی ہی چلی جائے اور راہ کے نشانوں کو پیچھے چھوڑتی جائے۔مگر خود وادیٔ کیلاش کے باشندوں کا احوال کہانیوں سے بھرا پڑا ہے۔وہ لوگ جو ہزاروں سال سے یہاں آباد ہیں، کس کی اولادیں ہیں اور ان کا سلسلہ جاکر کس سے ملتا ہے،یہ گتھی کوئی سفرنامہ نگار نہ سلجھا سکا۔ان لوگوں کے رسم و رواج دنیا زمانے سے نرالے ہیں۔ نیچے میدانوں کے لوگ ان پر ناک بھوں چڑھاتے ہیں،ان میں عیب نکالتے ہیں اور ان کو اپنی ساخت میں ڈھالنے کے درپے ہیں۔ تہذیبوں کو مٹا کر انسان کتنا خوش ہوتا ہے اور نہیں جانتا کہ خود اس کی تہذیب کی زندگی کی لکیر کتنی لمبی ہے۔
وادیٔ کیلاش کے یہ باشندے جن کے بارے میں طے ہو چکا ہے کہ یونانی نسل سے تعلق رکھتے ہیں، اپنے حال میں مگن ہیں اور جیسے جیتے چلے آئے ہیں اسی ڈھب چاہتے ہیں کہ جیے جائیں۔ مگرکچھ لوگ، اور شاید کتنے ہی لوگ اس تاک میں ہیں کہ انکی گردن دبوچیں اور سجدے میں جھکا دیں۔
یہ لوگ کیا جانیں سجدئہ حق کی شان
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)