• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

2013 ء میں جب ایڈورڈ جوزف اسنوڈن نامی ایک شخص نے امریکی دستاویزات کو افشا کیا، تو دنیا میں تہلکہ مچ گیا تھا۔ ان خفیہ دستاویزات میں بہت سا مواد ایسا تھا، جس کے بارے میں باقی دنیا نے کبھی سوچا بھی نہیں ہو گا لیکن جس بات نے دنیا کو سب سے زیادہ چونکا دیا، وہ یہ تھی کہ ہر شخص کی نگرانی کی جا رہی ہے، چاہے وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں رہتا ہے۔ اس سے پوری دنیا میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ ایڈورڈ اسنوڈن امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے سابق ملازم اور امریکی حکومت کے کنٹریکٹر تھے اور وہ خود کمپیوٹر کے ماہر ہیں۔ انہوں نے امریکا کی نیشنل سیکورٹی ایجنسی ( این ایس اے ) کی کلاسیفائیڈ دستاویزات کو افشا کیا تھا، جس میں نگرانی کے کئی پروگرامز کی نشاندہی کی گئی تھی۔ا ن پروگرامز میں ’’آپٹک نروز ‘‘ ( Optic Nerues ) نامی پروگرام بھی شامل تھا، جس کے تحت مختلف ملکوں کے شہریوں کی مکمل نگرانی کی جا رہی تھی۔

اس انکشاف کے بعد دنیا کا ہر شخص خوفزدہ رہنے لگا۔ امریکی ادارے فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی ) کے سابق سربراہ جیمز کومی ( James Comey ) سے ستمبر 2016 میں کسی نے سوال کیا تھا کہ آپ نے اپنے لیپ ٹاپ کے ویب کیمرے کو ٹیپ سے کیوں ڈھانپا ہوا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ ’’ میرا بہت سی باتوں پر مذاق اڑایا جاتا ہے اور اب اس بات پر بھی بہت مذاق اڑایا جا رہا ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ لوگ اپنی کاریں لاک کر دیتے ہیں۔ آپ رات کو اپنے دروازے بند کر دیتے ہیں۔ میرے پاس ایک الارم سسٹم ہے۔ اگر آپ کے پاس ہو تو آپ کو استعمال کرنا چاہئے۔ میں بھی استعمال کرتا ہوں۔ ‘‘ جی ہاں ! ہم سب نگرانی میں ہیں۔ آج کل زیادہ تر لوگوں کا زیادہ تر وقت اپنے اسمارٹ فونز کے ساتھ گزرتا ہے۔ کسی نے یہ درست کہا ہے کہ یہ فونز ہمارے اہل خانہ اور ہمارے دوستوں سے زیادہ ہمارے بارے میں جانتے ہیں۔ اگر کوئی ہمارے ان فونز میں رسائی حاصل کرلے تو ہماری زندگی ان کے ہاتھ میں چلی جاتی ہے۔ ضروری نہیں کہ ان اسمارٹ فونز کے ذریعے ہماری نگرانی یا جاسوسی کی جا رہی ہو۔ سائبر انٹیلی جنس ٹیکنالوجی ایسی ترقی کر چکی ہے کہ ہماری جاسوسی یا نگرانی کرنے والوں کے پاس بہت کچھ ہے، جو ایپ ہم زیادہ استعمال کرتے ہیں، ان سے ہی ہمارے بارے میں معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔ یہاں تک ہمارے دیگر آلات بشمول اسمارٹ ٹی وی، ریفریجریٹرز اور آلات بھی ہماری نگرانی کے آلات ہو سکتے ہیں۔ صرف یہی نہیں کچھ پیغامات ( میسج ) بھی ایسے ہوتے ہیں، جنہیں کلک کریں تو بنیادی طور پر جاسوسی سوفٹ ویئر ہوتے ہیں، جنہیں اسپائی ویئر ( Spyware ) بھی کہا جاتا ہے۔ اگر ایک دفعہ وہ انسٹال ( Install ) ہو جائے تو دوسری طرف ہماری تمام کالز سنی جا سکتی ہیں۔ اسکرین شاٹس لیے جا سکتے ہیں۔ ہمارے تمام میسج اور ای میل وغیرہ کو پڑھا جا سکتا ہے۔ ہماری رابطوں کی فہرست، فوٹو گیلریز اور برائوزر ہسٹری کو اسکین کیا جا سکتا ہے۔ اب تک سائبر انٹیلی جنس کے حوالے سے اسرائیلی سائبر انٹیلی جنس آلات تیار کرنیو الے اسرائیلی کمپنی ( این ایس او ) کا تیارہ کردہ پیگا سز ( Pegasus ) نامی اسپائی ویئر (Spyware ) ہے، جسے اب تک سب سے زیادہ جدید اور خطرناک تصور کیا جاتا ہے۔ سائبر سیکورٹی کے ادارے بھی اسے نہیں پکڑ سکتے۔ یہ اسپائی ویئر پہلے اگرچہ ان فونز کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا، جن میں ایپل کے آئی اوز سوفٹ ویئر استعمال ہوتے تھے لیکن اب یہ اینڈرائیڈ فونز کے لیے بھی دستیاب ہے۔ اس اسپائی ویئر کی دنیا کے کئی ملکوں میں نشاندہی ہوئی۔ این ایس او کے خلاف ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت کئی اداروں نے مقدمے بھی دائر کیے ہوئے ہیں۔ تازہ مقدمہ ایک سعودی شہری نے این ایس او کے خلاف کیا ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ یہ سوفٹ ویئر سعودی حکام نے جمال خاشقجی کے فون میں انسٹال کرایا تھا، جس سے ان کی نقل و حرکت اور گفتگو کا پتہ چلایا گیا۔ جمال خاشقجی کو ترکی میں سعودی سفارت خانے میں قتل کرد یا گیا تھا۔ اسرائیلی کمپنی این ایس او کا کہنا یہ ہے کہ اسرائیل کا یہ جاسوسی سوفٹ ویئر کلاسیفائیڈ ہتھیار ہے، جو صرف حکومت کی منظوری سے فروخت کیا جاتا ہے۔ دنیا کی ہر حکومت اب اپنے شہریوں کی سائبر مانیٹرنگ کر رہی ہے اور یہ اس کا قانونی اختیار ہے۔ اس مانیٹرنگ یا نگرانی کے لیے ہر حکومت جو سوفٹ ویئر حاصل کرتی ہے، وہ بھی قانونی طریقے سے حاصل کرتی ہے لیکن ایسے اسپائی ویئرز بنانے والی کمپنیوں پر حکومتوں کا کنٹرول نہیں ہے۔ ایڈورڈ اسنوڈن نے آپٹک نروز سمیت کئی سائبر انٹیلی جنس کے پروگرامز کا انکشاف کیا ہے۔ این ایس او کا پیگاسز بھی لوگوں کے سامنے آ گیا ہے لیکن بہت سے پروگرامز اور سوفٹ ویئر ایسے ہوں گے، جن کے بارے میں ابھی تک کوئی کچھ نہیں جانتا اور دنیا ان کی نگرانی میں ہو گی۔ بہت کم لوگوں کو اس بات کا احساس ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم سارا دن اپنے اسمارٹ فون میں الجھے رہنے سے دنیا سے باخبر ہو رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنے آپ سے بے خبر ہو گئے ہیں اور ہمارے بارے میں ہم سے زیادہ کوئی باخبر ہے۔ یہ بات نہ صرف ایک فرد کے لیے بلکہ قوموں اور عالمی برادری کے لیے بھی خطرناک ہے۔ ہم ایسے عہد میں رہتے ہیں کہ ہمیں پتہ بھی نہیں کہ ہمارے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ بقول شاعر

اک پل میں کیا کچھ بدل گیا، جب بے خبروں کو خبر ہوئی

میں تنہائی میں چھپا رہا، جب مجھ پر اس کی نظر ہوئی

تازہ ترین