اسلام آباد ( طارق بٹ) آزادی یا اسیری، نواز شریف اور آصف علی زرداری کیلئے دسمبر کا آخری ہفتہ بہت اہم اور نازک ہے۔ تمام نگاہیں ممکنہ عدالتوں فیصلوں پر مرکوز ہیں۔ سابق صدر اور معزول وزیراعظم دونوں کیلئے 24دسمبر کی تاریخ اہمیت کی حامل ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے احتساب عدالت اسلام آباد کو مذکورہ تاریخ پر پاناما فیصلے کے حوالے سے دائر دو ریفرنسز میں 17دسمبر تک سماعت مکمل کرکے 24تاریخ کو فیصلہ سنانے کی ہدایت کی ہے۔ 24دسمبر ہی کو چیف جسٹس کی سربراہی میں بنچ اربوں روپے کے جعلی بینک اکائونٹس کے حوالے سے ایف آئی اے جے آئی ٹی کی تیار کردہ حتمی رپورٹ پر غور کرے گا۔ جس میں آصف زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور مبینہ طور پر ملوث ہیں۔ گزشتہ سماعت میں جے آئی ٹی کو دو ہفتوں میں اپنی رپورٹ مکمل کرنے کیلئے کہا گیا تھا۔ یہ معیاد 19دسمبر کو مکمل ہو جائے گی۔ ایک افسر کے مطابق ایف آئی اے کی40فیصد نفری جے آئی ٹی کی رپورٹ تیار کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ جس میں کراچی، لاہور اور پشاور سمیت تمام زونز کے افسران شامل ہیں۔ ان کے علاوہ اسٹیٹ بینک ایس ای سی پی اور ایف بی آر کے افسران بھی معاونت کر رہے ہیں۔ جے آئی ٹی سربراہ احسان صادق رپورٹ تیار کرنے میں مصروف ہیں۔ جو عدالت عظمیٰ کو سربمہر لفافے میں پیش کی جائے گی۔ جس کی سفارشات سے حتیٰ کہ ڈائریکٹر ایف آئی اے تک لاعلم ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ اب یہ سپریم کورٹ پر منحصر ہے کہ وہ آصف زرداری اور دیگر کی گرفتاری کا حکم جاری کرے۔ آصف زرداری نے جے آئی ٹی میں اپنا بیان ریکارڈ کرا دیا ہے جبکہ ان کے بیٹے بلاول نے تحریری جواب جمع کرایا۔ اگر نواز شریف کو احتساب عدالت سے سزا اور آصف زرداری کی گرفتاری ہوئی ہے تو سیاسی درجہ حرارت بڑھ جائے گا۔ تاہم دونوں کا کہنا ہے کہ وہ جیل جانے سے نہیں ڈرتے۔ زرداری کا تو کہنا ہے کہ جیل ان کا دوسرا گھر ہے۔ رواں سال جولائی میں جب احتساب عدا لت نے نواز شریف کو لندن اپارٹمنٹس کیس میں مجرم قرار دیا تو اپنی اہلیہ مرحومہ کی علالت کے باوجود انہوں نے بیٹی مریم کے ساتھ وطن واپس آکر گرفتاری دی۔ نواز شریف اور آصف زرداری کے خلاف دونوں کو ایک دوسرے کے مزید قریب لے آئے گی۔