• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بداعتمادی ۔ پاک افغان تعلقات میں بڑی رکاوٹ

پاکستان اس خطے میں امن و سلامتی کو یقینی بنانے اور تمام ہمسایہ ممالک سے خوشگوار تعلقات کو فروغ دینے کی پالیسی پر گامزن ہے بالخصوص ہمسایہ اور برادر ملک افغانستان سے بداعتمادی کو ختم کرنے، جنگ زدہ افغانستان کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کرنے، صدیوں پر محیط مذہبی، ثقافتی، تجارتی تعلقات کو فروغ دینے اور دونوں ملکوں کے سرحدی علاقوں میں منقسم خاندانوں کی ایک دوسرے کے یہاں آمد و رفت میں رکاوٹیں دور کر کے انہیں مل بیٹھنے کا موقع فراہم کرنے کے لئے ہمیشہ سرگرم عمل رہا ہے لیکن افغانستان کی طرف سے اس آمد و رفت کو اس کے اندرونی معاملات میں مداخلت اور دہشت گردی کا ذریعہ قرار دینے کے حوالے سے پاکستان نے نہ صرف سرحدی علاقوں میں چیکنگ پوسٹیں قائم کر کے منشیات کی سمگلنگ کو بھی روکنے کی کوشش کی ہے بلکہ افغانستان کی طرف سے الزام تراشی اور غلط فہمی کا ازالہ کرنے کو بھی اپنا ہدف قرار دیا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان میں برطانوی ہائی کمشنر کا یہ کہنا مبنی بر حقیقت ہے کہ پاک افغان تعلقات میں بداعتمادی کی رکاوٹ اور شکوک و شبہات کو ختم کرنا دونوں ملکوں کی اجتماعی ذمہ داری ہے اور پاک افغان سرحد کو محفوظ بنانے کے لئے دونوں ملکوں کو بھرپور تعاون کرنا ہو گا اور اس سیاسی عمل کو آگے بڑھانا ہو گا۔ امر واقع یہ ہے کہ افغان مسئلے کے حل میں پاکستان کے کردار کی ضرورت اور اہمیت کا پوری عالمی برادری اعتراف کر چکی ہے چنانچہ افغانستان میں روسی جارحیت کے ارتکاب کے بعد پاکستان نے نہ صرف افغانستان کا بھرپور ساتھ دیا بلکہ اسے افغان جہاد کا نام دے کر ملک بھر کی مذہبی و سیاسی جماعتوں نے بھرپور تعاون کرتے ہوئے زبردست قربانیاں بھی دیں۔ 50لاکھ افغان مہاجرین کو پاکستان میں پناہ دی گئی اور آج بھی 30لاکھ کے لگ بھگ افغان مہاجرین پاکستان میں موجود ہیں جن کی واپسی کو موخر کر دیا گیا ہے۔ افغان حکمرانوں خاص کر صدر حامد کرزئی اور سابق وزیر داخلہ عبداللہ عبداللہ کی طرف سے پاکستان کے خلاف قطعی بے بنیاد اور مضحکہ خیز الزام تراشی کو پاکستان نے کبھی تسلیم نہیں کیا بلکہ اسے غلط قرار دے کر افغانستان کو یہ رویہ ترک کرنے اور پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کرنے کا مخلصانہ مشورہ دیا ہے۔ جہاں تک افغان حکومت اور نیٹو فورسز پر ہونے والے حملوں کا تعلق ہے تو یہ افغان عوام کے قبائلی مزاج کی ایک تاریخی روایت ہے کہ انہوں نے اپنے ملک پر کبھی کسی غیرملکی حکومت اور تسلط کو تسلیم نہیں کیا ۔ اسی طرز عمل نے روس کو شکست سے دوچار کر کے یہاں سے نکل جانے پر مجبور کر دیا اور آج امریکہ اور اس کے حواری بھی واپس جانے کا موقف واضح کر چکے ہیں۔ امریکہ 2014کو افغانستان سے اگر واپس جانے کا فیصلہ کر چکا ہے تو یہ افغان عوام کی طرف سے اپنی آزادی کو برقرار رکھنے اور غیرملکی تسلط کو ختم کرنے کے لئے قبائلی مزاج کو بروئے کار لاتے ہوئے امریکہ کو اپنی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے واپس چلے جانے پر مجبور کرنا ہے۔ پاکستان ہمیشہ دونوں ملکوں کے سرحدی علاقوں میں امن و استحکام کو فروغ دینے کی پالیسی پر گامزن رہا ہے اور اس وقت بھی وہ دونوں جانب سے غیر قانونی آمد و رفت کو روکنے، دہشت گردوں کی سرگرمیوں پر قابو پانے اور علاقے میں امن و استحکام کی فضا پیدا کرنے کے لئے افغانستان کے ساتھ بھرپور تعاون کا خواہاں ہے کیونکہ دو طرفہ تعاون ہی اس مقصد کے حصول کو ممکن بنا سکتا ہے۔ یہ امر باعث اطمینان ہے کہ جہاں ذمہ دار امریکی حلقے افغانستان سے واپسی کا فیصلہ کر چکے ہیں وہاں وہ پاکستان کی طرف سے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے دی جانے والی قربانیوں کے بھی معترف ہیں کیونکہ ان کے خلاف کارروائی میں پاکستانی فوج کے آفیسر اور جوان بڑی تعداد میں شہید ہو چکے ہیں اور صوبہ سرحد کے اکثر علاقوں کے علاوہ پاکستان کے بیشتر شہر بھی دہشت گردی کی لپیٹ میں آ چکے ہیں جس نے معمولاتِ زندگی کے علاوہ قومی معیشت پر بھی سخت ناخوشگوار اثرات مرتب کئے ہیں۔
افغان حکومت کو اس امر کا بھی احساس کرنا ہو گا کہ خطے میں پائیدار امن کے قیام کے لئے امریکہ کی واپسی کے بعد بھارت کو کوئی کردار سونپنا ہرگز خود اس کے اور پاکستان کے مفاد میں نہیں۔ اس نے پاکستان سے ملحقہ افغان شہروں میں بھارت کو 14قونصل خانے کھولنے کی جو اجازت دے رکھی ہے اس کا کوئی جواز نہیں اس لئے کہ یہ سفارت خانے دہشت گردوں کی تربیت گاہیں ہیں جہاں انہیں تربیت دے کر قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں داخل کر دیا جاتا ہے اور انہیں بھاری اسلحہ بھی فراہم کیا جاتا ہے۔ بلوچستان میں امن و امان کی صورت حال کو دگرگوں بنانا اور اس کے خلاف بلوچ عوام کا شدید ردعمل افغانستان کی اس غلط پالیسی کا نتیجہ ہے ورنہ بلوچ عوام انتہائی محب وطن ہیں جنہوں نے قیام پاکستان کی بھرپور تائید و حمایت کی تھی وہ علیحدگی کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ افغان حکمرانوں کو اس امر کا احساس کرنا ہو گا کہ دونوں ملکوں کے عوام امت مسلمہ کا حصہ ہیں۔ ان کے درمیان مذہبی ، سیاسی، ثقافتی تعلقات اور تجارتی روابط صدیوں پر محیط ہیں نہ ان کی سرحدیں تبدیل کی جا سکتی ہیں نہ ان تعلقات کی تاریخ کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں عالم اسلام کے اتحاد و یکجہتی کا احساس پوری شدت کے ساتھ سامنے آ رہا ہے اور اسلام دشمن قوتوں کا مقابلہ کرتے وقت امت مسلمہ کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے اسلامی کانفرنس کی تنظیم کو زیادہ سے زیادہ موثر بنانے کی ضرورت پر زور دیا جا رہا ہے۔ ان حالات میں افغان حکمرانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ زمینی حقائق اور معروضی حالات کا ادراک کرتے ہوئے پاکستان کے مثبت طرزِ عمل کا مثبت جواب دیں اور خطے کی سلامتی، تعمیر و ترقی اور خوشحالی کے لئے مشترکہ کوششوں کو کامیاب بنانے میں پاکستان کا بھرپور ساتھ دیں۔
تازہ ترین