ایمان والوں نے اسے ملحد کہا اور پھر ملحدوں نے اسے مومن۔ پرایوں نے اسے غدار کہا اور پھر اپنوں نے بھی۔ کسی نے اسے باغی کہا تو کسی نے اسے ریاست کا وفادار۔ لیکن اس نے بھی سچل سر مست کی طرح کہا ’’میں جوہوں سو وہی ہوں۔‘‘
’’یہ بے سمجھ سمجھو یہ انجان جانکار، بھری بزم میں ہم نے تنہا گزارا‘‘
یہ شیخ ایاز تھا برصغیر میں سندھی زبان کا بڑا شاعر جسے اس کے مداحوں نے سندھ کا قومی شاعر مانا۔ سندھ کی آواز شیخ ایاز۔ جسے دوستوںاور کئی دشمنوں نے بھی شاعری میں شاہ لطیف ثانی قرار دیا۔ شیخ ایاز جس نے اپنی تحریروں کی وجہ سے اپنی جوانی و پکی عمر کا ایک بڑا حصہ جیلوں میں گزار دیا۔اسے اس کی زندگی میںلوگوں اور پڑھنے والوں نے جو پذیرائی دی وہ برصغیر پاکستان و ہند میں شاید ہی کسی شاعر کو جیتے جی نصیب ہوئی ہو۔
کل اٹھائیس دسمبر اس شاعر کی برسی ہے۔ انیس سو ستانوے میں یہ عظیم شاعر کل کے دن اس جہان رنگ و بو سے گزر گیا۔
کھلے ہم دامنِ صحرا میں
خوشبو بھی اکارت گئی
کم از کم مندرجہ بالا اس شعر کےالفاظ خود شیخ ایاز پہ لاگو نہیں ہوتے۔ آج بھی اس کی نظم و نثر کی خوشبو کچی مٹی کے گھڑوں میں صدیوں تک جذب ہوتی خوشبو کی طرح ہر طرف بکھری ہوئی ہے۔ یہ جو سندھ و ملک کے مستقبل کا شاعر ہے۔
مری روح کی راگنی سن رہے ہو
پرانی سی لے ہے پرانے سے نغمے
پرانی سی مئے ہے پرانے سے شیشے
جنہیں میں چرالایا ہوں ساقیان ازل سے
اس طرح کی شاعری کرنے والے شاعر کی یہ سطریں اس کی اردو شاعری کی ہیں۔ اس نے پہلے اردو میں شاعری کی اور اس کے شعری مجموعے ’’بوئے گل نالہ دل‘‘ پر اسے پاکستان رائٹرز گلڈ کی طرف سے بہترین شاعری کا انعام بھی ملا تھا۔ لیکن پھر اس نے اپنی مادری زبان سندھی میں شاعری کرنا شروع کی۔ اسکی اولین دو کتابیں ایوب خان کی آمرانہ حکومت نے ضبط کرلیں لیکن اس کے پڑھنے والوں نے اسے کندھوں پر اٹھائےرکھا۔
میری قیمت پوچھ رہے ہو
میرے گیت خریدو گے تم؟
اس نے ایوب خان سے شعر میں کہا تھا۔ اس نے کہا تھا ’’میں تیرے گیت لکھوں اے دھرتی تو پابہ زنجیر کرے‘‘
شیخ ایازسندھ کے شہر شکارپور میں 23 مارچ انیس سو اٹھائیس کو پیدا ہوئے تھے۔اس زمانے کا شکارپور سندھ کا پیرس کہلاتا تھا۔ زار شاہی والے روس اور سمرقند بخارا سے لے کر انڈونیشیا جاوا تک بیوپار کرنے والے ساہوکار ہندوئوں کا آبائی شہر شکارپور تھا۔ جہاں وہ ان مراکز سے پیسہ کما کر اپنے شہر پر لگاتےتھے۔ شہر کی تعمیر و ترقی پر خرچ کرتے۔ نہریں، باغات، اسپتال، لائبریریاں، اسکول کالج پر خرچ کرتے تھے۔ یہ ہندو مسلم ایکتا کا زمانہ تھا۔ اسی شہر میں شیخ ایاز سے بہت پہلے صوفی اور شاعر چین رائے سامی بھی رہتا تھا جو اپنی تخلیقات عام کرنے کے بجائے گھڑوں میں رکھتا جاتا تھا۔ چین رائے سامی کے مرنے کے بعد جب اس کے مٹکے توڑے گئے تو ان میں سے نکلنے والے کلام کی وجہ سے سامی سندھی زبان میں شاہ لطیف اور سچل سرمست کے ساتھ ثہ مورتی کہلایا۔ یعنی کہ عرف عام میں آج بھی اس ثہ مورتی کو شاہ سچل سامی کہا جاتا ہے۔
باپ غلام حسین شیخ اور نو مسلم ماں کے گھر جنم لینے والا شیخ مبارک ایاز بھٹائی شاہ لطیف کے بعد سندھی زبان کا سب سے بڑا شاعر کہلایا۔ شیخ ایاز کا شاعری اور ابتدائی تعلیم میں استاد صوفی جھ امن داس تھا۔ سی اینڈ ایس کالج شکارپور میں بھارت کا مایہ ناز سندھی نژاد وکیل رام جیٹھملانی شیخ ایاز سے ایک یا دو سال سینئر تھا۔ شیخ ایاز نے مجھے بتایا تھا کہ کالج کے زمانے میں وہ اور رام جیٹھملانی تقریری مقابلے میں بھرپور حصہ لیا کرتے تھے۔ تب ایک نقلی پارلیمان بھی منعقد ہوتی تھی اور جیٹھملانی اور وہ اس موضوع پرکہ’’اگر میں ہندوستان کا ایک دن کا وزیر اعظم ہوتا‘‘تقریریں کیا کرتے تھے۔
شکارپور کے شاہی باغ کے درخت، پرندے چاروں موسم،سندھ واہ نام کی نہر میں تیراکی، اکھاڑوں میں ورزشیں شیخ ایاز کی شخصیت میں جسمانی چستی لائے تھے۔گیارہ سال کی عمر میں دیوان غالب یاد کرنے والا اور اپنی پہلی نظم لکھنے والا یہ بچہ شیخ ایاز جب بڑا ہورہا تھا تو اسکے آس پاس ہندو مسلم تضاد ابھرنا شروع ہوچکا تھا۔ اس کے قریبی رشتہ دار شیخ واجد علی مسلم گارڈز میں شامل تھے اور تحریک پاکستان اور اس سے قبل منزل گاہ والے خونی فسادات کی ایجی ٹیشن کمیٹی میں بھی جی ایم سید کے ساتھ تھے۔ شیخ واجد علی اور دیگر رشتہ داروں کی وجہ سے شیخ ایاز بھی رضاکاروں کے گروہ میں شامل ہوگیا تھا۔ اوراس نے مجھے بتایا تھا کہ ورزشی جسم کی وجہ سے ایک ہندو فیملی کے بند گھر کے روشندان سے اندر کود کر اس نےاپنے باہر کھڑے ساتھیوںکے لئے لوٹ کی واردات کے لئے دروازہ کھولا تھا۔ وہ ایسے کئی گھروں کے بغیر آواز کے تالے کھول لیتے تھے۔
تقسیم تک شیخ ایاز کی سوچ میں کافی ٹھہرائوآچکا تھا۔جس کی وجہ ان کا وسیع مطالعہ، برصغیر میں برطانوی سامراج مخالف تحریکیں، اور دوستوں میں حشو کیولرامانی، اور محمد ابراہیم جویو جیسے پڑھے لکھوں کا نہایت ہی اثر تھا۔ حشو کیولرامانی رابیندر ناتھ ٹھاکر جسے انگریزوں نے ٹیگور کہا شانتی نیکتن کا گریجویٹ تھا۔ تقسیم کے وقت حشو کیولرامانی بھارت نقل مکانی پر مجبور کردیا گیا تھا۔ ہندوستان کو حشو کیولرامانی نے کبھی نہیں مانا۔ وہ خود کو پاکستانی کہلاتا۔ اسے سیفٹی ایکٹ میں نظربند کیا گیا۔ نظربندی تک وہ اس زمانےکے اخبار’’پاکستان ٹربیون‘‘ کا ایڈیٹر تھا۔ باچا خان سے متاثر حشو ہندوستان میں جاکر رل گیا۔ گمنامی کی جلاوطنی کی موت مرا اور اس کی لاش آج تک ہاتھ نہیں آئی۔ نہرو کے دماغ والا سندھی جینئس نیم خبطی بن چکا تھا۔ کہتے ہیں کہ وہ الہاس نگر کی ندی میں ایک طوفانی رات بہہ گیا کوئی کہتا ہے کہ الہاس نگر کے ایک مندر کے بائولے نے حشو کے سر پر ڈنڈا دے مارا تھا۔ انیس سو پچاس کی دہائی کے آخر میں بھارت کے دورے کے دوران حشو کی ملاقات شیخ ایاز سے ہوئی تھی حشو نے ایاز سے کہا تھا’’ایاز سندھ میں کسی مہاجر پر ہاتھ نہ اٹھانا کہ میں بھی ہند میں مہاجر ہوں‘‘۔ایاز نے حشو کی موت پر کئی شعر لکھے ہیں۔ یہ بھی لکھا’’الہاس نگر کی تیز ہوا کس وقت حشو کو ڈھونڈے ‘‘ میں کہتا ہوں دسمبر کی تیز سرد ہوائیں شیخ ایاز کو ڈھونڈتی ہیں۔
شیخ ایاز کی شاعری میں جھانسی کی رانی، تانتیا ٹوپی، بھگت سنگھ، حشو کیولرامانی، جی ایم سید، ٹیگور، نذرل بھی ملتے ہیں تو وہ انتہاپسندوں کو للکارتابھی نظر آتا ہے:
اے باغی اور راج در وہی بھارت میں بلوے کے بانی۔
یہ تقسیم سے قبل انکی لکھی ہوئی زیر بندش نظم کے بند ہیں۔ شیخ ایاز زبان اور جغرافیائی قید وبند سےماورا شاعر ہیں۔ بلھے شاہ کے اس لاثانی مصرعے’’سب اکو رنگ کپاہیں دا‘‘کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں ۔
اور انوکھے چولے بھی ہیں
رنگ مگر کو سائیں کا
بلھے یار آرائیں کا
کیسے او پنجاب بجھایا
تونے عشق کا بھانبھن
نہائیں کا
بلھے یار آرائیں کا
(نہائیں سندھی میں کمہار کے جلتے کھورے کو کہتے ہیں جس کی آگ میں وہ مٹی کے کچے برتن پکاتا ہے)