انسانی تاریخ مزاحمت اور مفاہمت کے واقعات سے مزین ہے اور آج تک کی سیاسی تاریخ ان دونوں نظریات کے استعاروں پر مشتمل ہے۔ دراصل مزاحمت جبر کے خلاف سینہ سپر ہونے کا نام ہے جبکہ مفاہمت انسانی سماج کو رواداری اور برداشت کی بنیاد پر آگے بڑھنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ سقراط جبر اور جہل کے خلاف مزاحمت پر کاربند ہونے کے باوجود معاشرے کو فساد سے بچانے کیلئے غلط فیصلے پر بھی سرتسلیم خم کرکے کسی نہ کسی طرح معاشرے کو مفاہمت کے ذریعے آگے بڑھنے کا موقع فراہم کرتا ہے ماضی قریب کی سیاسی شخصیات میں نیلسن میڈیلانے جہاں نسل پرستی کی نفرت کے خلاف بھرپور مزاحمت کرتے ہوئے دہائیوں کی قیدو بند کو برداشت کرتے ہیں وہیں اپنے ملک سے نسل پرستی کے خاتمے کیلئے اپنے مخالفین کے ساتھ مفاہمت کا اعلان کرکے اپنے ذاتی مصائب پر قومی اور سماجی مفاد کو اہمیت دیتے ہیں۔
محترمہ بے نظیر بھٹو شہید(2007-1953)کی بے مثل سیاسی جدوجہد، مزاحمت اور مفاہمت کا بہترین امتزاج ہے۔طاقتوروں کے خلاف مزاحمت اور امن و مساوات اور جمہوریت کیلئے مفاہمت، یہ دونوں نظریات کی تربیت بی بی کو اُن کے والد کی طرف سے ملی۔آمریت کے خلاف مزاحمت اور سیاسی قیادت کے ساتھ مفاہمت، ملک کے دشمنوں کے ساتھ مزاحمت اور برصغیر کے امن کیلئے مفاہمت جیسا کہ’’شملہ معاہدہ‘‘جس میں محترمہ اپنے والد کے ہمراہ شریک تھیں،مفاہمت کی ایک مثال ہے۔بے نظیر بھٹو کی مزاحمت اپنے والد کی گرفتاری کے نتیجے میں شروع ہوتی ہے جو کہ پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خالق بھی تھے جن کی بدولت ریاست کو بیرونی استحکام میسر آیا اور متفقہ آئین کی صورت میں اندرونی استحکام نصیب ہوا۔ بھٹو صاحب نے پاکستان کے 93000قیدیوں کو دشمن سے آزادی دلوائی وہیں اسلامی سربراہی کانفرنس کے ذریعے پہلی دفعہ مسلم اُمہ کو متحد کرکے دکھایا،ذوالفقارعلی بھٹو نے اپنی مزاحمت ومفاہمت کی اس سیاسی میراث کو محترمہ بے نظیر بھٹو کے سپرد کیا جسے بی بی نے اپنے والد کی شہادت سے لے کر اپنی شہادت تک بے نظیر انداز میں نبھایا۔بندوق والوں کو نہتی لڑکی سے بھی ڈر لگتا تھا اور وہ تجربہ کار بے نظیر قیادت سے بھی خوف زدہ رہے لیکن سانحہ کارساز کے باوجود بی بی نے مزاحمتی انداز کو نہ چھوڑااور ’’شہادت ہماری میراث ہے ‘‘کے اصول کو اپنے لہو سے ایسا بے نظیر رنگ دیا کہ دنیا مان گئی کہ باپ دلیر تھا تو بیٹی بھی دلیری میں بے نظیر تھی۔اپنے والد کی شہادت کے بعد بے نظیر بھٹو نے تین قوتوں کے ساتھ مزاحمت کا اعلان کیا، ان میں آمرانہ، سرمایہ دار اور انتہا پسند قوتیں شامل تھیں۔ ان کے ساتھ ساتھ بے نظیر بھٹو نے تمام سیاسی قوتوں کے ساتھ مفاہمت کا آغاز کیا۔ اور ARDکے قیام کے لئے اپنے والد کے مخالف سیاست دانوں کو آمریت کے خلاف منظم اور متحد کیا۔ اس طرح بے نظیر بھٹو کی پہلی سیاسی دہائی مزاحمت اور مفاہمت سے بھرپور رہی۔عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیر اعظم منتخب ہونے پر محترمہ نے مظلوم کشمیریوں اور نہتے فلسطینیوںکے حقوق کیلئے بھارت اور اسرائیل کے جبرکے خلاف مزاحمت کو بین الاقوامی سطح پر جلابخشی۔ کشمیری قیادت اور یاسرعرفات کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ محترمہ نے اپنی روایتی حریف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بھی مفاہمت کا آغاز کیا تاکہ آمر یت کے اثرات کو ختم کرنے کیلئے تمام اداروں کو ہم آواز اور ہم آہنگ کیا جا سکے۔جنرل اسلم بیگ کو ترغیب کے باوجود مارشل لا ء نہ لگانے پر تمغہ جمہوریت دینا اسی مفاہمت کا جیتا جاگتا ثبوت تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے سب سے بڑے سیاسی مخالف نواز شریف سے مزاحمت جاری رکھی جو کہ اُس وقت ’’لاڈلے‘‘ کا کردار ادا کررہے تھے لیکن غیر جمہوری قوتوں کے خلاف ہمیشہ اُن کے ساتھ سیاسی مفاہمت کا دروازہ بھی کھلا رکھا۔ اس طرح بی بی نے آمریت کی باقیات کے خلاف مزاحمت کو عروج بخشا مگر جمہوریت اور پارلیمانی بالادستی کے لئے خارجہ امور کمیٹی کی چیئرپرسن بن کر سیاسی مفاہمت کو فروغ دیا۔
اسی طرحMQMکے ساتھ مزاحمت اور مفاہمت کا عمل جاری رکھا۔مزاحمت اُن کے دہشت پسند گرو ہ کے خلاف اور مفاہمت اُن کے سیاسی افراد کے ساتھ۔ نصیراللہ بابر کی قیادت میں آپریشن دہشت پسند گرو ہ کے خلاف اور سیاسی مذاکرات کا سلسلہ امن پسند قوتوں کے ساتھ۔اسی طرح جنرل مشرف کی آمریت کے خلاف بی بی کی مزاحمت کو بین الاقوامی سطح پر بھی پذیرائی ملی اور جنرل مشرف کو عالمی قوتوں میں تنہا کر دیا مگر ملک کو پر امن جمہوری اقتدار تک لے جانے کیلئے اور مشرف کی وردی اتروانے کیلئے مفاہمت کا آغاز کیااور مشرف کو بے وردی کرکے اس کی طاقت کے مرکز کو ختم کیا۔ جس سے ملک میں دوبارہ جمہوریت کا آغاز ممکن ہوا۔ آج تاریخ اُن کے اس کردار کو خراج عقیدت پیش کرتی ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی مزاحمت تاریخ کا حصہ ہے جس میںافغان جنگ میں ریاست کا کردار، عدالیہ کی جانب داری، عوام کے بنیادی حقوق اور اُن کے حق حاکمیت پر ڈاکہ ڈالنا شامل ہے۔ مگر یہ مزاحمت ریاستی اداروں کی کمزوری کیلئے نہ تھی بلکہ اداروں کی مضبوطی کیلئے بی بی نے ہمیشہ مفاہمت کی راہ اپنائی۔یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ بے نظیر بھٹو کی مزاحمت بھی عوام کیلئے تھی اور مفاہمت بھی عوام کے حق کیلئے رہی۔ بقول فیض!
اُدھر ایک حرف کہ کشتنی یہاںادھر لاکھ عذر تھا گفتنی
آج بھی جبر وجہل کی قوتیں اور بندوق والے اور اُن کے حواری بے نظیر بھٹو کے نام،اُس کے کام، اُس کی آن، اُس کی شان، اُس کی سوچ،اُس کے نظریے، اُس کے ذکر، اُس کی فکر، اُس کی وراثت، اُس کے وارث اوراُس کی میراث اور اس کے کارکنوں سے ڈرتے ہیں۔ پر امن خوشحال اور ترقی پسند پاکستان کی بنیاد آج بھی اس بات پر ہے کہ ہمیں دلیل کی بنیاد پر فیصلہ کرنا ہے کہ کن قوتوں سے مزاحمت کرنی ہے اور کن قوتوں کے ساتھ مفاہمت لازم ہے۔ یقیناً ریاست کو جبر اور بندوق والوں کے خلاف مزاحمت کا راستہ اپنانا ہے اور سیاسی قوتوں کے ساتھ مفاہمت ہی ریاست کی بقاکیلئے ضروری ہے۔ یہی راستہ قوم، ملک، سلطنت کو پائندہ تابندہ باد بنا سکتا ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)