یہ میری آنکھوں اور کانوں کا امتحان تھا۔بہت معمولی شکل و صورت کا یہ معمولی اداکار اور انتہائی ’’ماٹھا‘‘ گلوکار اک ایسے لازوال گیت پر طبع آزمائی کر رہا تھا جو برصغیر پاک و ہند کی فلم انڈسٹریز کے ہینڈسم ترین سنتوش کمار پر پکچرائز کیا گیا اور اک کلاسیک کاسا درجہ رکھتا ہے۔’’جب ترے شہر سے گزرتا ہوںجانے کیا کیا خیال کرتا ہوںوہ زمانہ تری محبت کاایک بھولی ہوئی کہانی ہےکس تمنا سے تجھ کو چاہا تھاکس محبت سے ہار مانی ہےتیری رسوائیوں سے ڈرتا ہوںجب ترے شہر سے گزرتا ہوں‘‘فلم تھی ڈبلیو زیڈ احمد کی ’’وعدہ‘‘ جو 50کی دہائی میں ریلیز ہوئی۔ گیت لکھا تھا سیف الدین سیف صاحب نے اور گایا تھا شرافت علی نے جو شاید یہی اک گیت گانے کے لئے پیدا ہوا تھا۔ لیڈ رولز میں تھے سنتوش اور صبیحہ جو پاکستان میں وہی مقام رکھتے جو بھارت میں دلیپ کمار مدھو بالا کو حاصل تھا۔ بہت ہی چھوٹی عمر میں پہلی بار یہ فلم دیکھی تو یہ گیت پھولوں سے بھری کسی بیل کی طرح میری روح کے گرد لپٹتا چلا گیا۔ سمجھ تو کیا آنی تھی اس عمر میں لیکن شاعری، کمپوزیشن، آواز اور وہ چہرہ جس پر یہ گیت پکچرائز ہوا، سب میری ذات کا حصہ بن گئے اور آج تک جوں کے توں مرے ساتھ ہیں۔ لڑکپن، جوانی، ادھیڑ عمری اور اب بڑھاپے کے ساتھی اس گیت کو سینکڑوں بار سنا اور ہر بار اک نئی دنیا کا سفر کیا۔’’آج بھی کارزار ہستی میںتو اگر ایک بار مل جائےچین آ جائے آرزوئوں کوحسرتوں کو قرار مل جائے‘‘یہ ان چند گیتوں میں سے ہے جو میرے لئے کسی تھراپی سے کم نہیں۔ اداسی ہو یا بے ثباتی کا احساس، تھکن ہو یا بیزاری، مایوسی ہو یا ڈپریشن، یہ گیت ہمیشہ میرے لئے ’’میجک‘‘ کا کام کرتا ہے۔ خاص طور پر کہانی کے انجام پر جب ہیروئین اپنا ’’وعدہ‘‘ وفا کرنے میں ناکام ہونے کے بعد زہر کھا کر مر جاتی ہے اور ہیرو اس کی آخری جھلک دیکھ کر تھکا ہارا دل شکستہ واپس لوٹتا اور یہ گیت دوسری بار اس پر اوورلیپ ہوتا ہےوہ زمانہ تری محبت کاایک بھولی ہوئی کہانی ہےکس تمنا سے تجھ کو چاہا تھاکس محبت سے ہار مانی ہےتو دیکھنے والوں پر سحر طاری ہو جاتا ہے اور دیکھنے والا مجھ جیسا ہو تو زندگی بھر اس سحر میں گرفتار رہتا ہے اور اس سحر سے رہا ہونا بھی نہیں چاہتا۔لیکن یہ جو ’’بلو کے گھر‘‘ سے نکل کر ’’چھنو کی آنکھ‘‘ میں جا گھستے ہیں، انہیں اتنا سا احساس بھی نہیں کہ کدھر منہ مارنا ہے اور کس سے منہ چھپانا ہے۔ زندگی میں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں، ایک وہ جو کھلے، ادھ کھلے گلابوں کو دیکھ کر اس خیال میں گم ہو جاتے ہیں کہ ان پھولوں کا مقدر کیا ہو گا؟ یہ کسی سہرے یا جوڑے میں سجیں گے یا کسی قبر ، ارتھی کے کام آئیں گے، دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جن کے منہ میں یہ سوچ کر پانی بھر آتا ہے کہ ان پھولوں سے تیار ہونے والا گل قند کتنا لذیذ ہو گا۔ اپنا اپنا نصیب ہے جیسے ساحر نے لکھا’’دو بوندیں ساون کیایک گرے ہے سیپی میں اور موتی بن جائےدو جی گندے جل میں گر کر اپنا آپ گنوائےدو بوندیں ساون کی‘‘لیکن یہاں تو قدم قدم پر ایسا ایسا فنکار ہے جس کے بارے میں پڑھنے سننے سے آنکھیں دکھنے لگتی ہیں اور کان سنسنانے لگتے ہیں مثلاً تین چار دن سے یہ خبر سامنے رکھے بار بار سوچ رہا ہوں کہ یہ سچ نہیں ہو سکتی اور اگر سچ ہے تو پھر اس سے آگے ہمارا مقدر کیا ہے۔ صرف تین سرخیاں پڑھ لیں۔چودہ کے چودہ طبق روشن ہو جائیں گے اور یہ اندازہ لگانا بہت آسان ہو جائے گا کہ ہماری منزل کیا ہے۔’’نیب انکوائری میں خود کو مردہ قرار دینے والا شخص ڈرگ اتھارٹی کا سربراہ تعینات‘‘’’شیخ اختر نیب انکوائری میں خود کو مردہ قرار دے کر سزا سے بچ نکلے تھے‘‘’’اختر حسین سی ای او تعینات۔ باقاعدہ منظوری وفاقی کابینہ کی جانب سے دی گئی‘‘خبر کی تفصیل میں کیا جانا، سرخیاں ہی کافی ہیں۔’’جب ترے شہر سے گزرتا ہوںتیری رسوائیوں سے ڈرتا ہوںوہ زمانہ تری محبت کاایک بھولی ہوئی کہانی ہےکس تمنا سے تجھ کو چاہا تھاکس محبت سے ہار مانی ہے ‘‘خدا جانے مملکت خداداد میں آنکھوں اور کانوں کے لئے کتنے امتحان باقی ہیں!