اسلام آباد(نمائندہ جنگ) عدالت عظمیٰ نے ’’سندھ میں سرکاری جنگلات کی 70؍ہزار ایکڑ اراضی کی غیر قانونی الاٹمنٹ اور ایک لاکھ 45؍ہزار ایکڑ زمین ناجائز قابضین سے واگزار نہ کرانے‘‘ سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران آئندہ سماعت پر بحریہ ٹائون کے سی ای او کو ذاتی حیثیت میں جبکہ وزیرِ جنگلات، چیف سیکرٹری اور سیکرٹری محکمہ جنگلات سندھ کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا ہے اور کیس کی سماعت 9؍ جنوری تک ملتوی کر دی۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے عدالتی حکم کے باوجوداراضی واگزار نہ کروانے پر صوبائی حکومت پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے ہیں کہ جو لوگ حکومت کرنے کے اہل نہیں ہیں، وہ حکومت کو چھوڑ کیوں نہیں دیتے ہیں، صوبائی حکومت کی کارکردگی پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آپ نے کام نہیں کرنا تو حکومت چھوڑ دیں۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربرا ہی میں جسٹس فیصل عرب اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تین رکنی بینچ نے بدھ کے روز کیس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے آج تک نہیں دیکھا کہ حکومت خود تسلیم کررہی ہو کہ اسکی اراضی پرقبضہ کیا گیاہے، اور پھر بعد میں اس پر کوئی کارروائی بھی نہ کرے ؟ ماحول کیلئے جنگلات انتہائی ضروری ہیں، وزیر جنگلات اور متعلقہ ادارے کہاں ہیں؟ 70؍ ہزار ایکڑز پر قبضہ ہے تو اسے چھڑواتے کیوں نہیں ہیں؟ ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے عدالت میں رپورٹ پیش کی کہ محکمہ جنگلات کی اراضی کی حد بندی کی جارہی ہے،جس پر چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ سندھ کابینہ نے جنگلات کی اراضی سے متعلق کیا فیصلہ کیا ہے؟ کیا سپریم کورٹ کے 30 اکتوبر کے حکم کے مطابق جنگلات کی تمام اراضی ناجائز قابضین سے واگزار کروالی گئی ہے ؟درخواست گزار قاضی علی اطہر نے عدالت کو بتایا کہ کراچی میں جنگلات کی 11 ؍ہزار ایکڑ اراضی جبکہ نواب شاہ میں 4 ؍ہزار ایکڑ اراضی دی گئی ہے۔