• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن


ماضی کے تالاب میں یادوں کی کنکریاں پھینکنے سے دائروں کا جال سا پانی سطح پر بچھ جاتا ہے اور پھر ان دائروں کے بیچ چہرے نظر آتے ہیں۔ایسا ہی ایک چہرہ ماضی کی معروف اداکارہ اور طویل عرصے دلوں پر راج کرنے والی ’’صبیحہ خانم‘‘کا ہے،جن کے نام کے ساتھ سنتوش کمار مرحوم کا نام بھی اسی طرح جڑا ہے،جیسے انگوٹھی میں نگینہ۔صبیحہ صرف چھ سال کی تھیں جب وہ سنتوش کے گھر ان کی بہن سے کھیلنے جاتی تھیں۔جب فلمی دنیا میں قدم رکھا اورسنتوش کے ساتھ پہلی فلم میں کام کیا توسنتوش ہی نے انہیں یاد دلایاکہ تم میرے گھر میری بہن سے کھیلنے آتی تھیں۔صبیحہ نے بچپن میں جھانکا تو انہیں بھی کچھ کچھ یاد آگیا اور آج ہمیں بھی ماضی کی ناقابل فراموش اداکارہ صبیحہ خانم یاد آرہی ہیں۔لوٹ پیچھے کی طرف اے گردش ایام۔اس ہفتے ماضی کی مقبول ،باوقار اداکارہ صبیحہ خانم کے ماٖضی کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں۔

آج کی نسل شاید نہیں جانتی،صبیحہ خانم ماضی کی ایک ایسی اداکارہ ہیں ،جو فلمی دنیا میں ایک عرصے تک چھائی رہیں۔ایک وقت تھاجب پاکستانی فلمیں ذوق و شوق سے دیکھی جاتی تھیں۔ان دنوں شائقین کا جب بھی فلم دیکھنے کو دل چاہتا تو ایسی فلم کا انتخاب کرتے جس میں صبیحہ اور سنتوش کی جوڑی کام کررہی ہوتی ۔صبیحہ ،کبھی ماں کے روپ میں ، کبھی ساس کے روپ میں تو کبھی سوکن کے روپ میں فلموں میں جلوہ گر ہوتی رہیں۔صبیحہ نے مرکزی کردار بھی کیے اور ثانوی کرداروں میں بھی اپنی فنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔صبیحہ خانم کو اداکاری پر عبور حاصل تھا، چاہے وہ فلم دیور بھابھی کی مصیبت ذدہ بھابھی ہو،یافلم وعدہ کی حسین دوشیزہ یا پھر فلم لیلیٰ مجنوں کی جگر سوختہ عاشق ،سینما گھروں کے باہر فلم بینوں کی طویل قطاریں ان کی فلم کی کامیا بی کا ثبوت تھیں۔وہ جب اپنے اداکارشوہر سنتوش کمارکے ساتھ اداکاری کے جوہر دکھاتیںتو اُس فلم کی گولڈن جوبلی یقینی سمجھی جاتی تھی۔

صبیحہ خان کا تعلق گجرات سے ہے۔ان کا اصل نام مختار بیگم ہے۔صبیحہ خانم نے ان گنت فلموں میں یادگار کردار ادا کیے۔ ان کے والد کا نام محمد علی ماہیا تھا جن کا تعلق دہلی سے تھا۔ والدہ اقبال بیگم (بالو) امرتسر سے تھیں۔گجرات میں ان کے والدین کے گھر آمنے سامنے تھے۔ان کا ننھیال بہت قدامت پسند تھا،جبکہ والد بہت روشن خیال تھے۔ایک محلے میں رہائش کے سبب ان کے والدین ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہوگئے، کئی رکاوٹوں کے بعدبالآخر شادی کے بندھن میں بندھ گئے اور کلکتہ روانہ ہو گئے۔صبیحہ کے والدین بہت اچھا گاتے تھے۔سنا ہےوہ ٹپے گا کر ایک دوسرے سے گفت گو کرتے تھے۔کلکتہ میں ہز ماسٹر وائس نے ان کی آواز میں گانے ریکارڈ کیے۔انہوں نے ایک فلم’’سسی پنوں‘‘ میں بھی کام کیا۔سسی کا کردار صبیحہ کی والدہ نے ادا کیا ،جبکہ جب یہ فلم دوبارہ بنی تو ’’سسی ‘‘کا کردار صبیحہ خانم نے ادا کیا تھا۔یہ دونوں فلمیں ایک ہی ہدایت کار نے بنائی تھیں۔تقسیم سے قبل صبیحہ کا خاندان لاہور منتقل ہوگیا،کچھ ہی عرصے بعد صبیحہ کی والدہ کا انتقال ہوگیا،اس وقت صبیحہ تقریباً سات برس کی تھیں،ماں کے انتقال کے بعد صبیحہ کے نانا نے ان کی پرورش کا ذمہ اٹھایا۔صبیحہ نے بچپن کے چند برس گجرات کے ایک گاؤں میں گزارے جہاں انہوں نےایک مسجد میں دینی تعلیم حاصل کی۔گاؤں کی سادہ زندگی نے صبیحہ کی زندگی پر گہرے نقوش چھوڑے،وہیں انہوں نے گھریلو امور سیکھے،وہ جانوروں کی دیکھ بھال بھی کرتی تھیں۔سخت مزاج نانا نے صبیحہ کو کبھی والد سے ملنے نہ دیا۔بارہ برس کی عمر میں صبیحہ نانا کے ساتھ کوئٹہ منتقل ہو گئیں۔اس وقت وہاں ایک اسٹیج کمپنی پرفارم کررہی تھی۔جس میں ایک اداکار محمد علی ماہیا بھی تھے۔صبیحہ نے نانا سے ضد کی کہ وہ اپنے والد سے ملیں گی۔نانا اپنی بیٹی کی نشانی کو کھونا نہیں چاہتے تھے لہذا انہوں نے صبیحہ کو والد سے ملنے سے روکا، تاہم صبیحہ کی ضد کے آگے ان کی ایک نہ چلی،بالآخروالد سے ملاقات کے بعد ان کے ساتھ رہنے کو ترجیح دی۔جس کے بعد صبیحہ کے نانا نے عدالت میں درخواست دائر کی کہ نابالغ بچی کو زبردستی چھینا جارہا ہے تاہم صبیحہ نے عدالت میں بیان دیا کہ وہ والد کے ساتھ جانا چاہتی ہیں ،لہذا عدالت نے صبیحہ خانم کے حق میں فیصلہ دے دیا۔والد کے انتقال تک صبیحہ ان کے ہمراہ رہیں۔والد کے گھر صبیحہ کے ہر عیش و آرام کا خیال رکھا جاتا۔ بہرحال عدالت کے فیصلے کے بعد صبیحہ کا گاؤں سے رشتہ ٹوٹ گیا اوروہ واپس پلٹ کر نہیں گئیں تاہم وہ اپنے نانا کو یاد ضرور کرتی رہیں،چوں کہ صبیحہ کے والد پیشہ ور فن کار تھے لہذا صبیحہ نے بھی یہی پیشہ اپنایا۔جب وہ فلمی دنیا میں آئیں تو ننھیال کے ساتھ تعلقات میں یہ بات تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئی۔نانا کی طرف سے پیغام بھیجوایا گیا کہ اگر وہ گجرات واپس آئیں تو مار دیا جائے گا،چناچہ ان کا ننھیال سے ناطہ ٹوٹ گیا۔نانا زمیندارتھے،جب صبیحہ کبھی واپس ہی نہ گئیں تو انہیں نانا کی جائیداد سے بھی محروم کر دیا گیا۔

ماضی کی مقبول باوقار اداکارہ، صبیحہ خانم
اپنی نواسی سحرش کے ساتھ

صبیحہ خانم جب لاہور منتقل ہو ئیں توتفریح کی غرض سے ایک روز لاہور ریڈیو بھی گئیں ،جہاں خواتین کے حوالے سے ایک پروگرام ہورہا تھا۔صبیحہ کوکچھ سنانے کو کہا گیا، انہوں نے ایک نظم سنائی،جسے ان کےفنی سفر کی ابتدا کہا جاسکتا ہے۔کچھ دنوں بعد انہیں ایک اسٹیج ڈرامے میں کام کرنے کی آفر ہوئی۔اس دوران شوبز کی کئی شخصیات سے صبیحہ خانم کا تعارف ہوچکا تھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنے نام کو’’صبیحہ ایم اے‘‘کے طور پر مشتہر کرایا۔ایم اے ان کے والد کا نام محمد علی کا مخفف تھا،لیکن لوگوں نے ان کے نام کو ’’صبیحہ ماسٹر آف آرٹس‘‘پڑھا۔صبیحہ کم عمر ہونے کے ساتھ تعلیم یافتہ بھی تھیں۔بہرحال ڈرامے کے بعد صبیحہ خانم نے مسعود پرویز کی فلم سائن کی۔اپنی پہلی فلم کے سیٹ پر جب صبیحہ پہنچیں تو اتفاق سےان کے پاؤں کے نزدیک ایک سانپ رینگتا ہوا گزرا،جسے دیکھ کر صبیحہ کانپ گئیں،لیکن سیٹ پر موجود ہر شخص صبیحہ کو مبارک باد دینے آیا اور کہا کہ یہ تو اچھا شگون ہے۔اس کے بعد وہ میک روم چلی گئیں جہاں انہیں بجلی کا شدید جھٹکا لگا ،جس کے بعد ان کا میک اپ دوبارہ کیا گیا۔ تھوڑی دیر کے لیے وہ کچھ پریشان ہوگئیںلیکن فلمی دنیا میں کیرئیر بنانے کے لیے بجلی کے جھٹکے کو جھٹک کرآگے بڑھ گئیں اور پھر بڑھتی ہی چلی گئیں۔ 

ماضی کی مقبول باوقار اداکارہ، صبیحہ خانم
صبیحہ خانم کی اپنے شوہر سنتوش کمار(مرحوم) کے ساتھ یادگار تصویر

انور کمال پاشا نے صبیحہ کو اپنی فلم ’’دو آنسو‘‘ میں پہلی بار ہیروئن کاسٹ کیا ، جس کے ہیرو صبیحہ کے شوہر سنتوش کمار تھے۔سنتوش کی بھی یہ پہلی فلم تھی،یوں میاں بیوی نے فلمی زندگی کا آغاز ایک ساتھ ہی کیا ۔فلم ’’دوآنسو‘‘نے بہت بزنس کیا اور سپرہٹ فلم ٹھہری۔ صبیحہ خانم کو اپنے زمانے کی تمام مشہور اداکاراؤں کے مقابل کاسٹ کیا گیا،اس دور میں اداکارہ شمیم، سورن لتا، شمی اور مینا شوری بھی میدان میں تھیں ،لیکن شائقین فلم صبیحہ خانم کی مسحور کن شخصیت کے زیر اثر ہی رہے۔ سنتوش کمار کے ساتھ صبیحہ کی فلمیں آج بھی ان کے مداح بھول نہیں سکتے۔ ان کی معروف فلموں میں ’’وعدہ، پاسبان، شیخ چلی، سات لاکھ، گمنام، دیوانہ، آس پاس، سسی، سوہنی، چھوٹی بیگم، داتا، حاتم، آج کل، مکھڑا، عشق لیلیٰ، دل میں تو، ایاز، محفل، پرواز، طوفان، موسیقار، سرفروش اور دیگر کئی فلمیں شامل ہیں۔ صبیحہ خانم نے کیریکٹر ایکٹرس کی حیثیت سےبھی اپنے فن کے جلوے بکھیرے۔ ان فلموں میں ’’کنیز، دیور بھابی، پاک دامن، انجمن، محبت، تہذیب، اک گناہ اور سہی اور دیگر شامل ہیں۔ ’’دیور بھابی‘‘ میں انہوں نے وحید مراد کی بھابی کا کردار ادا کیا اور اتنی اعلیٰ درجے کی اداکاری کی جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ گانوں پر بھی پرفارمنس لاجواب ہوتی۔ فلم ’’سوال‘‘ میں ان پر فلمایا گیا گانا ’’لٹ اُلجھی سلجھا جارے بالم‘‘ اور فلم ’’سات لاکھ‘‘ کا گانا ’’گھونگھٹ اٹھالوں کہ گھونگھٹ نکالوں‘‘ آج بھی یاد کیئے جاتے ہیں۔ فلم ’’اک گناہ اور سہی‘‘ میں انہوں نے ایک بہت مشکل کردار ادا کیا لیکن اپنی اداکاری میں جس خوبصورتی سے حقیقت کا رنگ بھرا اس کی جتنی تحسین کی جائے کم ہے۔اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ تاشقند فلم فیسٹیول میں اس فلم کونہ صرف شامل کیا گیابلکہ صبیحہ خانم کوبہترین اداکارہ کا ایوارڈ بھی ملا۔اس فیسٹیول میں 95 ممالک کی فلموں کے درمیان مقابلہ تھا۔ صبیحہ خانم نے ٹیلی وژن پر بھی اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے۔کراچی ٹی وی کے پروڈیوسر شہزاد خلیل مرحوم کی ایک سیریل اور لاہور سے ایک پنجابی سیریل میں کام کیا۔صبیحہ خانم نے بھرپور زندگی گزاری۔صبیحہ خانم کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ پاکستانی سلورا سکرین کی پہلی خاتون تھیں جنہیں پرائڈ آف پرفارمنس ملا۔ اس کے علاوہ انہیں بہترین اداکارہ کی حیثیت سے کئی ایوارڈبھی ملے۔انہیں یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے اردو اور پنجابی دونوں زبانوں کی فلموں میں یکساں مہارت سے کام کیا۔ ان کے بارے میں کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ انہوں نے کسی ایک زبان کی فلموں میں ہی متاثر کن اداکاری کی۔ان کی حقیقی زندگی بھی کسی فلمی کہانی سے عبارت ہے ،جس نے انہیں آج بھی اپنے مداحوں کے دلوں میں زندہ رکھا ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین