تحریر:مفتی محمد حامد…کارڈف ولانا غلام اللہ خان1904ء کو فیروز خان کے گھر ’’ گائوں دریا‘‘ متصل حضرو ضلع اٹک میں پیدا ہوئے، آپ کے والد دیندار اور گاؤں کے نمبردار تھے، قومیت کے لحاظ سے ’’اعوان‘‘ ہیں۔ حضرو ہائی سکول سے مڈل کا امتحان پاس کیا پھر دینی طلباء کو دیکھ کر علوم دینیہ کی تکمیل کا شوق پیدا ہوا، پہلا تعلیمی سفر حجہ ضلع راولپنڈی کے لئے کیا، وہاں مولانا سیف الرحمن پشاوری کے شاگرد مولانا احمد دین سے ابتدائی فارسی اور صرف و نحو کی کتابیں پڑھیں پھر ’’شاہ محمد‘‘ ہری پور ہزارہ میں مولانا سکندر علی اور ان کے بڑے بھائی مولانا محمد اسماعیل ساکن کوکل(ہزارہ)سے مختلف کتب کا درس لیا، فنون کی کتابیں مولانا عبداللہ پٹھوار اور مولانا محمد دین سے پڑھیں، ضلع گجرات کے مولانا غلام رسول اور ان کے داماد مولانا ولی اللہ سے معقولات کی آخری کتابیں پڑھیں، مشکوٰۃ، جلالین، بیضاوی اور ترجمہ قرآن بھی یہیں پڑھا بعد ازاں حضرت مولانا حسین علی ساکن ’’واں بچھراں‘‘ ضلع میانوالی کی خدمت میں پہنچے، ان سے تفسیر قرآن کا درس لیا اور انہی کے ارشاد پر دارالعلوم دیوبند کے لئے رختِ سفر باندھا، امتحان داخلہ حضرت مولانا رسول خان ہزارویؒ نے لیا۔ وہاں زیادہ تر علم ادب کی کتابیں پڑھیں۔ پھر ڈابھیل پہنچے اور وہاں1933ء میں دورہ حدیث پڑھ کر سند الفراغ حاصل کی، حضرت علامہ محمد انورشاہ کشمیریؒ کے ارشاد پر آپ وہاں ایک سال بطور معین درس پڑھاتے رہے وہاں آپ تفسیر عثمانی کی تالیف میں علامہ عثمانیؒ کے معاون رہے ، اسی دوران اپنے شیخ حضرت مولانا حسین علی کے ارشاد پر واپس آگئے اور مدرسہ ’’برکات الاسلام‘‘ وزیر آباد میں تدریس پر مامور ہوئے اور ایک عرصہ تک معقولات و منقولات کی تدریس کرتے رہے، شیخ عبدالغنی آپ کو1939ء میں وزیر آباد سے راولپنڈی لے آئے، یہاں پانچ سات ماہ تک ہائی سکول میں کام کیا، اسی دوران لوگوں کی استدعا پر پرانے قلعہ کی مسجد میں مشروط خطابت قبول کی کہ تنخواہ نہیں لوں گا۔ سکول چھوڑ کر مسجد میں درس شروع کردیا اور مختلف جگہ تقاریر کے علاوہ درس قرآن کا سلسلہ شروع کیا، پہلی مرتبہ جب دورہ تفسیر شروع کیا تو کل نو طالب علم تھے پھر رفتہ رفتہ حلقہ بڑھتا گیا اور اب تک کئی ہزار طلباء آپ سے پڑھ چکے ہیں، کوئی 87سال پہلے (1930ء میں) ’’دارالعلوم تعلیم القرآن‘‘ کی بنیاد رکھی جو آج پاکستان کے ممتاز دارالعلوم میں شمار ہے۔ آپ حضرت مولانا حسین علیؒ کے ہاتھ پر بیعت ہوئے اور اُنہی کے تعلیم فرمودہ وظائف پر کار بند رہے۔ آپ مسئلہ توحید کھول کر بیان کرنے میں خصوصیت رکھتے تھے اور اس سلسلہ میں طرح طرح کی مخالفتوں اور مصیبتوں کا شکار ہوئے مگر پائے ثبات میں لغزش نہیں آئی، آپ ایک نامور جید عالم، محقق اور مفسر تھے، ’’تفسیر جواہر القرآن‘‘ کے نام سے ایک تفسیر لکھی جو بیان توحید میں لاجواب ہے، اس کے علاوہ ایک مختصر حاشیہ قرآن حکیم بھی لکھا ان کے علاوہ مندرجہ ذیل کتب بھی ان کی یاد گار ہیں: جواہر التوحید، لباب النقول فی اسباب النذول، رد مرزائیت، حیات برزخی(نامکمل) وغیرہ ان سب کتب کے مؤلف و مرتب مولانا سید سجاد بخاری رح ہیں.لیکن افسوس کہ اول الذکر کتاب کے سوا کوئی کتاب بھی نہ چھپ سکی اور2013ء میں ہونے والے سانحہ تعلیم القرآن میں ساری کتب جل کر خاکستر ہو گئیں جس کا جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے۔ آپ جمعیت اشاعت توحید و سنت پاکستان کے ممتاز علماء میں شمار ہوتے تھے اور ناظم اعلیٰ کے عہدہ پر فائز رہے، ایک جید ترین عالم دین اور شیخ طریقت تھے،1980ء میں مولانا ظفراحمد عثمانی،مولانا مفتی محمد شفیع اور مولانا احتشام الحق تھانویؒ کے خاص دست راست رہے اور اسلامی نظام کی جدوجہد کرتے رہے اور مرکزی جمعیت علمائے اسلام پنجاب کے امیر کی حیثیت سے سوشلزم و کمیونزم تحریکات کے خلاف ان حضرات کے ساتھ مل کر کلمہ حق بلند کیا ان کی زندگی جہد مسلسل سے عبارت ہے۔شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان نے 11رجب المرجب1300ھ مطابق26مئی 1980ء کو وفات پائی۔پیر طریقت سید عنایت اللہ شاہ بخاریؒتہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور اس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف اور صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق شہید نے جنازے کی چارپائی کو اپنا کندھا دے کر سعادت حاصل کی، تقریبا دو لاکھ افراد نے جنازہ میں شرکت کی۔ آپؒ کو جامعہ اشاعت الاسلام اٹک میں سپرد خاک کیا گیا، اناللہ و انا الیہ راجعون۔