• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چاند کے بارے میں جتنی حکایتیں،کہانیاں تھیں،وہ تو چاند پہ پہنچنے کےبعد ختم ہوگئی تھیں،پھر بھی کبھی کبھی ہم چرخہ کاتتی بڑھیا کا قصہ اپنے بچوں کو ضرور سناتے تھے اور سناتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ آج کے بچے بھی سب کچھ جاننے کے باوجود بڑھیا کی حکایت سے مسحور ضرور ہو جاتے ہیں، خاص کر پورے چاند کو دیکھ کر نعرہ لگاتے ہیں ’’اماں دیکھو چاند میںواقعی بڑھیا سی نظر آرہی ہے‘‘۔

اب تک چاند کے پچھلے حصے کی جانب سوچتے ہی نہیں تھے، یہ باور کرلیتے تھے کہ اگر کچھ ہوتا تو سائنس دان معلوم کرچکے ہوتے۔پھر بھی اس وقت کھلبلی مچی جب چین نے چاند کی دوسری طرف دیکھنے کے لئے قدم بڑھایا۔ پتہ نہیں کیوں، دل میں سنسناہٹ بھی محسوس سی ہوئی اور اب سلیٹی شکل کی گڑھے دار تصویر سامنے آئی تو یوں لگا جیسے ایک دفعہ پھر زمین پہ بظاہر خوشگوار انسانوں کا اصلی چہرہ دیکھ لیا۔ اسی طرح بے رونق، بے محبت، کسی ذی روح نے اس کو پلٹ کر دیکھنے کے شوق کو آمیز نہیں کیا۔ پتہ نہیں کیوں مجھے ایک عرب شہزادی یاد آگئی، جس کے بارے میں افواہ ہے کہ اس کو مار دیا گیا ہے۔ یہ بھی تو تازہ خبر ہےکہ عرب خواتین نافرمانی پر گرفتار ہوسکتی ہیں۔ مجھےوہ سات خواتین یاد آئیں، جنہوں نے اپنے حقوق کی آواز اٹھائی، تو در زنداں ہوگئیں اور اس کے بعد چراغوںمیں روشنی نہیں رہی۔

واپس ایک دم اندرون سندھ چلی جاتی ہوں جگہ جگہ اسکولوں کی جگہ بھینسوں کے باڑے ہیں، نامکمل اسکول ہیں،غسل خانوں کا تو سوال ہی نہیں، پینے کے پانی کا بھی انتظام نہیں ہے۔ گنوں سے لدے ٹرک ہرفیکٹری کے آگے کھڑے ہیں۔ مالکان چاہتے ہیں جتنا زیادہ گنا سوکھ جائے، اتنی ہی قیمت کم دینا پڑے گی۔ بازار میں چینی مہنگی پہلےہی ہوچکی ہے۔ گیس کے بل میں بھی ہم سب نے 2013ء سے لیکر اب تک کے بقایا جات کو نمٹانا ہے۔ جبکہ ڈالر کی قیمتوں کے اوپر جانےسے، دالوں سے دوائیوں تک سب کچھ مہنگا ہوگیاہے۔ البتہ زندگی سستی ہوگئی ہے۔ کوئی سال بھر پہلے کی بات ہے کہ 1960ء سے لیکر اب تک افسانے کی سرخیل خالدہ حسین کو گردوں کی تکلیف ہوئی۔ سوچا تھا ایک آدھ دفعہ ڈائلیسز کے لئے جائیگی پھر ویسے ہی کہانیاں لکھتی، باتیں کرتی رہیں گی مگر اس نے بھی احمد فراز کی طرح، ایک سال تک، ڈائلیسز کو معمول ہی بنالیا، اسی دوران، حمید شاہدنےاس کی کہانیوں کو مرتب کیا۔ نئی اور آخری کتاب آگئی۔ جیسے وہ دوبارہ جی اٹھی۔ وہ چوڑے چوڑے ہاتھ جن کی انگلیاں باریک سے باریک اور نازک سے نازک موضوع پر بے مثل کہانیاں تحریر کرتی رہیں۔ کتنے عزیزدوستوں نے اس کی کہانیوں کے تراجم کئے۔ محمد عمر میمن، سی ایم نعیم، فرانسس پریچڈ نے آج سے 30برس پہلے سے یہ کام شروع کردیا تھا۔ ہندوستان میں بلراج مین را نے، خالدہ کی کہانیوں کو مرتب کیا اور خالدہ اصغر سے خالدہ حسین تک کے سفر کو محمود ہاشمی اور شمیم حنفی نے کیفیاتی تجزیہ کیا۔

وہ عجیب عورت تھی۔ پروفیسر ز کےکمرے میں کوئی سویٹر بن رہا ہوتا،کوئی مونگ پھلیاں کھا رہی ہوتی اور کچھ لوگ باتوں اور چاٹ کی چسکیاں لے رہےہوتے، خالدہ الگ کونے میں بیٹھی کتاب پڑھ رہی ہوتی۔ وہ ادیبوں کی محفلوں میں بھی سال بھر میں ایک دفعہ چلی جاتی تھی۔ وہاں بھی لئے دیئے ہی رہتی۔ اسے عشق تھا اپنی تینوں بیٹیوں اور اکلوتے بیٹے سے۔ لمبا جوان ذہین ڈاکٹر، پچاس برس کی عمر کو پہنچا تو ماں کا امتحان شروع ہوگیا۔ خالدہ کے سامنے ایک منٹ میں بیٹے نے جان دیدی۔ شوہر انزائمرکے مریض تھے،وہ اس سانحےسے بےخبر رہے۔ اب ایک طرف شوہر کی تیمارداری، دوسری طرف ڈائلیسز، آٹھ ماہ میں گھل کر ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گئی۔ کل اس نے روتے ہوئے فون کرکے کہا، تم سب کو لیکر میرے پاس آئو۔ وہ سچی تھی، اگلے دن کا انتظار کئے بنا، صبح پانچ بجے نبض کو 23ڈگری پہ لاکر،آخری سانس لی تو بہن خالدہ، 60برس کی دوسراہت کو تم نے بھی شبنم کی طرح الوداع کہا۔ میڈیا کے پچاسیوں چینلز والوں کو اتنی بڑی لکھنے والی کے چلے جانے کی کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ وہ جو امریکہ میں طلاق ہونے والی ہے اس کی لمحہ بہ لمحہ خبر دیتے رہے، جس نے مشرقی پاکستان کے چلے جانے پہ کاغذی گھاٹ لکھا تھا۔ اس کو یاد کرنےوالے مجھے نہ مسجد میں نظر آئے اور نہ اس کی گلی میں۔رہا سرکار کا معاملہ تو انہیں تو فہمیدہ ریاض کے جانے کی بھی خبر نہ ہوئی۔ انہوں نے تو ڈاکٹر سلیم اختر کے بارےمیں بھی کچھ بھی نہیں کہا۔ لن ترانیوں سے انہیں فرصت ہی نہیں۔ مجھےپورے ہندوستان، امریکہ، انگلینڈ اور پاکستان کے چھوٹے چھوٹے شہروںسے تعزیتی فون آرہے ہیں۔ سچ ہے ایک بڑی افسانہ نگار گزر گئی۔ کاش آج انتظار حسین ہوتے تو اپنی ہم عصر کے بارے شخصی اور ذاتی مضمون لکھتے۔

خالدہ سےجب میں نے چاند کی الٹی طرف کی تصاویر کےبارے میں پوچھا، اس نے اپنی ذہنی کیفیت میں نہ کچھ دیکھا تھا اور نہ اسے یاد تھا۔ اس نے تو میرا سوال سن کر صرف فیض صاحب کا مصرعہ پڑھا ’’چاندکو گل کرو تو ہم جانیں‘‘ وہ افسانے کا چاند تھی۔ عینی آپا اور عصمت آپا تک اس کی قائل تھیں۔

خالدہ ! مجھے معاف کرنا، تم نالائق یا سر کا فہمیدہ کےبارے میںکالم پڑھ کر،قبر میں بھی بے چین ہوگی۔ تم جب کسی ادیب اور خاص کر خاتون ادیب کے بارے میں لغویات پڑھتیں، کڑھ کر مجھے فون کرتیں۔ ہم دونوں باتیں کرتے، اسے لتاڑتے جس نے کچھ لکھ ہوتا مگر یہ تو ہمارا اپنا بیٹا اور اس طرح کا ذہن،لاحول ولاقوۃ۔ خالدہ ! تم صبر کرتی کرتی قبر میں پہنچ گئیں اور میں ساری دنیا کے سوالوں کا جواب دیتے دیتے، تھک تو نہیں گئی مگر افسوس ہوتا ہے کہ عورت کے سگریٹ پینے کو عیب اور الزام بنانے والوںکو اپنی عاقبت کی فکر نہیں ہے کہ وہ تو خود کہتی تھی مجھے مومن عورت نہ کہنا

’’بارے آرام سے ہیں اہلِ جفا میرے بعد‘‘

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین