لاہور (رپورٹ :وردہ طارق)سابق چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے کہا ہے کہ میں نے جو کام کیا اور جو بھی قدم اٹھایا وہ اس ملک کی بہتری کے لئے تھا، میں سو فیصد مطمئن ہوں اور مجھے نہ تو کسی سےا س بات کا ڈرہے اور نہ خوف ،میں نے جن مسائل پر بات کی وہ سپریم کورٹ کی حدود میں آتے ہیں اور سپریم کورٹ ان مسائل پر بات کرسکتی ہے جن کا تعلق انسانی حقوق سے ہے۔ پینے کے لئے صاف پانی، صحت اور آبادی اس ملک کے سب سے بڑے مسئلے ہیں اور میں نے صاف پانی کے لئے جو آواز بلند کمی ہے وہ اس ملک کے عوام کے لئے کی ہے۔ آپ یقین کریں اگر ہم نے پانی کیلئے کچھ نہ کیا تو اس ملک میں پینے کے لئے پانی نہیں ملے گا۔انہوں نے یہ بات میر خلیل الرحمٰن میموریل سوسائٹی، وائی ڈی اے اور یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے زیر اہتمام سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔میر خلیل الرحمٰن میموریل سوسائٹی (جنگ) کے اس سیمینار سے وفاقی وزیر صحت عامر محمود کیانی، منسٹر فار ہایئر ایجوکیشن راجہ یاسر ہمایوں سرفراز، وی سی یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز پروفیسر جاوید اکرم، وی سی کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی پروفیسر خالد مسعود گوندل، پرنسپل سمز پروفیسر محمود ایاز، سی او پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن ڈاکٹر محمد اجمل خان، وی سی فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی پروفیسر عامر زمان، ڈین آف میڈیسن سروسز انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز پروفیسر ساجد نثار، صدر پاکستان اکیڈمی آف فیملی فزیشنز ڈاکٹر طارق میاں، بار سیکرٹری محمد قیوم، بانی و فارمر صدر ویمن چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری ڈاکٹر شہلا جاوید اکرم، کارٹونسٹ جاوید اقبال، سی ای او ڈریپ شیخ اختر حسین، آفتاب اقبال شیخ، ایگزیکٹو پمز ڈاکٹر امجد، ڈاکٹر نقیب اللہ اچکزئی، ایڈووکیٹ سپریم کورٹ و ہیومن رائٹس عبداللہ ملک، وائی ڈی اے پاکستان ڈاکٹر سلمان کاظمی، ایل ایم ڈی سی ڈاکٹر مجید چودھری، ڈاکٹر سلمان کاظمی (وائی ڈی اے) اور دیگر نے شرکت کی۔ میزبانی کے فرائض چیئرمین میر خلیل الرحمٰن سوسائٹی واصف ناگی نے ادا کیے۔چیف جسٹس (ر) میاں ثاقب نثار نے مزید کہا کہ شعبہ صحت میں بے شمار مسائل ہیں، میں نے ان مسائل کو حل کرنے کے لئے بھرپور کوشش کی ہے۔ انہوں نے روزنامہ جنگ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ آبادی کے کنٹرول اور پانی کے بارے میں آگاہی دینے میں بہت کام کیا ہے اور جنگ نے ہمیشہ عوامی مسائل کی آگاہی میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سیمینار میں شرکت کرکے انہیں بہت خوشی ہوئی۔ میری شروع کی ٹیم میں پروفیسر محمود ایاز، ڈاکٹر امجد، پروفیسر عامر زمان، ڈاکٹر سلمان کاظمی اور پروفیسر ساجد نثار شامل تھے۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میرا قافلہ بڑھتا گیا۔ میں پاکستان کے ہر خطے میں گیا اور بعض جگہوں پر صورتحال انتہائی افسوس ناک تھی۔ کوئٹہ کے ایک ہسپتال کا دورہ کیا تو وہاں سٹاف نہیں تھا۔ آلات نہیں، آپریشن تھیٹر معیار کے مطابق نہیں تھا اور پیرا میڈیکل سٹاف اور ڈاکٹرز ہڑتال پر تھے۔ میں نے ان سے بات کی اور یقین دہانی کرائی کہ ان کے مسائل جلد حل ہوں گے تو انہوں نے فوراً ہڑتال ختم کر دی۔ یہ وہ محبت کا پیغام تھا جو مجھے وہاں سے ملا۔ اسی طرح پنجاب کے ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کی جانب سے بھی ہر موقع پر میری مدد اور رہنمائی کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ زندگی صرف زندہ رہنے کا نام نہیں ہے۔ آج میں یہاں آپ سب کو موجودہ حالات سے روشناس کروانے کے لئے حاضر ہوا ہوں۔ میں نے اپنا ہر کام نیک نیتی کے ساتھ کیا ہے اورمیں کوئی معافی نہیں مانگوں گا۔ اگر آج پاکستان نہ ہوتا تو میں کسی بنئے کا منشی ہوتا۔ یہ پاکستان ہمارا ملک ہے ہمیں اس ملک سے محبت کرنی چاہئے اور محبت جنون کی کیفیت پیدا کرتی ہے۔جب آپ کسی کام سے محبت کرلیتے ہیں تو حالات خودبخود ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ قائداعظم بھی پاکستان بنانے کے لئے جدوجہد کرتے رہے کیونکہ ان کو بھی پاکستان سے محبت تھی۔ آج کیا ہم اس ملک کی رکھوالی نہیں کر سکتے ہیں، میں آنے والی نسل کو یہ پیغام دوں گا کہ جاگتے رہنا اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا، دنیا میں جتنے بھی ملکوں نے ترقی کی انہوں نے علم کی بدولت ترقی کی اور وہ آگے بڑھے لیکن ہم بدقسمتی سے ترقی نہیں کر سکے۔ اب ہم نے تعلیم کے ذریعے لوگوں کی مدد کرنی ہے اور تعلیم ہی کے ذریعے ملکی ترقی میں حصہ ڈال سکتے ہیں۔ میں تعلیم اور صحت کو کاروبار نہیں مانتا کیونکہ یہ دونوں خدمت کے شعبے ہیں۔ ڈاکٹرز اس پیشے سے کماتے بھی ہیں اور ان کی مغفرت بھی اس پیشے میں پوشیدہ ہے۔ پنجاب میں گندے نالوں کا سارا گندا پانی دریائے راوی میں جاتا ہے۔ ہمارے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ پاکستان میں پانی کی کمی پیدا ہو رہی ہے اور پانی کے بغیر ہم کیسے زندہ رہیں گے، ہوا اور پانی نعمت ہے اور اس میں زندگی پوشیدہ ہے۔ وہ دریا جو ایک زمانے میں ٹھاٹھیں مارتے تھے آج وہ خالی ہیں، دو ہزار فٹ پانی نیچے جا چکا ہے، کوئٹہ میں سات سال کے بعد پانی بالکل ختم ہو جائے گا لہٰذا پانی کی قلت کو دیکھتے ہوئے سپریم کورٹ نے اپنی ڈیوٹی پوری کی ہے، سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے پاس یہ اختیار ہے کہ اگر کوئی کام ٹھیک طریقے سے سرانجام نہ دے تو ہم اس کو ڈائریکٹ کریں کہ وہ اپنا کام ٹھیک طریقے سے کرے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایک مرتبہ مٹھی گئے تو وہاں کے ہسپتال میں صرف دو ایکسرے مشینیں تھیں ایک مشین 1976ء سے بند تھی جبکہ دوسری تھوڑا بہت کام تو کرتی تھی لیکن تین سال سے وہاں پر کوئی ریڈیالوجسٹ نہیں تھا۔ آپریشن تھیٹر میں چائے بنائی جا رہی تھی اور آلات کا اندازہ بھی آپ لگا لیں۔ انہوں نے بتایا کہ فیکٹریوں میں سات ارب گیلن پانی فیکٹریوں میں کنزیوم ہوتا ہے اور وہ ایک پیسہ بھی نہیں دیتے تھے اب یہ پیسہ واٹر مینجمنٹ پر لگایا جائے گا،سابق چیف جسٹس نے مزید کہا کہ پاکستان کی آبادی بھی بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے اور آنے والے تیس سالوں میں یہ آبادی 45کروڑ ہو جائے گی یہ ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے ہم نے اپنا مستقبل بہتر کرنا ہے اور یہ اسی صورت ممکن ہے جب ہم قربانی دیں گے ہم سب کو پاکستانی بن کر دکھانا ہے۔عامر محمود کیانی نے کہا کہ جسٹس (ر) میاں ثاقب نثار نے صحت کے شعبہ کے لئے جو خدمات سرانجام دیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ انہوں نے تمام معاملات کو بہتر انداز میں حل کیا جب ہم نے ہیلتھ انشورنس پروگرام شروع کیا تو انہوں نے اس کی رقم کم کر دی تاکہ زیادہ لوگ اس سے مستفید ہو سکیں۔ انہوں نے ایسے فیصلے کئے جو 70سال میں کوئی نہیں کر سکا۔راجہ یاسر ہمایوں نے کہا کہ چیف جسٹس (ر) میاں ثاقب نثار نے جو خدمات سرانجام دیں وہ ملکی تاریخ کا حصہ بنیں گی۔ انہوں نے ملک کی بہتری کے لئے جو اقدامات کئے ہیں اس کا اجر اللہ تعالیٰ ان کو عطا کریں گے۔ پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم نے کہا کہ سیمینار جسٹس (ر) میاں ثاقب نثار کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے منعقد کیا گیا ہے۔ انہوں نے جو کام کئے ہیں وہ آج تک کوئی بھی نہیں کر سکا ہے۔ ملک کی ترقی اور بہتری کی خاطر انہوں نے اپنی صحت کی پرواہ کئے بغیر دن رات محنت کی اور کئی لوگوں کی ناراضگی بھی مول لی، اب یہ قوم ایک بدلی ہوئی قوم ہے۔ جسٹس (ر) میاں ثاقب نثار نے ایسی جگہوں کے بھی دورے کئے جہاں آج تک کوئی سول جج بھی نہیں گیا۔ انہوں نے ہماری اصلاح کی ہے۔واصف ناگی نے کہا کہ جسٹس (ر) میاں ثاقب نثار نے پاکستان کے اصل مسائل جن میں صحت، تعلیم، آبادی، صاف پانی کی قلت شامل ہیں ان پر توجہ دی اور عوام کو جھنجھوڑا۔ ہمارے ہاں ہر حکومت دعوے تو بہت کرتی ہے مگر کام نہیں۔