• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ ہفتے(انیس جنوری) اور اتوار کی درمیانی شب ہے ۔ٹیلی ویژن پرنشر ہونے والی خبر کے دوران ایک وڈیو چلتی ہےجس میں ایک بچہ بتارہا ہے:’’ہم اپنے گاؤں بورے والا میں چاچو رضوان کی شادی میں جارہے تھے ۔ فائرنگ میں مرنے والی میری ماں کانام نبیلہ ہے اور والدکانام خلیل ہے۔مرنےوالی بہن کا نام اریبہ ہے ۔ ہمارےساتھ پا پا کے دوست بھی تھے،جنہیں مولوی کہتےتھے۔ فائرنگ سے پہلے پاپا نے کہا کہ پیسےلےلو، لیکن گولی مت مارو۔ انہوں نے پاپا کو ماردیا اور ہمیں اٹھا کر لے گئے ۔پا پا ، ماما ، بہن اورپاپاکےدوست مار ے گئے‘‘۔

وہ بچّہ جس کیفیت میں یہ سب کچھ بتارہا تھااور اس کے چہرے پر جو تاثرات تھےانہیں محسوس کرکے ایک لمحے کو ذہن ماوف ہوگیا۔یوں محسوس ہوا کہ بر اعظم افریقا کے کسی انتہائی پس ماندہ علاقے میں موجود ہوں ،جہاں قانون نام کی کوئی شئے نہیں پائی جاتی۔یہ وڈیو دیکھنے کے بعدپہلے ردعمل کے طورپر فورا ٹی وی بند کردیاکہ اس کے بعد کچھ دیکھنے کا یارا نہیں رہا تھا۔پھر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ایک کے بعد دوسری وڈیوآنے لگی اور چند ہی گھنٹوں میں ڈھول کا پول کھل گیا۔مگر جنہیں فوری طورپر جاگنا تھا وہ بہت دیر سے جاگے۔اس وقت تک لیپا پوتی کے ایسے ایسے بھونڈے ہتھکنڈے اپنائے جا چکے تھے کہ ان کی وجہ سے عام آدمی کو بھی یہ یقین ہوگیا تھا کہ پنجاب پولیس کا موقف سوائے جھوٹ کےاور کچھ نہیں۔

سوالات اور انصاف کی توقع

جی ٹی روڈ پر ساہیوال کے قریب سی ٹی ڈی کے مبینہ جعلی مقابلے میں ایک بچی اور خاتون سمیت 4 افراد کی ہلاکت کا سانحہ موجودہ حکومت کے لیے ٹیسٹ کیس بن چکا ہے۔علاوہ ازیں اس دل خراش واقعے نے ملک میں طرزِ حکم رانی اور پولیس کے نظام پر بھی بہت سے سوالات اٹھا دیے ہیں۔لیکن سوال یہ ہے کہ اتنے دل دہلا دینے والے واقعے کی تحقیق اور تفتیش کے دوران اگر فورینزک کے ماہرین کی خدمات حاصل نہ کی جائیں، جے آئی ٹی کے اراکین جائے وقوعہ پرجائیں اور عینی شاہدین کے بیانات ریکارڈ کرنے کے بجائے وہاں تصاویر بنواکرعینی شاہدین کو تھانے میں آکر بیانات ریکارڈ کروانے کی ہدایت کرکے اپنے ایئر کنڈیشنڈ دفاتر کو لوٹ جا ئیں ، وقوعے کے بعد جائے وقوعہ کو عوام کے رحم و کرم پر چھوڑ دیاجائے،وہاں فورینزک ٹیم کو نہ بلایا جائے، سی ٹی ڈی کے اہل کارچار افراد کو مارنے کے بعد وہاں دوبارہ پہنچ کرثبوتوں اور شواہد کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کریں، وہاں سے جو مرضی اٹھاکر لے جائیں اور کچھ بھی برآمد کرنے کا دعوی کردیں تو کیا انصاف ہونے اور ملنے کی توقع کی جاسکتی ہے؟

پنجاب پولیس اور سی ٹی ڈی کا موقف خواہ کچھ بھی ہو (جو ابتدائی چند گھنٹوں میں ہی بد بو دار جھوٹ ثابت ہوچکا تھا)اب اسے سائنسی شواہد بھی جھوٹا قرار دے چکے ہیں ۔ اس جعلی مقابلے میں ہلاک ہونے والے چار افراد کی ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ مرنےوالوں کوایک تا دس فیٹ کے فاصلےسے گولیاں ماری گئی تھیں اور ظالم اہل کاروں نے خلیل اور ان کے خاندان پر 23 گولیاں برسائیں۔ خلیل کو تیرہ گولیاں ماری گئیں اور سر پر لگنے والی گولی سے ان کی موت واقع ہوئی۔ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے ذیشان کے جسم کےمختلف حصوں میں تیرہ گولیاں لگیں۔ نبیلہ خاتون کے سر پر لگنے والی چارگولیاں موت کا سبب بنیں۔ تیرہ سالہ اریبہ کے سینے میں6 گولیاں لگیں اور دل میں لگنے والی گولی اس بچّی کی موت کا سبب بنی۔

سی ٹی ڈی کے بیانیے کی عمارت چند ہی گھنٹوں میں ڈھے گئی تھی

پنجاب پولیس کے شعبہ انسدادِ دہشت گردی (کاونٹر ٹیرارسٹ ڈپارٹمنٹ)کےہفتہ انیس جنوری کےاس جعلی مقابلے میں گاڑی میں موجود ایک بچہ بھی زخمی ہواتھا۔اس ’’مقابلے‘‘کے بارے میں سی ٹی ڈی کا جو ابتدائی بیان سامنے آیا تھا، عینی شاہدین نے اسے فوری طورپر جھوٹ قرار دے دیا تھااور لوگوں نے اپنے موبائل فونز سے وڈ یو ز اور تصاویر بناکر انہیں بہ طور ثبوت سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرکے سی ٹی ڈی کے پوررے بیانیے کی عمارت چند ہی گھنٹوں میں ڈھادی تھی۔پھر مزید وڈیوز بھی سامنے آئیں جنہوں نے پوری دنیا کو دکھایا کہ کس طرح فائرنگ کی گئی ، گاڑی سے بچوں کو نکالا گیا،کیسےپہلے انہیں پیٹرول پمپ پرپہنچایا گیا اور پھر وہاں سے کہیں اورلے جایا گیااور کس طرح گاڑی میں سے سوٹ کیس نکال کر اس میں سے اسلحہ اور دھماکا خیز مواد ’’برآمد‘‘ کرلیا گیا۔اس سب کے باوجودسانحےکے اگلے روز صوبائی وزیر قانون راجہ بشارت ، وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان اور صوبائی وزیر محمود الرشید نے ایک پریس کانفرنس میں سی ٹی ڈی کے موقف کے حق میں دلائل دیےاورگورنرپنجاب چوہدری محمد سرورنےکہاکہ ایسے واقعات دنیا بھر میں ہوتے ہیں۔ایک جانب صوبائی وزرا سانحے میں ہلاک ہونے والے ذیشان کو دہشت گرد قرار دے رہے ہیں تو دوسری جانب پی ٹی آئی کی رہنما عندلیب عباس نے ایک نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ میں ذیشان کی والدہ کو جانتی ہوں،میں شرمندہ ہوں۔میں ذاتی طور پر اور اپنی پارٹی کی جانب سے ان سے معافی مانگتی ہوں اوروزیر قانون راجا بشارت کی جانب سے ذیشان کو دہشت گرد قراردینے والے بیان کی مذمت کرتی ہوں۔

یہ جعلی مقابلہ قادر آباد کے علاقے میں پیش آیاتھا، جہاں لاہور جانےوالی ایک گاڑی پر سی ٹی ڈی پولیس نے بہ راہ راست فائرنگ کردی تھی۔ عینی شاہدین کے مطابق گاڑی میں ایک خاندان بچوں کے ساتھ سفر کررہا تھا۔ ٹول پلازا کے نزدیک پیچھے سے آنے والی سی ٹی ڈی کی موبائل نے ان پر بلا سبب فائرنگ کردی۔ فائرنگ کے نتیجے میں گاڑی میں موجود دو خواتین سمیت چار افراد موقع ہی پرہلاک ہوگئے تھے۔چار میں سے ایک بچہ زخمی ہوا ہے، باقی تین محفوظ رہے۔

دوسری جانب سی ٹی ڈی پولیس نے مقابلے کے بارے میں پہلے یہ موقف دیا تھا کہ خفیہ اطلاع تھی کہ شاہد جبار اور عبدالرحمن نامی دو دہشت گرد، جن کا نام ریڈبک میں شامل ہے،ساہیوال کی جانب سفر کررہے ہیں۔ ساہیوال ٹول پلازا کی جانب ایک گاڑی اور موٹر سائیکل کو روکنے کی کوشش کی گئی تو دہشت گردوں نے فائرنگ کردی۔دہشت گردوں کی فائرنگ کے نتیجے میں خواتین سمیت چار افراد مارے گئے اور ان کے تین ساتھی فرار ہونے میں کام یاب ہوگئے۔ سی ٹی ڈی کی ٹیم باقی بچ جانے والے دہشت گردوں کا سراغ لگا رہی ہے۔یہ کارروائی15جنوری کوفیصل آبادمیںکیےگئےآپریشن کا تسلسل ہے۔شاہد جباراورعبدالرحمان کوٹریس کیا جا رہا تھا ۔دہشت گرد پولیس کی چیکنگ سے بچنے کے لیے اپنے خاندان کے ساتھ تھے۔تاہم اس وقت متعلقہ تھانے کی پولیس نے اس تمام معاملے پراپنا موقف دینے سے گریز کیاتھا۔ان کا کہناتھا کہ وہ فی الحال تحقیقات کررہے ہیں کہ واقعہ کس طرح پیش آیا اور کو ن سے عناصر اس میں ملوث ہیں۔

عدیل اور عمان سے تعلق جوڑنے کی کوشش

یاد رہے کہ اس سانحے سے چار روز قبل فیصل آبا د میں سی ٹی ڈی اور دہشت گردوں کے درمیان مبینہ طورپر فائرنگ کا تبادلہ ہوا تھا جس میں عدیل اور عمان نامی دو افراد مارے گئے تھے۔ ہلاک ہونے والے افراد کو دہشت گرد بتایا گیاتھااور ان کے بارے میں کہا گیا تھا کہ وہ ملتان میں حساس ادارے کے افسران کے قتل میں ملوث تھے۔سی ٹی ڈی کا کہناتھا کہ عبدالحفیظ نامی ایک دہشت گر د فیصل آباد میں اور ذیشان نامی ایک دہشت گرد ساہیوال میں مقابلے میں ماراگیا تھا۔ شاہد اور عبد الرحمن ان ہی کے ساتھی تھے اور ان دہشت گردوں کا تعلق کالعدم دہشت گرد تنظیم کے نیٹ ورک سے تھا۔

ساہیوال کے جعلی مقابلے میں ہلاک ہونے والے افراد کے بارے میں سی ٹی ڈی کا کہنا تھا کہ دہشت گرد سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹےعلی حیدر گیلانی کے اغوا میں بھی ملوث تھے، اور انہوں ہی نے امریکی شہری وارن وائنسٹائن کو بھی اغوا کیا تھا۔سی ٹی ڈی پولیس نے ’’دہشت گردوں‘‘کے قبضے سے خودکش جیکٹس، اسلحہ اور دستی بم سمیت دیگر سامان بھی برآمدکرنے کا دعوی کیا تھا۔پھر سی ٹی ڈی کا نیا بیان سامنے آیا جس میں سی ٹی ڈی کے ترجمان نے دعوی کرتے ہوئے کہا تھا کہ مرنے والوں میں صرف ذیشان جاوید دہشت گرد تھا اور اس کی کرائے کی گاڑی کالعدم تنظیم داعش کے نیٹ ورک کے لیے استعمال کی جاتی رہی ہے۔ اسے دھماکا خیز مواد جنوبی پنجاب پہنچانا تھا۔ذیشان دہشت گرد کالعدم تنظیم کا نائب امیر تھا۔ گاڑی سی ٹی ڈی اور حساس اداروں کی نگرانی میں تھی۔ خلیل اور اہل خانہ کو مذموم مقاصد کے لیے استعمال کیاگیا۔ سیف سٹی کے کیمروں نے گاڑی کی نشان دہی کی۔ گاڑی کے پچھلے شیشے سیاہ تھے، اس لیے خواتین اور بچے نظر نہیں آئے۔ پیچھے کون بیٹھا تھا،نظر نہیں آیا ۔ اس سے قبل سی ٹی ڈی کے حکام کا یہ دعوی سامنے آیا تھا کہ چاروں افراد مبینہ اغوا کار تھے، جو بچوں کو اغوا کرکے لے جا رہے تھے۔ اہل کاروں نے گاڑی روکنے کا اشارہ کیا تو مبینہ اغوا کاروں نے اہل کاروں پر فائرنگ کردی۔ جوابی فائرنگ سے گاڑی میں سوارچاروں افراد موقعے پر ہلاک ہوگئے۔ مرنے والوں میں دو خواتین بھی شامل ہیں۔ دوسرے موقف میں سی ٹی ڈی کے ترجمان کا کہنا تھا کہ تھریٹ الرٹ موصول ہوا تھا کہ دہہشت گرد 20 تاریخ کو حساس ادارے کے دفتر کو نشانہ بناناچاہتے ہیں جس پر سی ٹی ڈی نے حساس ادارے کے ساتھ مل کرمشترکہ آپریشن کیا۔ذیشان کا ٹاسک جنوبی پنجاب تک بارودی مواد پہنچانا تھا۔ اس نے جان بوجھ کر خلیل کے خاندان کو لفٹ دی۔ بہ ظاہر خلیل اور اس کی فیملی کو ذیشان کے عزائم کاعلم نہیں تھا۔ گاڑی کی پہلے سے مشترکہ نگرانی کی جارہی تھی۔ سیف سٹی اتھارٹی کےکیمروں نے گاڑی کو ساہیوال کی جانب جاتے دیکھا اور نشان دہی کی۔جب گاڑی کوروکاگیاتو ذیشان اورگاڑی کو فالو کرنےوالے موٹر سائیکل سواروں نے سی ٹی ڈی ٹیم پر فائرنگ کی جس کےجواب میں فائرکھولے گئے۔ خلیل ،اس کی بیوی اور بیٹی گاڑی کے شیشے کالے ہونے کے باعث کیمروں میں بھی نظر نہیں آئے۔ان تینوں کی ہلاکت انتہائی بدقسمتی تھی۔اس کے علاوہ گاڑی سے خودکش جیکٹس، دستی بم اور رائفلز بھی برآمد کرنے کا دعویٰ کیا گیاتھا، لیکن میڈیا کو کچھ نہیں دکھایا گیاتھا۔

اس کے برعکس عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ کار سواروں نے گولیاں چلائیں، نہ مزاحمت کی اور گاڑی سے اسلحہ نہیں بلکہ کپڑوں کے بیگ ملے۔ گاڑی میںبچے بھی موجود تھے ۔ عینی شاہدین کا یہ بھی کہنا تھا کہ اہل کار بچوں کو پہلے ساتھ لے گئے، پھر پیٹرول پمپ پر چھوڑدیا،کچھ دیربعد واپس آکر تینوں بچوں کو اسپتال پہنچایا۔ عینی شاہدین کے مطابق مرنے والی خواتین کی عمریں 40 سال اور 13 برس کے لگ بھگ تھیں۔

ملک بھر میں اٹھا شور

پھر جب ملک بھر میں اس واقعے کے خلاف شور اٹھاتو صدر اور وزیر اعظم نے بھی دکھ اور افسوس کا اظہار کیا اور معاملے کی تحقیقات کرانے کا حکم دیا گیا۔اس موقعے پر سی ٹی ڈی نے اعتراف کرلیاکہ یہ آپریشن کم زور اطلاعات کی بنیاد پرکیا گیا۔وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی زیر صدارت اس معاملے پر ہونے والے ہنگامی اجلاس کی اندرونی کہانی کے مطابق اس اجلاس میں چیف سیکریٹری، وزیر قانون اور آئی جی پنجاب سمیت دیگر اعلی حکام شریک ہوئے۔سی ٹی ڈی کے حکام نے اجلاس میں اعتراف کیا کہ ساہیوال میں کم زور اطلاعات پر آپریشن کیا گیا ۔ حکام نے اعتراف کیا کہ یہ بہت بڑا ظلم ہوا ہے اور ذیشان سے متعلق بھی واضح معلومات نہیں ملیں ۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیاتھا کہ اطلاع دینے والے مخبر سے بھی تفتیش کی جائے گی، اور ذاتی دشمنی کے پہلو کو بھی نظرانداز نہیں کیا جائے گا ۔

احتجاج ، ایف آئی آر اور نامعلوم اہل کار

اس سانحے کی اطلاع ملنے پر ورثا ڈی ایچ کیو اسپتال ساہیوال پہنچ گئے اور واقعے کے خلاف لاشیں سڑک پر رکھ کر احتجاج کیا۔مشتعل ورثا نے فیصل آباد روڈ کو دونوں اطراف سے بند کر دیاتھا ۔ واقعے پر لاہور میں بھی احتجاج کیا گیا۔مظاہرین نے چونگی امرسدھو میٹرو اسٹیشن کے قریب لاہور سے قصور جانے والی روٖڈ کو بند کر دیاتھا۔ یاد رہے کہ اس احتجاج سے پہلے واقعے کا کوئی مقدمہ درج نہیں ہوا تھا۔احتجاج شروع ہونے پر کارروائی ہوئی ، لیکن اس موقعے پر بھی پولیس والوں نے اپنے پیٹی بھائیوں کو بچانے کے لیے اپنا ہاتھ دکھا دیا اور سی ٹی ڈی کے سولہ اہل کاروں کے خلاف مقدمہ تو درج ہوگیا،مگر وہ اہل کار ’’نامعلوم‘‘قرار دیے گئے۔ مقدمہ تھانہ یوسف والا میں خلیل کے بھائی کی مدعیت میں درج کیا گیا۔ پولیس کے مطابق مقدمے میں قتل اوردہشت گردی کی دفعات بھی شامل کی گئی ہیں۔ پولیس، انتظامیہ اور ورثا کے درمیان مذاکرات کام یاب ہونے پر مقتول خلیل کا بھائی جلیل پولیس کی ٹیم کے ساتھ تھانہ یوسف والا پہنچا۔پولیس نے ورثا کی درخواست پر مقدمہ درج کر لیاتھا۔اس موقعےپر مقتول خلیل کے بھائی جلیل کا کہنا تھا کہاس کے بھائی کے قاتلوں کو نشان عبرت بنایا جائے ۔

احتجاج میں لوگوں کی بڑی تعداد شریک تھی جن کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ انصاف چاہیے۔ مظاہرین کا کہنا تھاکہ ہمارے لوگ مارے گئے اورجاں بحق افراد ہی کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کر لیا گیا۔ جس تھانے کی حدود میں واقعہ پیش آیا وہیں مقدمہ درج ہونا چاہیے۔ورثا نے مقدمے کے اندراج تک احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا۔

اور پھر ذمّے داران حرکت میں آگئے

پھر خبر آئی کہ وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار نے ساہیوال کے واقعے میں ملوث سی ٹی ڈی کے اہل کاروں کو گرفتار کرنے کا حکم دے دیا ہے۔پتا چلا کہ وزیر اعظم اور وزیر اعلی کےدرمیان رابطے کے بعد گرفتاری کا فیصلہ ہوا ۔اس کے بعد وزیر اعلی نے فوری طور پر ساہیوال پہنچ کرجاں بحق ہونے والے افراد کے ورثاء سے ملاقات کی بھی ٹھانی۔وہ زخمی بچے کی عیادت کے لیےگل دستہ لے کر(جس پر بہت تنقید ہوئی) اسپتال بھی گئے،مگر جب وہ وہاںپہنچے تو بچہ سورہا تھا۔لہذا اس کے سرہانے ’’یاد گار ‘‘ تصویر بنوائی گئی تاکہ ’’سند رہوے اور بہ وقتِ ضرورت کا آوے‘‘۔وزیراعلیٰ پنجاب کا کہنا تھا کہ اس واقعے میں ملوث افراد کو مثال ِعبرت بنائیں گے۔بچوں کی کفالت ریاست کے ذمے ہوگی، انہیں تمام سہولتیں فراہم کی جائیںگی۔ہر ہلاک شد، فرد کے لیے ورثا کودو کروڑ روپے دیے جائیں گے۔

پھرترجمان پنجاب پولیس نے خبر دی کہ واقعے کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے،جس کی سربراہی ڈی آئی جی ذوالفقار حمید کریں گے۔جےآئی ٹی میں آئی ایس آئی، ایم آئی اور آئی بی کےافسران بھی شامل ہوں گے اور وہ تین روز میں تحقیقات کرکے رپورٹ پیش کرے گی۔

اس دوران یہ خبر آچکی تھی کہ محکمہ انسدادِ دہشت گردی نے اس معاملے کی رپورٹ آئی جی پنجاب جاوید سلیم کو پیش کر دی ہے جس کے مطابق سی ٹی ڈی،ساہیوال کی ٹیم نے حساس ادارے کی جانب سے ملنے والی موثر اطلاع پر آپریشن کیا جس کے نتیجے میں کالعدم تنظیم داعش سے منسلک چار دہشت گرد ہلاک ہوئے ، ان کے قبضے سے اسلحہ اور دھماکا خیز مواد برآمد ہوا۔رپورٹ کے مطابق ہفتے کی دوپہر بارہ بجے کے قریب ساہیوال پلازا کے نزدیک محکمہ انسدادِ دہشت گردی کی ٹیم نے موٹر سائیکل پر سوار دہشت گردوں کو روکنے کی کوشش کی تو انہوں نے ٹیم پر فائرنگ شروع کر دی جس پر ٹیم نے اپنے تحفظ کے لیے جوابی فائرنگ کی۔جب فائرنگ کا سلسلہ رکا تو چار دہشت گرد، جن میں دو خواتین شامل تھیں،اپنے ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہوگئے اور ان کے تین ساتھی موقعے سے فرار ہونے میں کام یاب رہے۔

مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے ساہیوال میں سی ٹی ڈی کی فائرنگ سے چار افراد کے ہلاک ہونے سے متعلق تفتیش شروع کر دی تھی۔جے آئی ٹی نے جائے وقوعہ کا دورہ کیا ۔اطلاعات کے مطابق ابتدائی تحقیق کے دوران جے آئی ٹی زیر حراست اہل کاروں کے بیان سے مطمئن نہیں ہوئی کیوں کہ ان میں تضادتھا۔ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی رائے طاہر سے بھی واقعے کے بارے پوچھا گیا۔سی ٹی ڈی کی جانب سے آئی جی پنجاب کو پیش کردہ رپورٹ کو بھی تفتیش کا حصہ بنایا گیا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ حتمی رپورٹ کیا کہتی ہے۔

پیٹی بند بھائی

پولیس کے نظام میں اصلاحات کا مطالبہ کرنے والے حلقوں کے مطابق جب پولیس میں سیاسی بھرتیاں کی جائیں گی اور پسندیدہ لوگوں کے سر پر سیاسی افراد کا ہاتھ ہوگا تو پھر یہی سب کچھ ہوگا۔راؤ انوار ہی کو لے لیں جو قومی کمیشن برائے انسانی حقوق اور نہ انسپکٹر جنرل پو لیس،سندھ ،اے ڈی خواجہ کے سامنے پیش ہو رہے تھے۔ کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اور ان کی پشت پناہی کرنے وا لے افراد اتنے طاقت ور ہیں کہ ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اس طرح کے کیسز میں لوگوں کو معطل یا ٹرانسفر کر دیا جاتا ہے، لیکن کچھ عرصے بعد وہ پرانے عہدے پر واپس آجاتے ہیں۔حالاں کہ ایسے لوگوں کے خلاف نہ صرف محکمہ جاتی کارروائی ہو نی چاہیے بلکہ ان کے خلاف کیس کا اندراج بھی ہونا چا ہیے اور انہیں عدالت میں بھی پیش کیا جانا چاہیے۔یہی ایک طریقہ ہے جس کی مدد سے ہم ماورائے عدالت قتل کے کیسز میں کمی لا سکتے ہیں۔اس طرح کے کیسز میں عام طور پر پولیس والے اپنے پیٹی بند بھائیوں کی مدد کرتے اور کیس میں خامیاں پیدا کرتے ہیں جس کافائدہ ملزم کو ہو تا ہے ۔ عدالت خود تفتیش نہیں کرتی بلکہ تفتیش کے بعد جو کاغذات اور ثبوت پیش کیے جاتے ہیں ان کی روشنی میں فیصلہ کرتی ہے۔لہذا کم زور مقدمہ بناکر پیٹی بند بھائیوں کو بچا لیا جاتا ہے۔

اینکاؤنٹرز کا دفاع کرنے والوں کا موقف

پولیس مقابلوں میں جرائم پیشہ افراد کی ہلاکتوں کے حامی بعض افسران کا موقف ہے کہ ایسے اینکاؤنٹرز مخصوص علاقوں میں جرائم کے فروغ کے معروضی حالات کے تحت ضروری ہو جاتے ہیں کیوں کہ خطرناک ملزمان کے خلاف عدالتوں میں شہادت دینے کے لیے کوئی شریف شہری آگے نہیں آتا جس کے نتیجے میں جرائم پیشہ افراد ضمانتوں پر ر ہایا بری ہو جاتے ہیں اور دوبارہ عوام کی جان و مال سے کھیلنے کا مذموم عمل شروع کردیتے ہیں۔وہ پولیس ا فسر ا ن کی جانوں کے بھی دشمن ہوجاتے ہیں، لہٰذا ان کا قصّہ پاک کر دینا ہی معاشرے کے حق میں بہتر ہوتاہے۔ ا گر چہ اس نقطۂ نظر کو کسی مہذّب معاشرے میں قبول نہیں کیا جاسکتا، مگربعض حلقے یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا موجودہ تناظرمیں ہمارے نیم قبائلی اور نیم جاگیردارانہ معاشرے کو مہذّب معاشرے کا درجہ حاصل ہے ؟ مقابلوں میں ملز ما ن کو ہلاک کردینے کی حمایت کرنے والا طبقہ یہ دلیل پیش کرتا ہے کہ یہ طریقہ نہ صرف ممبئی بلکہ میکسیکو اورنیو یارک میں بھی استعمال کیا جاچکا ہے اور کیا عبدالرحمن ڈکیت کے خلاف کوئی عام شہری گواہی دینے کے لیے سر ہتھیلی پر ر کھ کر گھر سے عدالت جانے کی جرأت کرسکتا تھا؟موجودہ حالات میں عام شہری تو کجا، کیا کوئی پولیس افسر بھی کالعدم تنظیموں کے دہشت گردوں کے خلاف شہادت دینے کی ہمّت کر سکتا ہے؟

یہ سوالات اور دلائل اپنی جگہ ،لیکن کیا قومیں مشکل حالات میں اسی طرح لڑتی ہیں؟کیا مشکل حالات میں آئین اور قانون کو بالائے طاق رکھ دینا چاہیے؟کیا انسانی حقوق محض اچھے وقتوں کا کھلونا ہے؟کیا ریاست اپنی کم زوریوں اور کوتاہیوں کا خراج عوام کی جان و مال سے وصول کرنے کا اخلاقی اور قانونی جواز رکھتی ہے ؟ ہمیں ا س موقعے پران سوالات کے جواب بھی تلاش کرنے چاہییں۔ 

شکایات بڑھتی جارہی ہیں

پاکستان کا آئین اور قانون یہ کہتا ہے کہ جرم ثابت ہونے تک ہر شہری بے گناہ ہے،لیکن ماورائے عدالت قتل کی شکایات بڑھتی جارہی ہیں۔ماورائے عدالت قتل دراصل ایسے قتل کو کہا جاتا ہے جو کوئی سرکاری ادارہ غیر قانونی طورپر کرے۔ایسے قتل کے الزامات بہت سے ممالک میں وقتا فوقتا سامنے آتے رہتے ہیں۔وہ ممالک جن میں ماورائے عدالت قتل اور قاتل گروہوں کی طرف سے بہ کثرت اموات ہوتی ہیں ان میں مشرق وسطی ( خا ص کر شام اور عراق، وسطی امر یکا ،افغانستان، بنگلا د یش، پاکستان، افریقا کے بہت سے مما لک یا علا قے، جمیکا ، کو سو و کےساتھ جنوبی امریکا، روس ، ا زبکستان، تھائی لینڈکے کچھ علاقے، ترکی اور فلپائن کے نام چند برسوں میں کافی نمایاں رہے ہیں۔

چوہدری اسلم، راؤ انواراور ……

پاکستان میں ماورائے عدالت قتل کو ئی نئی بات نہیں۔کراچی دو تین دہائیوں سے اس ضمن میں کافی بدنام ہے۔نقیب اللہ محسود کے ماورائے عدالت قتل کے بعد کراچی پولیس کے ایک افسر راؤ انوار کا نام بہت مشہور ہوا۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس سے پہلے کراچی پولیس کے ایک اور ا فسر ، ایس ایس پی چوہدری اسلم خان بھی اینکاونٹر اسپیشلسٹ کے طورپر بہت مشہور ہوئے تھے۔ان کے بھی متعدد پولیس مقابلے بہت متنازع قرار دیے گئے تھے۔دوسری جانب بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ چوہدری اسلم اور ان کی ٹیم کے اراکین کی جرأت اور دلیری کی وجہ سے کراچی میں انتہا پسندی اور شرپسندی کے سیلاب کے آگے ایک مضبوط بند قائم تھا اور ان کے جانے سے اس میں دراڑ پڑگئی تھی جسے راؤ انوار نے پُر کرنے کی کوشش کی۔

چوہدری اسلم کے ساتھ ایک جونیئر افسر شفیق تنولی کا نام بھی ابھر رہا تھاجن پرچند برس قبل سبزی منڈی کے قریب قاتلانہ حملہ کیا گیا تھا۔ مگر پولیس کے باخبر حلقوں کے مطابق ان پر حملہ دراصل چوہدری اسلم کے دھوکے میں کیا گیا تھا اور شفیق تنو لی کا انتہا پسندوں کے خلاف کارروائیوں میں کوئی کردار نہیں تھا۔بہ ہرحال حملے میں زخمی ہونے کے باوجود ان کے دلیرانہ بیانات سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ وہ انتہا پسندوں سے قطعاً خوف زدہ نہیں ہیں ۔ اسی طرح سندھ پولیس کے سینئر افسران میں اس وقت کے ایس ایس پی منیر احمد شیخ، ایس ایس پی پیر محمد شاہ اور ایس ایس پی نیاز کھوسو وغیرہ بھی انتہا پسند و ں اورملک دشمن عناصر کے خلاف منظم کارر و ا ئیو ں کے لیے شہرت رکھتے تھے۔

چوہدری اسلم کے بارے میں کہا جاتا ہےکہ وہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے اینکاؤنٹر اسپیشلسٹس میں سب سے نمایاں تھے۔ممبئی کے انسپکٹر پرافل بھونسلے (90) اور انسپکٹر پردیپ شرما (113) کے مقابلے میں چوہدری اسلم کے ہاتھوں مارے جانے والے مبیّنہ ملزمان کی تعداد دو سو (200) کے قریب تھی جودنیا بھرمیں ایکسٹرا جوڈیشل کلنگ کا سب سے بڑا ریکارڈ ہے۔ ان دو سوہلاکتوں میں پچاس (50) کے قریب مبیّنہ کالعدم تنظیموں کے انتہاپسند بھی شامل تھے جوتین سال کے دوران ان کی ٹیم کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔ چوہدری اسلم پر2005 میں معشوق بروہی جعلی پولیس مقابلے کا مقدمہ قائم ہوا تھا۔ وہ ایک سال سے زاید عرصہ جیل میں بھی رہے۔ بعض سیاسی حلقے ان پر پی پی پی کی حکومتی سر پر ستی میں ٹارگٹ کلنگ کا گینگ چلانے کا الزام بھی لگاتے ر ہے۔کہا جاتا ہے کہ انہوں نے سابق صدر آصف زر د ا ر ی کے حکم پر بدنام زمانہ گینگ وار کے ایک سرغنہ، عبدالرحمن ڈ کیت کو ٹھکانے لگایا تھا کیوں کہ وہ آصف زردار ی کا مر غِ دست آموز ہونے کے باوجود کافی خود سر ہو چکا تھا اور ان کے لیےبدنامی کا باعث بن رہا تھا۔بہ ہرحال ان ا لز ا مات کو کبھی کسی عدالت میں ثابت نہیں کیا گیااور سندھ میں پی پی پی کی حکومت کے تسلسل کے باعث تاحال یہ ممکن بھی نہیں ہے۔بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ راؤ انوارکو بھی آ صف علی زرداری اور پی پی پی کی سرپرستی حاصل ہے۔ چوہدری اسلم پرمتعدد جعلی پولیس مقابلوں کے الز ا ما ت لگے، مگربہ وجوہ ان کا بال بھی بیکا نہ ہوسکا۔

ماورائے عدالت قتل کے چند بہت مشہور کیسز

17 مئی 2011 کو کوئٹہ کے نزدیک خروٹ آباد میں فرنٹیئر کانسٹیبلری نے 5 چیچن باشندوں کو ماورائے عدالت قتل کر دیاتھا۔ ابتدا میں حکام نے دعوی کیا تھاکہ یہ لوگ خودکش بم بار تھے اس لیے ان پر فائرنگ کی گئی ۔تاہم بعد میں سامنے آنے والی وڈیو میں یہ لوگ نہتے نظر آئے ۔ ان افراد میں 2 مرد اور 3 عورتیں تھیں۔ ایک عورت 7 ماہ کی حاملہ تھی۔ اطلاعات کے مطابق مقامی پاسبان نے پہلے ان افراد سے مختلف مقامات پر رشوت لی اور بعد میں جب یہ لوگ شکایت کے لیے سرحدی سپاہ کی چوکی کی طرف جانے لگے تو پاسبان نے سپاہ کو اطلاع کی کہ خودکش بم بار ان کی چوکی کی طرف آ رہے ہیں۔

لیکن حقیقت جلد ہی کھل گئی اور جون 2011 میں ہائی کور ٹ کے خصوصی ٹریبونل نے واقعے کی ذمے داری پولیس اور فرنٹیئرکور کے اہل کاروں پر عاید کرتے ہوئے صوبائی حکومت سے ان کے خلاف کاروائی کرنے کی سفارش کی تھی۔ بلوچستان ہائی کورٹ کے جج محمد ہاشم کاکڑ کی سربراہی میں خصوصی ٹریبونل نےخروٹ آباد واقعے کی رپورٹ صوبائی حکومت کو پیش کی تھی۔سو صفحات پر مشتمل رپورٹ میں کہا گیاتھا کہ کوئٹہ کے سابق سی سی پی او داؤد جونیجو، فرنٹیئرکور کے کرنل فیصل، ایئرپورٹ تھانہ کے ایس ایچ او فضل الرحمان اور اے ایس آئی رضا خان نے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے پانچ غیر ملکیوں کو ہلاک کیا۔رپورٹ میں صوبائی حکومت سے پولیس اور ایف سی کے ان چار اہل کاروں کے خلاف قانونی کارروائی کی سفارش کی گئی تھی۔رپورٹ کے مطابق ہلاک کیے جانے والے پانچ غیر ملکی تربیت یافتہ دہشت گرد تھے اور غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخل ہوئے تھے۔لیکن سانحہ خروٹ آبادکے وقت ان کے پاس خودکش جیکٹس نہیں تھیں اور نہ ان کا ارادہ پولیس اور فرنٹیئرکور پر حملے کا تھا ۔ رپورٹ میں کہا گیاتھا کہ اگر پولیس اور فرنٹیئرکور کے اہل کار ذمے داری کا مظاہرہ کرتے تواس وقت ان پانچ غیر ملکیوں کو زندہ بھی گرفتار کرسکتے تھے۔یاد رہے کہ واقعے کے بعد صوبائی حکومت نے سابق سی سی پی او کوئٹہ داؤد جونیجو، ایئرپورٹ تھانے کے ایس ایچ او فضل الرحمان، اور اے ایس آئی رضا خان کو معطل کردیا تھا۔ اور انسپکٹرجنرل فرنٹیئرکور عبیداللہ نے کوئٹہ میں صحافیوں سے غیر رسمی بات چیت میں کہا تھا کہ ٹریبونل کی رپورٹ آنے کے بعد ہی ایف سی کے اہل کاروں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا جائے گا۔

آٹھ جون 2011کی شام کراچی شہر اس وقت دہشت اور خوف سے لرز اٹھا تھاجب ملک کے ہر ٹی وی چینل پر ایک نہتا نوجوان، سرفراز رینجرزکے اہل کاروں سے معافی مانگتا دکھائی دیاتھا۔ مگر ان اہل کاروں نے اس کی کوئی بات نہیں سنی۔ اسی دوران اسے گھیرے میں لے لیا گیا اور ایک اہل کار کی فائرنگ سے وہ شدید زخمی ہو گیا۔ فوٹیج میں زخمی نوجوان مدد کے لیے چیختا ہوا دکھائی دیتا ہے ۔ پھر چند منٹ بعد وہ خون میں لت پت ہوکراس جہان فانی سے کوچ کرجاتا ہے ۔یہ سب مناظر بار بار دکھائے جاتے رہے جنہیں دیکھ کر ہر دل دکھی ہوجاتا تھا۔ رینجرز کا دعویٰ تھا کہ27 سالہ ملزم سرفراز شاہ ڈکیتی کی غرض سے شہر کے ساحلی علاقے کلفٹن کے بے نظیر بھٹو پارک میں آیا تھا۔ افسر نامی شخص کی مدعیت میں مرحوم کے خلاف متعلقہ تھانے میں ایف آئی آر بھی درج کرادی گئی تھی۔ لیکن دوسری جانب فوٹیج کے مناظر کچھ اور ہی داستان بیان کر رہے تھے۔ اس فوٹیج کو دیکھ کرہی سول سوسائٹی ، مرحوم کے ورثاء اور صحافیوں سمیت بڑی تعداد میں لوگ لاش کے ساتھ وزیر اعلیٰ ہاؤس کے سامنے جمع ہو گئے اور شدید احتجاج کیاتھا۔ وزیر اعلیٰ سندھ کی جانب سے یقین دہانی کے بعد رات گئے احتجاج ختم ہواتھا ۔اس وقت کے وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک کی جانب سے انکشاف کیا گیا تھاکہ نوجوان پارک میں پستول تان کر دو خواتین کو ہراساں کر کے انہیں لوٹنا چاہتا تھا جس پر لوگوں نے پکڑ کر اسے چوکیدار کے حوالے کیا اور چوکیدار نے اسے رینجرز کے حوالے کردیا تھا۔

سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے واقعے کا از خود نوٹس لے کر فوری طور پرپانچ رکنی لارجر بینچ تشکیل دے دیا تھاجس کے سربراہ وہ خود تھے ۔ادھر قومی اسمبلی میں بھی اراکین نے واقعے پر شدید احتجاج کیاتھا ۔دس جون کو سپریم کورٹ نے رینجرز کے ڈائریکٹر جنرل اور سندھ پولیس کے انسپکٹر جنرل کو تین روز میں عہدے سے ہٹانے اور ٹرائل کورٹ کو 30 دنوں میں مقدمہ کی سماعت مکمل کرنے کا حکم دیاتھا ۔

گیارہ جون کو واقعے میں ملوث رینجرز کے اہل کاروں کو پولیس کے حوالے کر دیا گیا تھا۔بارہ جون کو سرفراز شاہ قتل کے مقدمے میں انسداد دہشت گردی کی دفعہ سیون اے ٹی اے بھی شامل کر دی گئی تھی ۔چودہ جون کو سپریم کورٹ کے حکم پر سندھ رینجرز کے ڈائریکٹر جنرل، چوہدری اعجاز اور سندھ پولیس کے آئی جی فیاض لغاری کو ان کے عہدوں سے ہٹا دیا گیا جس کاباقاعدہ نوٹیفکیشن بھی جاری کیا گیاتھا ۔نواگست کو وکلاء کے حتمی دلائل مکمل ہو گئےتھے جس کے بعد فیصلہ بارہ اگست تک محفوظ کر لیا گیاتھا ۔ بارہ اگست کو انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج بشیر احمد کھوسو نے سرفراز شاہ قتل کیس کے فیصلے میں رینجرزکے اہل کار شاہد ظفر کو سزائے موت اور دو لاکھ اور باقی ملزمان رینجرزکے اہل کاروں محمد افضل ،محمد لیاقت ، منٹھار علی ، بہاؤ الدین ، محمد طارق اور پارک کے چوکیدار افسر خان کو عمر قید اور ایک ، ایک لاکھ روپے جرمانےکی سزا سنا ئی تھی۔

نقیب اللہ محسود کا قتل 13 جنوری 2017ء کو کراچی کے رہائشی علاقے میں راؤ انوار کے پولیس اینکاؤنٹر کی وجہ سے ہوا۔نقیب اللہ پر الزام تھا کہ اس کےمبینہ طورپر لشکر جھنگوی اور داعش سے تعلقات ہیں اور وہ دہشت گرد ہے۔ محسود کے دہشت گرد ہونے کا دعویٰ اس کے رشتے داروں نے ردکردیا تھا۔بعد میں ایک تفتیشی ٹیم بنی جس نے قتل کی تفتیش کی۔ تفتیشی ٹیم نے یہ فیصلہ کیا کہ محسود بے گناہ تھا اور اسے جعلی پولیس مقابلے میں قتل کیا گیا ۔ یاد رہے کہ نقیب اللہ کے ماورائے عدالت قتل کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج کیا گیاتھا۔

تازہ ترین