ماں! کس کو بتائیں، تم سے بچھڑ جانے کا دکھ دَرد، عمیر، منیبہ اور ننھی ہادیہ کی آہ و پکار عرش ہلا چکی۔ کاش یہ بچے اپنے ماں باپ پر گولیوں کی برسات کے عینی شاہد نہ ہوتے۔ عجیب سنگینی، تین بچوں کا زندہ بچ جانا بھی آج ایک ٹریجڈی ہے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر زندہ درگور بچوں کی تصویریں نمودار ہوتی ہیں، آنکھیں چار نہیں ہو پاتیں، شرمساری سے جھک جاتی ہیں۔
جمعہ کو اُدھر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالا، اِدھر اگلے روز دن دہاڑے سانحہ ساہیوال وقوع پذیر ہوا۔ چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالنے پر ایسا تکلیف دہ خوش آمدید، قطعاً خوش آئند نہیں۔ ساہیوال کا دلخراش واقعہ، ریاست، نظامِ حکومت اور میڈیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکا۔ وزیراعظم عمران خان نے ’’ریاستِ مدینہ‘‘ کا نعرہ لگایا تو حضرت عمرؓ کا مشہور فرمان نقل کیا ’’دریائے فرات کے کنارے اگر کتا بھی بھوکا مرا تو ذمہ دار عمر ہو گا‘‘۔ وزیراعظم یقیناً انسدادِ بے رحمی حیوانات اور پالتو جانوروں، کتوں، نباتات کی کسمپرسی پر دل پسیج رہتے ہیں۔ پچھلے دنوں یہی کچھ سامنے بھی آیا۔ جب گھر کا پالتو کتا دکھی دکھائی دیا تو نرم دل مکینوں کے دل موم رہے، آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی۔ کتوں سے ایسی محبت جبکہ طرزِ ریاست مدینہ میں انسانی جان کی حرمت کا تاحدِنگاہ واضح نہ ہونا اپنے طور پر ایک سانحہ ہی۔ سنگدلی یا جہالت کہ سانحہ ساہیوال پر تحریک انصاف کے لیڈروں کی حیلہ سازی، گول مول بیانات، جھوٹ میں ایک دوسرے پر سبقت، فراخدلی دیدنی تھی۔ اس میں باک نہیں کہ سانحہ ساہیوال تسلسل ہے مرتضیٰ بھٹو قتل کیس کا، لال مسجد اور اکبر بگٹی پر بمباری کا، خروٹ آباد چیک پوسٹ پر 5نہتے چیچن پناہ گزینوں بشمول 2خواتین پر گولیوں کی بوچھاڑ سے قتل عام کا، سانحہ ماڈل ٹاؤن کا،نقیب اللہ محسود کے بہیمانہ قتل کا، شاہ فیصل روڈ پر بے قصور مسافر مقصود کو رکشے سے اتار کر فٹ پاتھ پر بٹھا کر گولی مارنے کا اور دیگر سینکڑوں ایسے دوسرے واقعات کا جبکہ سب میں فٹ پرنٹ اور طریقہ واردات ملتا جلتا ہے۔ پھر بھی سانحہ ساہیوال اپنی نوعیت کا سنگین ترین اور دل دہلا دینے والا، اپنی مثال آپ۔ اتنے بڑے جیون میں اس سے بے رحم، بے درد واقعہ نہیں دیکھا۔ انصافیوں کی اس سے بڑی بے رحمی، سنگدلی کیا ہو گی کہ سانحہ ساہیوال کو سانحہ ماڈل ٹاؤن سے ملا کر گناہ کا بوجھ ہلکا کریں یا ڈھٹائی سے واقعہ کی وجہ پچھلے 10 سال سے پولیس کا پامال نظام بتائیں۔ جب سے سانحہ ہوا، انصافی حکومتیں پلک جھپکتے تن من کے ساتھ اس کو پراگندہ اور مشتبہ بنانے میں خرچ ہوچکیں۔وزیر اعظم کی ٹویٹ میں غیر ضروری انسداد ِدہشت گردی ڈپارٹمنٹ کی سابقہ بہترین کارکردگی کو لف رکھنا،سانحہ کی توہین تھا۔کیا موقع تھا ایسی معذرت خواہانہ ٹویٹ کا؟
اسمبلی تقریر میں اسی دن برادر عزیز شہریار آفریدی سانحے کی آڑ میں ملٹری کورٹس کا سودا بیچنا نہ بھولے، مسائل کاحل ملٹری کورٹس بتایا۔
تکلیف اتنی کہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں نے پہلے دن سانحہ کو مشکوک بنانے اور ایک خاص مکتب فکر کے نقطہ نظر کو عام کرنے میں وفادار ملازم ہونے کا ثبوت دیا۔ وزیر قانون کا فرمان کہ حساس اداروں کے ٹپ اور معلومات پر سب کچھ ہوا، سنگین دہشت گردذیشان کو انجام تک پہنچانے میں COLLATORAL DAMAGE ( امریکی اصطلاح) میں 13سالہ اریبہ اور ماں باپ قتل ہوئے۔ مزید بکواس، دو خود کش جیکٹس اور گولہ بارود برآمد ہوئے۔ایک صوبائی وزیر بیکارکی شقاوت ’’ دہشت گرد ثابت نہ ہونے پر مالی معاوضہ دیا جائے گا ‘‘،بھانت بھانت کی بولیاں۔
دورائے نہیں کہ آپریشن حساس اداروں کی معلومات پر ہی ہوا۔شاید ایک وجہ یہ بھی رہی کہ وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ اور وزراء ہکلاتی لڑکھڑاتی زبان پر واقعہ بارے کنفیوژن،جھوٹ پھیلاتے رہے۔ پہلا واقعہ کہ تفصیلات کے دو دن اندر 22کروڑ پاکستانیوں کو ازبر ہوچکا۔ JITسے زیادہ عام شہریوں کو معلومات ہیں۔JIT کا فرانزک ماہرین سے رابطہ نہ رکھنا، عینی شاہدوں کی گواہی نہ لینا، موقع واردات کو محفوظ نہ رکھنا،لواحقین سے پوچھ گچھ نہ کرنا،سمجھ میں آتا ہے بعدازاں تیار شُدہ رپورٹ کے سقم ہی کام آنے ہیں۔ایک پہلو بہرحال اجاگر کرنا ضروری، بتایا گیا کہ حساس اداروں کی فراہم کردہ معلومات پر کارروائی ہوئی۔یقیناًایک ٹیم تشکیل دی گئی ہوگی۔باقاعدہ اسلحہ ایشو کیا گیا ہوگا۔ ایک کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم وجود میں آیا ہوگا اور لمحہ بہ لمحہ پیچھا کرنے اور گھیرنے پر وائر لیس /فون سے اطلاعات مل رہی ہونگی۔ اگر یہ سب کچھ ہواتو معلومات دینے والے اور CTD کے تمام اعلیٰ ترین عہدیدار ہی اصل ذمہ دار کہ آخری حکم انہی کا رہا ہوگا۔ اگر یہ سب کچھ نہیں ہوا اور آپریشن کرنے والے اپنے طور شتر بے مہار،بندوق چلانے کا شوق (TRIGGER HAPPY) پورا کرتے کام دکھا گئے۔ تو پھر ایسے ادارے کو تالے لگا کراعلیٰ قیادت کو گرفتار کر لینا چاہئے۔ جس ادارے کا ڈسپلن ایسا تتر بتر، بے گناہ شہریوں کے لیے خطرہ جان ہی رہنا ہے۔
وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ اور وزراء کان کھول کر سن لیں ذیشان اور خلیل فیملی کا قتل، ماضی قدیم کے مرتضیٰ بھٹو قتل یا حالیہ رکشہ سواری مقصود کا قتل یا دیگرسینکڑوں سانحہ جات،سب پر حاوی رہنا ہے۔اگر پہلے نہتے بے گناہ شہریوںکا قتل عظیم گناہ یاگناہِ کبیرہ، سانحہ ساہیوال مہا گناہِ کبیرہ۔آسمان ضرور ٹوٹے گا،زمین نے پھٹنا ہے۔ جسٹس کھوسہ کے حلف اُٹھاتے 24گھنٹے بعد ایسا واقعہ،اچھا پیغام نہیں۔جسٹس کھوسہ کا سوموٹو نہ لینا خوش آئند بھی اور صحیح راستہ بھی، وگرنہ یہی سمجھا جاتا کہ معزز عدلیہ اپنے ہی ترتیب لائحہ عمل سے ہٹ گئی۔ویسے بھی قوم عینی شاہد،راؤ انواربارے سوموٹو پر جسٹس ثاقب نثار کی بے بسی بہت کچھ رقم کر گئی۔بڑے بڑے بے بس نظر آئے۔چیف صاحب! کسی قسم کے کوہِ غم پر بھی سوموٹو نہیں لینا کہ آپ کا ببانگ دہل اپنا اعلان ہے۔ ذیشان اور خلیل فیملی کوانصاف ملنے کی امید کم ہے،اگر ملا تو معمول کا عدالتی نظام کافی ہے۔زینب قتل و بے حرمتی کیس معمول کی عدالتی کارروائی تھی، مجرم انجام کو پہنچا۔باقی حکومت ِ وقت کے لیے مقتول خلیل کے بھائی کا پیغام کافی، بہت کچھ بتا گیا، ’’ مجھ سے اڑھائی کروڑ لے لو مجھے میرا بھائی،میری بھابھی اور میری بھتیجی واپس کر دو‘‘۔ذیشان کی والدہ تو اس بات پر مطمئن کہ میرے بیٹے پر سرکاری طور پر دہشت گردی الزام واپس لیا جائے۔
حیف! عمیر،منیبہ اور ہادیہ نے رہتی زندگی بلکتے، بلبلاتے رہنا ہے۔ ؎
مائیں نی ! میں کنوں آکھاں
درد وچھوڑے دا حال نی