میں گزشتہ دنوںاپنے آبائی علاقے تھرپارکر میں مقیم تھا جہاں ملک بھر کے ہندو بچوں کے مابین دھارمک کوئز مقابلے کاانعقاد کیا گیا، بطور سرپرست اعلیٰ پاکستان ہندوکونسل میں نے بچوں کو یہی تلقین کی کہ وہ زندگی کی دوڑ میں آگےبڑھتےوقت کسی صورت اپنے مذہب کی تعلیمات اور دیگر مذاہب کا احترام فراموش نہ کریں، دنیا کا ہر مذہب اپنے پیروکاروں کو انسانیت کی خدمت کا درس دیتا ہے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ عین انہی لمحات میں ساہیوال میں دن دہاڑے دورانِ سفر ایک ہنستے بستے خاندان کو اجاڑ دیا گیا، ستم ظریفی کی انتہا یہ ہے کہ انسانیت کے خلاف اقدام کسی دہشت گرد نے نہیں بلکہ انسداد دہشت گردی کے حکومتی ادارے نے کیا جسکے قیام کا مقصد ہی عوام کے جان و مال کا تحفظ یقینی بنانا تھا۔ تھرپارکر میں انٹرنیٹ اور ذرائع ابلاغ کی سہولتوں کی عدم دستیابی کی بنا پر مجھے ساہیوال واقعہ کی بروقت تفصیلات نہ مل سکیں لیکن کراچی جاتے ہوئے راستے میں وزیراعظم عمران خان کی ٹوئیٹ میری نظر سے ضرور گزری کہ سہمے ہوئے بچوں جنکے والدین کو انکی آنکھوں کے سامنے گولیوں سے بھون دیا گیا، کو دیکھ کر صدمے کی حالت میں ہیں۔ بعد ازاں، میں نے سوشل میڈیا اور واٹس ایپ گروپس پربدقسمت مسافر گھرانے سے متعلق ایسے بے شمار ویڈیوکلپس دیکھے جنہیں دیکھ کر انسانیت کا درد رکھنے والا ہر انسان رنجیدہ ہے،مجھے رہ رہ کر یہ خیال ستا رہا ہے کہ کیا یہ افسوسناک سانحہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والی واحد ریاست پاکستان میں وقوع پذیر ہوا ہے جسکی موجودہ حکومت ریاست مدینہ بنانے کی دعویٰ دار ہے؟ اسلام نے تومسافروں کی خدمت کرنے کا درس دیا ہے ، دوسرے جانوروں کے سامنے جانور ذبح کرنے سے منع کیا ہے اوریہاں معصوم بچوں کے سامنے انکے والدین کو بہیمانہ انداز میں ابدی نیند سلا دیا گیا؟ ایسے ہی مثبت احکامات دنیا کے دیگر مذاہب میں بھی پائے جاتے ہیں۔ہندو دھرم کی سنسکرت زبان میںتحریر کردہ مقدس کتاب مہابھارت میں جنگی صورتحال میں دوچار فوجیوں کو تلقین کی گئی ہے کہ رتھ سوارمسافروں پر گھڑسوار دستوں سے حملہ نہ کیا جائےاور ایسا نہتادشمن جو حملہ کرنےکے قابل نہ ہو، اس کے خلاف نہ تو ہتھیار اٹھایا جائے اور نہ ہی ہراساں کیا جائے۔ انٹرنیشنل ہیومنٹیرین لا کے تحت سویلین شہریوں پر جان بوجھ کر حملہ منع ہے بلکہ ہر وہ مسلح اقدام جسکے بارے میں معلوم ہو کہ اسکے نتیجے میں شہریوں کانقصان عسکری مقاصدکے حصول سے زیادہ ہوسکتا ہے، جرم قرار دیا گیا ہے۔عالمی قانون کے آرٹیکل آٹھ دو بی میں زور دیا گیا ہے کہ کسی بھی جنگی اقدام کافیصلے کرتے وقت سویلین نقصان کا بغورتجزیہ کیا جائے کہ آیا اس اقدام کے نتیجے میں عام لوگوں کا نقصان عسکری مقاصد کے حصول سے زیادہ تو نہیں۔جنیوا کنونشن کے ترمیم شدہ پروٹوکول ون1977ءکےآرٹیکل پندرہ، 76 ,77اور79خواتین، بچوں، ڈاکٹروں اور صحافیوں کے لیے بطور خاص حفاظتی اقدامات اٹھانے پر زور دیتے ہیں۔ میں نے عالمی تناظر میں جنگی قوانین و اصولوں کا جائزہ لینا اسلیے ضروری سمجھا کہ آج سے اٹھارہ برس قبل2001ء میں پاکستان نے سپرپاور امریکا کی قیادت میں دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں شمولیت کا فیصلہ عجلت میں کیا ، بلاشبہ پاکستان کی بہادر افواج نے دہشت گردی کے عفریت کو شکست فاش دینے کےلیے لازوال قربانیاں پیش کیں، دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نتیجے میں ہزاروں بے گناہ نہتے پاکستانی شہری بھی لقمہ اجل بن گئے۔پاکستان کی صورتحال اس لحاظ سے پیچیدہ ہے کہ یہاں دہشت گردعناصر کا تعلق ہمارے ارد گرد موجوداپنے ہی لوگوں سے ہے جو جانے انجانے میں شدت پسندانہ عناصر سے نظریاتی ہمدردی کی بناء پر سہولت کار بن بیٹھتے ہیں، دوسری طرف اس حقیقت سے بھی نظریں نہیں چرائی جاسکتیں کہ انسدادِ دہشت گردی جیسے حکومتی محکمے چالاک و شاطر دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں اورانکا زورنہتے عوام پر ہی چلتا ہے جسکی ایک بھیانک مثال سانحہ ساہیوال کی صورت میں منظرعام پر آئی۔ دنیا بھر کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ کسی بھی آپریشن سے پہلے ہر طرح سے انفارمیشن حاصل کی جاتی ہے، مشکوک افراد پر کڑی نگاہ رکھنےکےلیے ریکی کا ایک مربوط نیٹ ورک ترتیب دیا جاتا ہے، انفارمیشن کو کراس چیک کیا جاتا ہے،اس حوالے سے متعلقہ اداروں کو اعتماد میں لیا جاتا ہے، حتمی تصدیق کے بعد آپریشن کیا جاتا ہے اورپوری کوشش کی جاتی ہے کہ جانی نقصان سے بچا جائے کیونکہ زندہ ملزم سماج دشمن عناصر کا نیٹ ورک توڑنے میں اہم کردار ادا کرنے کے قابل ہوتا ہے۔ اس حوالے سے ہمارے سامنے انڈین جاسوس کلبھوشن یادیو کی مثال ہے جسکو زندہ قابو کرکےہمارے حساس اداروں نے دہشت گردی کو کاری ضرب لگائی۔سانحہ ساہیوال پر سی ٹی ڈی کے متضاد بیانات نے واقعہ کو مکمل طورپر مشکوک بنا دیا ہے،ہمیں عالمی برادری کے جنگی اصولوں کے تناظر میں غور کرنا چاہیے کہ کیا سی ٹی ڈی کے اس اقدام سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو تقویت ملی ہے یا سی ٹی ڈی نے اپنی ساکھ عوام کی نظروں میں تباہ کرلی ہے؟جانے والے تو اس دنیا سے چلے گئے لیکن اپنے پیچھے بے شمار سوالات چھوڑ گئے جس میں سب سے اہم ترین یہ ہے کہ اگر مرحوم ڈرائیور ذیشان واقعی دہشت گرد تھا تو اسکا بھائی ڈولفن فورس میں کیسے بھرتی ہوا اور بدقسمت مسافر خاندان پر گولیاں برسانے کی بجائے زندہ پکڑنے کےلیے دوسرے آپشن کیوں نہیں زیرغور لائے گئے؟ہم سے بہتر تو امریکی ثابت ہوئے جنہوں نے اسامہ بن لادن کے بیوی بچوں کو محفوظ رکھا۔ اس بلاجواز اقدام نے پوری پاکستانی قوم میں غم و غصہ کی شدید لہر دوڑا دی ہے ، قومی اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں بھی سانحہ ساہیوال ایجنڈے پر چھایا رہا اور ہر سیاسی جماعت ایسے ایشوپر سیاست کرتی نظر آئی مگر میں سمجھتا ہوں کہ آج ریاست مدینہ کی بات کرنے والی موجودہ حکومت کو بغیر کسی سیاسی دباؤ کے ملوث عناصر کے خلاف سخت ایکشن لیناچاہیے ،عوام نئے چیف جسٹس جناب آصف سعید کھوسہ صاحب کی جانب بھی سوموٹو ایکشن لینےکےلیے دیکھ رہے ہیں۔بطور پارلیمنٹرین میں سمجھتا ہوں کہ ہمیںلفظی مذمت سے آگے بڑھتے ہوئے عالمی برادری کے جنگی قوانین و اصولوںکو مدنظر رکھتے ہوئے انسانیت دوست قومی جنگی پالیسی بنانےکےلیے قانون سازی کرنی چاہیے،اسی طرح قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اپنے اہلکاروں کی اخلاقی تربیت اور احترام انسانیت پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔آج امریکا افغانستان سے نکلنے کےلیے طالبان سے مذاکرات کا ڈول رہا ہے تو ہمیں بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ سے فوری طورپر نکل کرعالمی تنازعات سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے وطن عزیز کو حالت ِ امن میں واپس لانا چاہیے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)