• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’ ’دو چراغ ‘‘ ،ایک مرکز میں، دوسرا سب سے بڑے صوبے میں ، جل نہیں پا رہے۔ عمران خان نے جب سے سیاست میں قدم رنجہ فرمایا، چند رٹے رٹائے فقرے علم البیان کاحصہ بنے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول کہ ’’ کفر نظام پر تو معاشرے قائم رہ سکتے ہیں، ظلم زیادتی پر نہیں‘‘۔ مُبلغِ ریاستِ مدینہ پچھلے 23 سال سے یہ قول ہزاروں مرتبہ مبالغہ آمیزی کے ساتھ تقاریر کا حصہ بنا چکے ہیں۔ سانحہ ساہیوال ظلم اور زیادتی کی انوکھی ،انمٹ اور نہ بھولنے والی داستان ہے۔ واقعہ پرحکمران آج منافقانہ چپ سادھ چکے ہیں۔ حکومت وقت ذیشان کو دہشت گرد ثابت کرنے میں تن من لگا رہی ہے۔ نقیب اللہ محسود اور دوسرے دو ساتھیوں کو دہشت گرد ثابت کرنے میں کیا کیا جتن روا نہ رکھے۔ کئی ماہ سے لاپتہ دو افرادنقیب اللہ کے ساتھ قتل ہوئے،چند دن پہلے وہ بھی بے گناہ نکلے۔ پنجاب ایک لا وارث صوبہ ، دو افراد کے قتل پر کوئی رد عمل ہوا اور نہ ہی ذیشان اور خلیل فیملی کا بہیمانہ قتل اثرات مرتب کر پائے گا۔ نقیب اللہ کے قتل پر قبائلی علاقہ ہی کہ ارتعاش کی جکڑ میں، نہیں معلوم حالات کب تک کنٹرول میں رہیں گے؟

ذیشان اور خلیل فیملی کی آہ و بکا عرش بریں ضرور ہلائے گی کہ ربِ دوجہاںکی بے گناہ قتل پر وعید بڑی سخت ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن پر عمران خان کی فصاحت وبلاغت عروج پر تھی۔ سانحے پر سیاست استوار کر نے کے در پے، وزارت عظمیٰ کا زینہ سمجھ بیٹھے تھے۔ قادر الکلامی میں رانا ثناء اللہ کو فوری گرفتار اور شہباز شریف کو مستعفی ہونے کا حکم صادر فرما یا۔ ’’ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ اوپر سے حکم کے بغیر پولیس تاک تاک کر سیدھی گولیاں چلائے‘‘۔ بلاشبہ اللہ حق ہے! ’’تب تک موت نہیں دیتا جب تک اندر باہر آشکار نہ کر دے‘‘ ،سانحہ ساہیوال پرآج کارکردگی محدب عدسہ کی زد میں۔ بمطابق پوسٹ مارٹم رپورٹ 7سالہ بچی،13سالہ اریبہ ،والدہ ،خلیل،ذیشان اور عمیر کو POINT BLANK گولیاں لگیں ۔ 7سالہ بچ جانے والی بچی کی ہتھیلی سے آر پار ہونے والی گولی بھی قریب سے ماری گئی۔ درندوں نے7سالہ بچی پر اتنا رحم کیا کہ جان سے مارنے کی بجائے ننھی ہتھیلی پر بندوق رکھ کر گولی آر پار کی۔ واقعے کے اگلے دن وزیر اعظم کی ٹویٹ خون کے آنسوؤں سے نم تھی، ’’ ابھی تک صدمے کی کیفیت میں ہوں‘‘۔ اہل وطن ! مجھے یہ پتہ چلانا ہے، آخری خبریں آنے تک وزیر اعظم صدمے سے نکل پائے ہیں یانہیں؟ JIT کا تو وجہ وجود ہی فقط راؤ انواروں کو بچانا اور معصوموں،بے گناہوں پر مدعاڈالنا ہے، یقیناً کامیاب رہے گی۔

واقعے کا مثبت پہلو اتنا کہ’’ روحانی‘‘ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نمایاں نااہل ہوکر سامنے، عمران خان کے کارناموں میں سرخاب کا پَرثابت ہوئے۔ بُزدار صاحب کی وزیر اعلیٰ تعیناتی پر سوالات کی بوچھاڑ میڈیا اور ٹاک شو کا موضوع ضرور،عمران خان سانحہ پر باز پرس کرنے کی بجائے وسیم اکرم پلس ڈھانچے کو بیڈ روم کی الماری میں سجانے چھپانے میں حسبِ توقع مستعد ہیں۔ سکہ بند تجزیہ نگاروں اور کُہنہ مشق سیاستدانوں نے بُزدار کی اُلٹی گنتی شروع کر رکھی ہے۔ میری حقیر رائے ، عثمان بزدار کہیں نہیں جا رہے،تاحدِ نگاہ وزیر اعلیٰ رہیں گے۔ عمران خان کی مردم شناسی، شعور اور وژن کا مظہر ہی تو بُزدار ہیں۔ جب نام سامنے آیا تو تحریک انصاف اور اتحادی، تمام ایم پی ا ے کا باجماعت کہنا جائز تھا ’’اگر بُزدار بن سکتا ہے تو میں کیوں نہیں؟‘‘۔ پہلے دن سے عمران خان بُزدار کی آگاہی پروموشن سیل میں مصروف ہیں۔ آج پارٹی تتر بتر،عمران خان کی کوششیں تیز،بُزدار صاحب کی حمایت میں آخری سانس تک ڈٹ چکے ہیں۔ آئن اسٹائن کا سنہری قول’’ احمق اور نالائق ایک تجربہ بار بار کرتا ہے اور ہر دفعہ فرق نتیجے کی توقع رکھتا ہے‘‘۔مُنا بھائی ڈٹے رہوکہ’’بزدار تو ڈوبے گا صنم تم کو بھی لے ڈوبے گا‘‘۔

نیم حکیم خطرہ ِجان، نیم مُلا خطرہ ایمان جبکہ نیم سیاستدان خطرہ ِ وطنی سا لمیت سلامتی و امان۔ بھلے وقتوں میں عمران خان اس بات پر مجھ سے متفق بھی اور فکر مند کہ’’کوچہ سیاست سے نابلد ہیں‘‘۔ پلاننگ اتنی کہ اگر کبھی’’داؤ‘‘ لگ گیا تو اہل ٹیم تیار کر کے شاید مداوہ ممکن رہے۔ بدقسمتی سے جب سے طاقت ور حلقوں میں آسرا ڈھونڈا، کامیابی یقینی، تو اہلیت کو غیر ضروری قرار دیا۔ میری بھی گارنٹی کہ مہربان اور قدردان جتنا مرضی زور لگا دیں، عمران خان کے تِلوں سے تیل نہیں نکلے گا۔ تکلیف اتنی کہ آج کی ارضی سیاست میںوطنِ عزیز کوعمران تجربہ اور ماڈل مہنگا پڑنا ہے۔

11ستمبر 2001 کو جب امریکہ پر قیامت بیتی تو سب سے زیادہ ہمارا خطہ بالخصوص ارضِ پاکستان متاثر ہوا۔ سانحہ 9/11 پر امریکی وزیر خارجہ کولن پا ول کی فون کال پر سات احکامات ملے۔کمانڈو صدرجنرل مشرف کی من و عن ’’ نکی جئی ہاں ‘‘ سے پاکستان پر جہاں ڈالروں کی بارش ہوئی وہاں دہشت گردی آماجگاہ بنی۔ آج پھر خطہ کی ارضی سیاست انگڑائیاں ،کروٹیں لینے کو۔ ڈالروں کی بارش بھی شروع ہوچکی۔ معاوضے میں اس دفعہ’’نکی جئی ہاں‘‘ کیا رنگ لاتی ہے؟ موضوع نہ تفصیل کا وقت ،عرض اتنی کہ ایسے مواقع پر پاکستان ہمیشہ سیاسی عدم استحکام کے گرداب میں تھا۔ آج پھر سیاسی افرا تفری عروج پر ہے۔ سلیکٹڈ وزیر اعظم کی پنجاب/ KP میں وزراء ِاعلیٰ کی سلیکشن تفکرات خدشات بڑھا چکی۔ جہاں عمران خان اپنی پھونکنی سے بُزدار لالٹین جلانے بھڑکانے میں اثرو رسوخ خرچ کر رہے ہیں وہاں عمران خان کو لانے والی طاقتیں اپنی پھونکنی کے پُر زور استعمال سے عمرانی چراغ کو جلا بخشنے میںکوشاں ہیں۔ شاہ محمود قریشی کا حالیہ بیان ملاحظہ فرمائیں ’’ جب میں طاقتور حلقوں کے بیان سنتا ہوں تو یہ بات طے ہوچکی ، انہوں نے ذہن بنا لیا ہے کہ نواز شریف اور زرداری نامنظور ‘‘۔سیاسی عدم استحکام بدرجہ اُتم موجود ماضی کی طرح رائے عامہ آج بھی بے توقیر و نامنظور ۔کیا وطنی تاریخ اپنے آپکو دہرانے کو؟ حالات نامساعد ضرور،بات حتمی کہ بُزدار کا کلہ مضبوط اوربقول شاہ محمو دقریشی طاقتور حلقوں کے پاس بھی چوائس نہیں چنانچہ عمرانی کلہ بھی مضبوط۔ بُزدار پر معاندانہ ہونے کی ضرورت نہ بار باراُلٹی گنتی کی ضرورت کہ یقین دلاتا ہوں بُزدار کہیں نہیں جا رہے۔ جلتا ہے یا بُھجتا ہے، بات حرفِ آخر، عمران خان کی پھونکنی سے یہ چراغ جلنے کا نہیں۔

تازہ ترین