• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسلام آباد(احمد نورانی) وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے ایف آئی اے کے اختیارات کم کرنے کی دی نیوز کی خبر کے مندرجات پڑھے بغیر ہی اس پر تبصرہ کردیا۔ یہ خبر وزارت قانون کی سرکاری دستاویزات پر مبنی ہے۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے خبر کی تردید کی اور اصل صورت حال کی وضاحت کرتے ہوئے وہی کچھ کہا جو خبر میں لکھا تھا۔ دی نیوز نے بتایا تھا کہ وفاقی حکومت کرپشن مقدمات سے متعلق ایف آئی اے کے اختیارات کم کرنے والی ہے تاکہ کرپشن کے معاملے میں نیب اور ایف آئی اے کے مشترکہ دائرہ عمل کے مسئلے کو حل کیا جاسکے۔ یہ خبر دی نیوز کو دستیاب وزارت قانون و انصاف کے تیار کردہ ورکنگ پیپر پر مبنی ہے۔ اس میں سفارش کی گئی ہے کہ وزارت داخلہ کے ایک نوٹی فکیشن کے ذریعے ایف آئی اے کے کرپشن کے متعلق اختیارات ختم کیے جائیں۔ تجویز کے مطابق نوٹی فکیشن کے نتیجے میں ایف آئی اے قانون کے شیڈول میں ترمیم ہوجائے گی اور اس سے ایف آئی اے اور نیب کے کرپشن کے خلاف مشترکہ دائرہ عمل کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔ خبر کو غلط فہمی پر مبنی اور بے بنیاد قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزارت قانون اور نیب کے درمیان گفت و شنید جاری ہے جن کا مقصد محض کرپشن امور میں ایف آئی اے اور نیب کے مشترکہ دائرہ عمل کے مسئلے کو حل کرنا ہے۔ یہی بات تو دی نیوز نے اپنی خبر میں کہی تھی جس کی سرخی ہے کہ ایف آئی اے کے کرپشن کے خلاف کارروائی کے اختیارات کم کیے جارہے ہیں۔ پریس کانفرنس میں چوہدری نثار نے مزید کہا کہ تاخیر سے اطلاع ملنے کی وجہ سے ایف آئی اے یا وزارت داخلہ کا کوئی افسر اس مسئلے پر ہونے والے حالیہ اجلاس میں شرکت نہ کرسکا۔ انہوں نے کہا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ حکومت نیب یا ایف آئی اے کے اختیارات کم کرنے پر غور کر رہی ہے بلکہ حکومت تو ایف آئی اے کے اختیارات میں اضافہ کرنا چاہتی ہے۔ دی نیوز نے اپنی خبر میں نیب کے اختیارات میں کمی کا کوئی تذکرہ تو کیا ہی نہیں، جس سے پتہ چلتا ہے کہ وزارت داخلہ نے محض کسی پریس نوٹ کی بنیاد پر اور خبر کو پڑھے بغیر ہی اپنا موقف دے دیا۔ دی نیوز نے سرکاری دستاویز کا حوالہ دیا تھا جس کے مطابق ورکنگ پیپر میں لکھا ہے کہ ایف آئی اے ایکٹ 1974 کے شیڈول کی پانچویں شق کے مطابق ایف آئی اے کو کرپشن کی روک تھام کے قانون کے تحت قابل جرم سزائوں پر کارروائی کا اختیار حاصل ہے۔ وزارت قانون کے ورکنگ پیپر میں مزید کہا گیا ہے کہ اگرچہ قومی احتساب بیورو (نیب) آرڈیننس 1999ء بعد میں آیا تھا اور اس میں یہ خصوصی شق بھی شامل ہے کہ وہ دیگر قوانین کو بے اثر کرتے ہوئے کارروائی کر سکتا ہے لیکن اس کے باوجود ایف آئی اے کے شیڈول 1974 میں ترامیم کی ضرورت ہے تاکہ کرپشن کیخلاف ایف آئی اے اور نیب کے مشترکہ دائرہ عمل کے مسئلے کو حل کیا جا سکے۔‘
تازہ ترین