• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

علیم خان حراست شاہد خاقان کی گرفتاری کو جواز دینے کیلئے ہے، ایاز صادق

اسلام آباد (طارق بٹ) نیب کے ہاتھوں پنجاب کے سینئر وزیر عبدالعلیم خان کی اعلیٰ سطح پر گرفتاری آیا نیب کے قانون میں ترامیم کی راہ ہموار کرے دے گی؟ تاکہ اس ادارے کے اختیارات کو کچھ حد تک ریگولیٹ کیا جا سکے۔ نیب افسر کا کہنا ہےکہ کارروائیاں عین قانونی ہیں اور نیب پر عوام کا اعتماد بحال ہوا ہے اور صرف اپوزیشن کیخلاف کارروائیوں کا تاثر زائل ہوا ہے ۔ مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنماء اورسابق اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ دوران گفتگو حکومت کو بارہا باور کرایا گیا کہ نیب کے ظالمانہ اختیارات کو لگام دینے کے لئے قومی احتساب آرڈیننس (این اے او) میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ لیکن اس بارے میں حکام کا رویہ سست رہا اوروہ کوئی تبدیلی لانے پر آمادہ دکھائی نہیں دیئے۔ قومی احتساب آرڈیننس میں ترامیم کے لئے سپریم کورٹ کی ہدایت پر حکومت اور اپوزیشن میں5 ہفتے قبل مذاکرات کے چار ادوار ہوئے۔ لیکن اس کے بعد سے اس ایشو پر کوئی باہم گفت و شنید نہیں ہوئی۔ ایاز صادق کا دعویٰ ہے کہ عبدالعلیم خان کی گرفتاری دراصل آئندہ چند دنوں میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی ممکنہ گرفتاری کو جواز دینے کے لئے ہے تاہم انہوں نے عبدالعلیم خان کی گرفتاری کو غلط قرار دیا۔ کیونکہ ان کے خلاف ہنوز کوئی الزام ثابت نہیں ہوسکا ہے۔ نیب کے تحت صرف تحقیقات ہو رہی ہیں۔ دوسری جانب سابق اسپیکر قومی اسمبلی کا یہ بھی کہنا تھا کہ نیب نے عبدالعلیم خان کے خلاف جمے جمائے مقدمے میں کچھ نہیں کیا۔ جو 2014 سے زیر التوا ہے۔ اپوزیشن کا موقف ہے کہ دوران تفتیش کوئی ٹھوس ثبوت ملنے پر ہی انہیں گرفتار کیا جانا چاہئے تھا۔ ایاز صادق نے کہا کہ نیب کے نقطہ نظر میں واضح فرق ہے۔ جس نے کچھ اپوزیشن رہنمائوں کو دوران تفتیش ہی حراست میں لے لیا جبکہ حکمراں جماعت تحریک انصاف کے بابر اعوان کو ریفرنس دائر ہونے کے باوجود گرفتار نہیں کیا گیا۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے احتساب آرڈیننس میں ملزمان کو ضمانت کی سہولت دیئے جانے کی دوبار یاد دہانی کرائی۔ اپوزیشن جماعتوں سے مذاکرات کے دوران حکومت نے آرڈیننس میں تین ترامیم کرنے میں دلچسپی کا اظہار کیا۔ جن میں ملزمان کو ضمانت کی سہولت دینے اور احتساب عدالتوں میں مقدمات کی غیر ضروری طوالت پر نظرثانی شامل ہیں۔ دوسرا فریق اس پر مطمئن لیکن کچھ اور ترامیم بھی چاہتا ہے، جیسے جسمانی ریمانڈ کی میعاد میں کمی، نیب چیئرمین سے پراسیکیوٹر جنرل کے دفتر کوعلیحدہ رکھنا اور ایک تین رکنی کمیٹی بنا کر نیب سربراہ کے اختیارات کو کم کرنا بھی شامل ہے۔دوسری جانب رات گئے مجاز اتھارٹی نہ ہونے کی وجہ سے نیب کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شر ط پر بتایا کہ نیب کی کارروائی قانون کے عین مطابق ہیں اور کسی سیاسی جماعت کیخلاف کارروائی نہیں کی جارہی ، نیب کی ان کارروائیوں سے عوام میں نیب پر اعتماد بحال ہوا ہے اور یہ تاثر بھی زائل ہوا ہے کہ نیب کی کارروائیاں صرف اپوزیشن کیخلاف ہیں۔
تازہ ترین