• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دوسرے اسٹیٹ آف دی یونین خطاب میں امریکی قوم کو آگاہ کیا کہ ان کی حکومت افغانستان میں طالبان کے ساتھ ساتھ دیگر گروہوں سے بھی تعمیری مذاکرات میں تیزی لارہی ہےاورافغانستان سے جلد فوج واپس بلانا چاہتی ہیں۔ انہوں نے کہا مجھے نہیں معلوم کہ ہم مذاکرات میں کوئی سمجھوتہ کرپاتے ہیں یا نہیں لیکن یہ معلوم ہے کہ دو دہائیوں کے بعد اب وقت آگیا ہے کہ امن کے لئے کم از کم کوشش کرلی جائے۔ امریکی صدر کا کہنا بجا لیکن دوسری عالمی جنگ جہاں نو آبادیاتی دور کے اختتام کا آغاز ثابت ہوئی ،وہیں بدقسمتی سے یہ سرد جنگ میں بھی تبدیل ہوگئی۔ دنیا دو بلاکوں میں تقسیم ہوگئی ، سوویت یونین بلاک اور امریکی بلاک۔ اس تقسیم نے نہ صرف دنیا کو مسلسل خطرات کی زد میں رکھا بلکہ دنیا کے کئی ممالک معاشی اعتبار سے بھی مشکلات میں گھرے رہے۔ دسمبر 1979میں سوویت یونین کی افغانستان پر یلغار ، شکست اور تحلیل کے بعد امریکہ خود کو فاتح عالم خیال کرنے اور دنیا میں اپنا آرڈر چلانے کے لئے تمام حدیں پھلانگ گیا۔ دنیا میں طاقت کے توازن میں بگاڑ امریکی پالیسیوں کا ہی شاخسانہ ہے مثلاً مشرق وسطیٰ میں اسرائیل اور جنوبی ایشیا میں بھارت کو مضبوط تر کرنے میں تمام عالمی معاہدے پس پشت ڈال دئیے گئے۔ عراق کو ہلاکت خیز ہتھیار رکھنے کے محض شک پر روند ڈالا گیا ۔ مارچ 2018میں ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے کانگریس کو بھیجی جانے والی رپورٹ سامنے آئی کہ دنیا کے 180ممالک میں امریکہ کے 2 لاکھ فوجی موجود ہیں جبکہ فعال محض سات ممالک شام، یمن، لیبیا، نائیجریا، عراق، افغانستان اور صومالیہ میں ہیں، گویا صرف ا سلامی ممالک زد میں ہیں، اس کے نتائج بھی البتہ سامنے ہیں صرف افغانستان کی حالت امریکی ’’کامیابیاں‘‘عیاں کرنے کو کافی ہے۔ دریں صورت طالبان کو بھی چاہئے کہ باہمی اختلافات ختم کرکے ایک مضبوط مستحکم حکومت کے قیام کے لئے کوشش کریں، افغانستان اور افغانیوں نے بہت گھائو سہہ لئے ،اب امن و ترقی کی راہ اپنانا ہی بہترین عمل ہے۔

تازہ ترین