• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک خبر ہے جو باقاعد گی سے ہر دوسرے تیسرے روز آتی ہے، آج پھر آئی ہے کہ کسی جگہ ایک مکان کی چھت گرنے سے کنبے کے افراد کچل کر مر گئے جن میں کئی بچے بھی شامل تھے۔ اس مضمون کی خبر آئے دن آتی ہے اور دل دکھاتی ہے۔ انسانی جان کا جانا لوگ سمجھتے ہیں معمول کی خبر ہے لیکن کبھی کسی واقعے کی جگہ خود کو رکھ کر دیکھیں تو اندر کہیں پھانس سی چبھتی ضرور ہے۔ میں اکثر سوچتا تھا کہ یہ واقعہ بار بار اور جگہ جگہ کیوں ہوتا ہے۔ پھر ادھر اندرون ملک سفر کرنے کا موقع ملا تو بات سمجھ میں آئی۔ وہ جسے لوگ مکان کہتے ہیں وہ ایک تنہا رہنے کا ٹھکانہ ہوتا ہے جسے ہم چاہیں تو کمرہ کہہ لیں۔ اسی میں اوڑھنا، اسی میں بچھونا یہاں تک کہ اسی ایک کوٹھڑی میں مرنا جینا۔ غریبوں، مفلسوں اور ناداروں کا وہی گھر ہوتا ہے اور وہی ان کی رہائش ہوتی ہے مگر اس کی خاص بات رہی جا رہی ہے وہ یہ کہ یہ لوگ اپنا وہ کمرہ کسی راج مزدور اور بڑھئی کاریگر کی خدمات حاصل کر کے نہیں بنواتے۔ ان میں نہ اتنی مالی سکت ہوتی ہے نہ وسائل کہ کسی تجربہ کار کو کام پر لگا کر رہنے کا معقول ٹھکانہ بنوالیں۔ یہ لوگ خود ہی پاس پڑوس یا عزیز رشتے داروں کو ساتھ لگا کر جیسی تیسی عمارت کھڑی کر کے اس میں رہنے لگتے ہیں۔ انہیں اندازہ بھی نہیں ہوتا کہ اس طرح کی کاریگری کتنی بارشوں کا بوجھ اٹھا پائے گی۔ مجھے یاد ہے، ہم بچپن میں دیکھا کرتے تھے کہ جب کبھی کوئی جھونپڑا بنایا جاتا تھا تو اس کی دیواریں اٹھا کر زمین پر چھپّر تیار کیا جاتا تھا جو بہت وزنی ہوتا تھا، آخر آس پاس کے تمام لوگ مل کر چھپّر اٹھاتے اور اسے اوپر رکھتے تھے۔ میرا خیال ہے یہی حال ان کچی پکی اینٹوں کی ناقص دیواروں اور کمزور چھتوں کا ہوتا ہے۔ لوگ خود ہی بنا لیتے ہیں، جیسا بھی بنے۔ میں نے اندرون سندھ گاؤں دیہات میں ٹیڑھی دیواریں دیکھی ہیں۔ بارہا جھکی ہوئی اور خمیدہ تعمیر دیکھ چکا ہوں اور یہ سوچ کر سہم جاتا ہوں کہ یہ دیوار جان داروں پر گری تو کیا ہو گا۔ بلتستان میں تو پکی اینٹیں بنانے کا رواج نہیں۔ وہ گارے کی اینٹیں بناتے ہیں اور سیمنٹ کے بجائے گارے ہی کی مدد سے اوپر تلے چنتے ہیں۔ کراچی میں بھی عمارت سازی میں اینٹوں کا چلن نہیں۔ وہاں یہ سارا کام سیمنٹ کے بلاکوں سے لیا جاتا ہے لیکن باقی علاقوں میں سارا دارومدار پکی اینٹوں پر ہے۔ بلوچستان سے نکلنے والا سارا کوئلہ پنجاب جاتا ہے جہا ں جگہ جگہ اینٹوں کے بھٹے دھواں اگلتے نظر آتے ہیں۔ جہاں گھر کے مرد، عورتیں یہاں تک کہ بچّے بھی اینٹوں کے بھٹّوں پر مشقت مزدوری کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ ایک پکی ہوئی اینٹ معاشرے میں کیا مقام رکھتی ہے، آئیے سوچیں۔ کچھ عرصہ ہوا پشاور کے کسی علاقے میں ایک شخص کا قتل ہوا۔ بڑی ہی افسوسناک خبر تھی۔ جس نے بھی سنا، دکھ کا اظہار کیا کیونکہ وہ شخص اپنی بیٹی کی شادی کرنے والا تھا اور خبر کا دل دکھانے والا ایک پہلو یہ تھا کہ وہ بیٹی کے لئے سوچئے کیا جمع کررہا تھا۔ اینٹیں۔ ایک جیسا تیسا کمرہ ہی بیٹی کا گھر بسانے کے لئے بن جاتا تو باپ کتنا مسرور ہوتا۔

اینٹ کو ہماری زندگی میں کیا مقام حاصل ہے، اس کی حقیقت ابھی پچھلے دو تین مہینوں کی کارروائی میں دیکھی گئی ہے۔ یوں تو پاکستان کے خدا جانے کتنے علاقوں میں اور کہاں کہاں ’غیر قانونی‘ عمارتیں دھڑا دھڑ گرائی جارہی ہیں۔ بھاری بھرکم مشینیں کس خشوع و خضوع سے بنی بنائی عمارتوں کو لمحہ بھر میں ملبے کا ڈھیر بنا رہی ہیں۔ مجھے روٹی کپڑا اور مکان کی سب سے بڑ ی چیمپئن جماعت کے گڑھ خیرپور میرس کی خبر ہے جہاں بس اسٹینڈ کہلائے جانے والے علاقے میں بھاری بھرکم مشینیں اچھی بری عمارتوں کو بے دریغ گرارہی ہیں۔ بے خانماں ہونے والے لوگ در بدر ہیں، بھوک ہڑتالیں کر رہے ہیں، جلوس نکال رہے ہیں اور عدالتوں کے چکر کاٹ رہے ہیں، یہاں تک کہ کسی کی حرکت قلب بند ہوئی اور کسی کا ذہنی توازن بگڑ گیا۔ وہاں آپ سوچتے ہوں گے کہ گرائی جانے والی عمارتوں کے ملبے کا کیا بنے گا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ لوگ مزدور لگا کر اور چھکڑے کرائے پر لے کر ملبے کی اینٹیں سمیٹ رہے ہیں اور کسی محفوظ مقام پر اینٹوں کا ذخیرہ کر تے جارہے ہیں۔ انہیں آس بندھی ہے کہ ان کو کوئی متبادل جگہ ملے گی جہاں وہ ان ہی ٹوٹی پھوٹی اینٹوں کو اوپر تلے چن کر اپنا نیا تاج محل تراشیں گے۔ خیر پور والوں کو داد دینا پڑے گی کہ وہ یہی اینٹیں ان لوگوں پر نہیں برسا رہے جنہیں سب پہچانتے ہیں۔ جی چاہتا ہے کہ ان سے کہیں کہ ایسا نہ کریں۔ خیرپور جو کبھی پرامن اور خوش حال ریاست ہو ا کرتی تھی، وہاں اب حالات دل دکھاتے ہیں۔ جس وقت یہ تحریر لکھی جارہی ہے، خیر پور سے اذیت ناک خبریں آرہی ہیں۔ کسی با اثر گھرانے کے دو صاحب زادوں نے ایک غریب کنبے کی تیرہ برس کی بیٹی رمشا کو اٹھا لیا۔ یہی نہیں، اٹھا کر لے گئے، پھر خدا جانے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا اور آخر اس پر گولیاں چلا کر اسے مارڈالا۔ ایک صاحب زادے کے خلاف دو چار نہیں، پندرہ مقدمات ہیں اور وہ جو ہمارا بدبودار نظام ہے جس میں جاگیر دار گھر کی بہو بیٹیوں کو اٹھا کر لے جایا کرتے تھے وہ آج اکیسویں صدی میں بھی جاری وساری ہے۔ دنیا آگے ہی آگے نکل چلی جارہی ہے اور ایک ہم ہیں کہ قدامت کے گڑھے میں پڑے ہیں۔ خیر پور والوں کو تو جانے دیجئے، تربیلہ ڈیم کی تعمیر میں بے گھر ہونے والوں کو آج ساٹھ سال بعدتک نہیں بسا سکے اور وہ لوگ آج بھی نعرے لگا رہے ہیں، مگر یوں جیسے اندھے کنویں میں منہ ڈال کر۔

ایک بات یاد رکھنے کی ہے۔ گرنے والی چھت یہ نہیں دیکھتی کہ کس پر گر رہی ہے۔ بس گر جاتی ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین