• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زبوں حال ملکی معیشت کی بحالی کیلئے دوست ملکوں اور عالمی ذرائع سے مالی معاونت اور طویل المیعاد قرضوں کے حصول کی کوششوں کے سلسلے میں حکومت کو ایک اور کامیابی ملی ہے۔ دبئی میں وزیراعظم عمران خان اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف) کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹین لیگارڈ کے درمیان تقریباً پون گھنٹہ جاری رہنے والی ملاقات میں پاکستان کے لئے تقریباً6ارب ڈالر کے معاشی پیکیج پر اتفاق رائے ہو گیا۔ معاہدے کی تکنیکی تفصیلات ابھی طے ہونا باقی ہیں، تاہم فریقین اس کے بنیادی نکات پر متفق ہو گئے ہیں اور توقع ہے کہ اپریل تک پیکیج کی شرائط کو حتمی شکل دے دی جائے گی جس کے بعد جون میں اس پر عملدرآمد شروع ہو جائے گا اور یہ بیل آئوٹ پیکیج اگلے مالی سال کے بجٹ کا حصہ ہو گا، پیکیج اور اس کی شرائط پر فریقین کے حکام میں کئی ماہ سے مذاکرات جاری تھے۔ آئی ایم ایف جو شرائط منوانا چاہتا تھا وہ پاکستان کیلئے قابل قبول نہیں تھیں جس کی وجہ سے صورت حال بے یقینی کا شکار تھی۔ آئی ایم ایف کے ماہرین پاکستان میں معاشی اصلاحات چاہتے تھے جن کے نتیجے میں عوام پر بوجھ پڑنا فطری امر تھا۔ تاہم اعلیٰ ترین سطح سے مداخلت کے نتیجے میں فریقین میں وسیع البنیاد مفاہمت ہو گئی اور وزیراعظم عمران خان اور آئی ایم ایف کی سربراہ کے درمیان بات چیت کے بعد اعلان کیا گیا کہ پاکستان اور آئی ایم ایف معاشی اصلاحات پر متفق ہو گئے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے ورلڈ گورنمنٹ سمٹ میں خطاب کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ وہ پاکستان میں معاشی اصلاحات کررہے ہیں جو اگرچہ مشکل ہیں لیکن ضروری ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میں پاکستان کو بہت اوپر لے کر جانا چاہتا ہوں، یہاں سرمایہ کاری کا بہترین وقت ہے، سرمایہ کار یہاں آکر پیسہ بنانے کا موقع ضائع نہ کریں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ معاشی اصلاحات کے عمل سے کم آمدنی والے طبقے کو تحفظ ملےگا۔ آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر نے کہا کہ پاکستانی معیشت میں استحکام، معاشی اصلاحات اور فیصلہ کن پالیسیوں سے آئے گا، ہم پاکستان کی مدد کیلئے تیار ہیں۔ بہتر گورننس اور غریب کا معیارِ زندگی بلند کرنے کیلئے مضبوط مالیاتی پیکیج ضروری ہے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ پاکستان کی حکومت درست سمت میں معاشی اقدامات کر رہی ہے۔ بیل آئوٹ پیکیج کیلئے پاکستان نے آئی ایم ایف سے کیا مراعات حاصل کیں اور کون سی شرائط میں اسے نرمی پر آمادہ کیا اس حوالے سے زیادہ تفصیلات سامنے نہیں آئیں، تاہم سینئر حکام اور ماہرین نے اپنی معلومات کی بنا پر بتایا ہے کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ اپنی معیشت میں اسڑکچرل اصلاحات لائے گا۔ ریونیو اکٹھا کرنے کا ہدف بھی وہی طے کرے گا جو موجودہ سال کے 4.39کھرب کے مقابلے میں 4.7کھرب روپے ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کی لازمی شرائط میں تیل، بجلی اور گیس کے نرخوں میں ردو بدل، ٹیکس نیٹ میں توسیع، سرکاری سیکٹر کے اداروں کے خسارے میں کمی لانا، اسٹیٹ بینک کو مزید خود مختاری دینا، ڈالر کے مقابلے میں روپے کی شرح مارکیٹ ریٹس کی شرح کے مطابق بنانا اور وسیع البنیاد اسٹرکچرل ریفارمز شامل ہیں۔ یہ بھی طے ہے کہ معاہدے کی تفصیلات حتمی شکل دینے سے قبل عوام کے سامنے نہیں لائی جائیں گی۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ آئندہ بجٹ میں زیادہ تر معاشی اقدامات آئی ایم ایف کے مطالبات پر مبنی ہوں گے۔ بجلی اور گیس مزید مہنگی ہو گی اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت مزید کم کی جائے گی۔ ا ٓگے چل کر آئی ایم ایف پیکیج کے بہتر نتائج برآمد ہو سکتے ہیں مگر فوری طورپر مہنگائی میں اضافہ ہو گا جو پہلے ہی کافی بڑھ چکی ہے۔ مجموعی طور پر اس قرضے کے منفی اثرات کا بوجھ عوام ہی کو برداشت کرنا ہو گا۔ بنا بریں آئی ایم ایف بیل آئوٹ پیکیج کو معیشت کی بہتری کیلئے بروئے کار لانے کی خاطر زیادہ دوررس اقدامات کرنا ہوں گے۔ قرضے بڑھانے کے جو الزامات حکومت ماضی کے حکمرانوں پر لگا رہی ہے وہ پہلے ہی خود اس پر لگنا شروع ہو چکے ہیں اس لئے اسے بہتر معاشی حکمت عملی کے تحت آگے بڑھنا ہوگا۔

تازہ ترین