• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مرزا اسدا للہ خاں غالب کے ڈیڑھ سو سالہ یومِ وفات پر خصوصی مضمون 

مرزا اسدا للہ خاں غالب اردو زبان کے عظیم ترین شاعروں میں سے ایک ہیں۔ کم و بیش سب ہی نقادوں نے غالب کی شاعری کواعلیٰ ترین مقام دیا ہے۔ اگرچہ ان کی زندگی میں تو انھیں خاطر خواہ طور پر سراہا نہیں گیا لیکن غالب کی وفات کے بعد انھیں وہ شہرت ِ عام اور بقاے دوام حاصل ہوئی کہ 1969ء میں ان کی سو سالہ برسی بہت وسیع پیمانے پر نہ صرف پاکستان اور ہندوستان بلکہ روس اور بعض دیگر ممالک میں بھی منائی گئی۔ امسال 15؍ فروری کو غالب کی وفات کو ڈیڑھ سو برس پورے ہوجائیں گے ۔ اس موقعے کی مناسبت سے ہم غالب کے اردو دیوان کے معروف قلمی نسخوں اور ان کے دیوان کے ان کی حیات میں شائع ہونے والے ایڈیشنوں کا مختصر تعارف پیش کررہے ہیں۔ان قلمی اوردیگر مطبوعہ نسخوں کی تفصیل متعددمآخذات،مثلاً راقم کے ایک مقالے میں (مع حوالہ جات ) موجود ہے لیکن یہاں اختصار کو ملحوظ رکھا گیا ہے ۔

٭دیوانِ غالب کی اشاعتیں ، غالب کی حیات میں

غالب کی زندگی میں ان کے دیوان کے پانچ ایڈیشن شائع ہوئے۔ ان میں سے پہلی تین اشاعتیں دہلی سے ہوئیںلیکن غالب ان میں سے کسی بھی اشاعت سے خوش نہ تھے ۔میر مہدی مجروح کے نام اپنے ایک خط میں لکھا کہ ’’ہاے لکھنؤ کے چھاپے خانے نے جس کا دیوان چھاپا، اس کو آسمان پر چڑھادیا، حسن ِ خط سے الفاظ کو چمکادیا۔ دلّی پراوراس کے پانی پر اور اس کے چھاپے پر لعنت‘‘۔

غالب کے دیوان کے مطبوعہ ایڈیشنوں کی تفصیل کچھ یوں ہے:

پہلا ایڈیشن 1841ء میں دہلی کے مطبع سید الاخبارسے چھپا۔ اس کے ۱۰۸ صفحات تھے ۔کالی داس گپتا رضا کے مطابق اس میں ایک ہزار چھیانوے (1096) اشعار تھے ۔ لیکن امتیاز علی خاں عرشی کے مطابق غزلیات کے حصے میں تین شعر مکرر چھپ گئے ہیں لہٰذا اشعار کی تعداد ایک ہزار ترانوے (1093) ہے۔ دوسرا ایڈیشن1847ء میں مطبع دارالسلام ، دہلی، سے شائع ہوا ۔عرشی کے مطابق اس ایڈیشن میں سولہ (16) اشعار زیادہ تھے۔لیکن کالی داس گپتا رضا کے مطابق اس ایڈیشن کے اشعار کی تعداد گیارہ سو اٹھاون (1158) ہے۔ تیسرا ایڈیشن 1861ء میںمطبع احمدی، دہلی، سے چھپا، اٹھاسی (88)صفحات پر مبنی تھااور اس میں سترہ سو چھیانوے (1796ء) اشعار تھے ۔چوتھا ایڈیشن 1862ء میں مطبع نظامی، کان پور، نے طبع کیا۔اس کے ایک سو چار (104) صفحات تھے اور اس میں اٹھارہ سو دو (1802) اشعار تھے۔انچواں ایڈیشن1863 ءمیں مطبع مفید خلائق، آگرہ، سے شائع ہوا۔اس میں اشعار کی تعداد سترہ سو پچانوے (1795) ہے ۔

٭دیوان ِ غالب(اردو) کے معروف قلمی نسخے

غالب کے اردو دیوان کے اب تک جو قلمی نسخے دریافت ہوچکے ہیں ان میں سے چند معروف قلمی نسخوں کا مختصر ذکر پیش ہے:

۱۔ نسخہ ٔ عرشی زادہ(1816)

یہ نسخہ دو بار چھپ بھی چکا ہے ایک تو ہندوستان میں نسخۂ عرشی زادہ کے نام سے اور دوسرے پاکستان میں’’ نقوش‘‘ (لاہور)کے غالب نمبر کی دوسری جلد (شمارہ 113، اکتوبر 1969ء) میں۔ دیوانِ غالب کے مختلف قلمی نسخوں میںیہ سب سے پہلے یعنی ۱۸۱۶ء میںضبطِ تحریر میں لا گیا تھالیکن دریافت سب سے آخر یعنی 1969ء میں ہوا۔اس کے بارے میں ایک خیال یہ ہے کہ یہ مکمل طور پر غالب کے اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا ہے۔ اس نسخے کے بارے میں دوسری رائے یہ ہے کہ یہ جعلی ہے اور غالب کا نہیں کسی جعل ساز کا لکھا ہوا ہے۔اسے نسخہ ٔ امروہہ کا بھی نا م دیا گیاہے۔

۲۔ نسخۂ کلکتہ (سال ِکتابت تحقیق طلب )

غالب نے اپنے دیوان کا ایک نسخہ تیار کیا تھا جس میں حذف و اضافہ کیا گیا تھا اور جسے غالب نے اپنے ایک فارسی خط میں ’’دیوانِ دومی‘‘ کہا تھا لیکن یہ ابھی تک دریافت نہیں ہوا ۔

۳۔ نسخۂ فوج دار خاں یا نسخہ ٔ بھوپال(1821ء)

اسے بالعموم نسخہ ٔ بھوپال کہا جاتا ہے۔مسلم ضیائی نے اس کا ذکر نسخہ ٔ فوج دار خاں کے نام سے کیا ہے ۔عرشی صاحب نے لکھا ہے کہ صفر 123۷ہجری ؍ 1821ء میں کاتب حافظ معین الدین کے قلم سے نقل ہوا ۔ یہ نسخہ آزادی کے بعد بھوپال کے حمیدیہ کتب خانے سے غائب ہوگیا تھالیکن اب یہ نسخہ بازیافت ہوگیا ہے ۔ نسخہ ٔ بھوپال کو غالب کے دیوان کے قلمی نسخوں میں سب سے مستند خیال کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد نسخہ ٔ شیرانی اور پھر گل رعنا کا درجہ ہے۔

۴۔نسخہ ٔ شیرانی(1826ء)

غالب نے اپنے اردو کلام کی تنقیح اور ترتیب کا کام ازسرِ نو 1821ء میں شروع کیا تھاجس کے نتیجے میں یہ نسخہ وجود میں آیا۔ عرشی صاحب کے مطابق اس کی کتابت اپریل 1826ء میںمکمل ہوئی ۔دراصل غالب نے سفرِ کلکتہ سے پہلے نسخہ ٔ بھوپال میں ترمیم وتنسیخ و اضافہ کیا تھا اور نسخہ ٔ شیرانی اسی ترمیم شدہ نسخے کی ایک نقل ہے ۔ یہ نسخہ حافظ محمود شیرانی کی ملکیت تھا ۔

۵۔ گل ِ رعنا (1828ء)

یہ غالب کے اردو اور فارسی اشعار کا انتخاب ہے اور غالب نے 1828ء میںقیام ِ کلکتہ کے دوران میں مرتب کیاتھا۔لیکن اس کی مکمل اشاعت میں غالب کے انتقال کے بعد بھی سو سال لگ گئے۔مالک رام نے اس کے ایک نسخے اور معین الرحمٰن نے اس کے دو مزید نسخوں کا تعارف کرایا۔غالب کے شاگردسید فرزند احمد صفیر بلگرامی کے پوتے سید وصی احمد بلگرامی کی ملکیت میںگل رعنا کا ایک اورنسخہ تھا۔انجمن ترقیٔ اردو پاکستان نے یہ نسخہ بعنوان ’’گلِ رعنا مع آشتی نامۂ غالب‘‘ بتدوین و ترتیب ِ قدرت نقوی شائع کیا۔

۶۔ نسخہ ٔ رام پور (1833ء)

مسلم ضیائی کے خیال میں 1264ہجری ؍1832ء میں کتابت ہوئی۔عرشی کا خیال ہے کہ آخرِ 1264ہجری ؍1833ء میں مرتب ہوا تھا۔

۷۔ انتخابِ غالب (1836ء)

یہ غالب کے متداول دیوان کا انتخاب ہے ۔ اس کے سرورق پر1836ء تحریر ہے ۔

۸۔ نسخہ ٔبدایوں ( 1836ء)

یہ نسخہ بدایوں میں دریافت ہوا تھا۔ اس کے سرورق پر مہر ہے جس میں محمد ذوالفقار الدین ۱۲۵۲ہجری منقوش ہے۔

۹۔نسخۂ کراچی (1838ء)

ا س کی کتابت کا زمانہ 1838ء ہے لیکن اس پر کسی نامعلوم فرد (غالبا ً جس کا یہ نسخہ مملوکہ تھا)نے حواشی بھی لکھے جو 1841ء کے نوشتہ ہیں۔

۱۰۔ نسخہ ٔ دیسنہ (1845ء)

یہ دیسنہ کی الاصلا ح لائبریری کی ملکیت ہے۔ترقیمے میں ۲۶ ؍ ستمبر 1845ء لکھا ہے۔

۱۱۔ نسخہ ٔ کریم الدین (1845ء)

ترقیمے میں اس کا سال کتابت درج ہے جو اگست 1845ء؍شعبان 1261ہجری ہے ۔

۱۲۔ نسخہ ٔ لاہو ر(1852ء )

مسلم ضیائی کے مطابق قیاساً1845ء میںکتابت ہوئی اور نسخہ پنجاب یونی ورسٹی میں ہے۔ عرشی کے مطابق تاریخ ِ کتابت درج نہیںاور تقریظ میں 1254ہجری 1838-39 ءمندرج ہے لیکن غالب کی ۱۸۵۲ء کی ایک غزل موجود ہے لہٰذا یہی سال قرین ِ قیاس ہے۔

۱۳۔ نسخہ ٔرام پور جدید( 1855ء)

مسلم ضیائی کے مطابق 1855 ء کا نوشتہ ہے ۔ عرشی نے اسے نسخہ ٔ رامپور جدید قرارد یا ہے اور لکھا ہے کہ سالِ کتابت درج نہیں لیکن غالب نے یہ نسخہ 11؍ مئی 1857ء سے قبل نواب یوسف علی خاں والیٔ رام پور کو تحفتًہ بھیجا تھا لہٰذا اس سے قبل ہی کا ہونا چاہیے۔

۱۴۔ انتخاب ِغالب

مسلم ضیائی کے مطابق قیاساً 1862ء کے بعد کسی وقت کتابت ہوئی۔عرشی کے مطابق مطبع نظامی کان پور کے مطبوعہ نسخے پر اس کی بنیاد رکھی گئی ہے۔

۱۵۔نسخہ ٔ خواجہ (1998ء)

معین الرحمٰن نے 1998ء میں دیوان ِغالب کے ایک قلمی نسخے کو مرتب کرکے لاہور سے شائع کرایا۔مرتب کا کہنا تھا کہ دیوانِ غالب کا ایک قلمی نسخہ انھیں ملا جو بڑی حد تک نسخہ ٔ لاہور سے مماثل تھا۔ لیکن اہل علم کو ان سے اختلاف ہوا۔ڈاکٹر تحسین فراقی کے مطابق یہ دراصل نسخہ ٔ لاہور ہی تھا جو پنجاب یونی ورسٹی لاہور سے غائب ہوگیا تھااور ان کے خیال میں یہ ایک طرح کی جعل سازی تھی ۔ بقول ان کے نسخہ ٔ لاہور ہی کو نسخہ ٔ خواجہ بنا کر پیش کیا گیاتھا۔ لطیف الزماں خاں کے مطابق تحسین فراقی نے اس نسخے اور اس کی تدوین پر جو اعتراضات کیے تھے، معین الرحمٰن ان میں سے ایک کا بھی مسکت جواب نہ دے سکے۔

تازہ ترین