”اکیسویں صدی کا پاکستان وژن2030“ہمارے ملک کی ترقی کے لیے ایک مثالی مطبوعہ دستاویز ہے جو ایک صنعتی طور پر ترقی یافتہ اور خوشحال پاکستان کے حصول کے لیے کم وسائل کی معیشت میں علمی دخول کی وساطت سے مسلسل اور تیز تر ترقی کا تصور پیش کرتا ہے۔ وژن2030اپنے ابتدائی پیراگراف ہی میں پاکستان کی ترقی کیلئے لا علمی انداختہ (Input)پر زور دیتا ہے۔ علمی اضافہ لازماً مسلسل انسانی ترقی کے راستے کا تعین کرکے قومی خوشحالی پر منتج ہوتا ہے۔ آج کی علمی معیشت میں علمی دخول صرف ابتدائی اور ثانوی تعلیم سے ہی ممکن نہیں ہے بلکہ ترقی کے اس سفر میں اعلیٰ تعلیم کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستان کس حد تک اس مقصد کو حاصل کر سکا ہے؟ پاکستان کی ترقی میں اعلیٰ تعلیم کس حد تک معاون ہے؟ کسی قوم کی ترقی وخوشحالی میں جامعات کیا کردار ادا کرتی ہیں؟ میں اپنے مضمون میں ان سوالات اور اس طرح کے دیگر سوالات کا احاطہ کرنے کی کوشش کروں گا۔ عالمی بینک جیسی بین الاقوامی مالیاتی تعاون کرنے والی تنظمیں کسی قوم کی طویل عرصے کی معاشی ترقی کے حصول کے لیے بہت سے بنیادی عوامل کی تشخیص کرتی ہیں جن میں تعلیم مہارتوں سے آراستہ صنعتی مزدور طبقہ، اطلاعاتی اور مواصلاتی ٹیکنالوجی اور جدت پسندی شامل ہیں۔ علمی نظام پر مبنی یہ مہارتیں ایک مضبوط معاشی نظام کی کڑیاں ہیں ۔ اس لیے ایک قابل اعتماد علمی معیشت کا حصول اعلیٰ تعلیم پر توجہ مرکوز کیے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اِسی طرز فکر میں عالمی معاشی فورم کی گلوبل مقابلہ کی رپورٹ 2010-11ء نے بھی اعلیٰ تعلیم و تربیت تکنیکی ترقی اور جدت پسندی کو گلوبل معیشت میں معاشی خوشحالی اور سماجی ترقی کے لیے لازمی قرار دیا ہے۔ آج کی علمی معیشت میں بلاشبہ تعلیم ، مختلف ذرائع سے قومی آمدنی بڑھانے اور انفرادی کمائی میں اضافہ کا باعث ہے۔ زراعتی طریقہ پیداوار میں زمین آمدنی اور دولت کے حصول کا ذریعہ تھی جبکہ صنعتی معیشت میں مشین اور سرمایہ کلی اہمیت اختیار کرگئے لیکن آج کے اطلاعاتی معاشروں میں علم ہی معاشی ترقی کے حصول کا بنیادی ذریعہ ہے۔ دورِ حاضر کی علمی معیشت کے لیے خام مال اعلیٰ تعلیم ہی ہے۔ بین الاقوامی انسٹیٹیوٹ برائے تعلیمی پلاننگ2007اعلیٰ تعلیم کی پیداوار، تقسیم اور آگہی کو کسی بھی معاشرے میں بڑھاوے اور ترقی کی نئی اشکال سے روشناس کرنے کا باعث ہے۔ دورِ حاضر میں معاشی ترقی کا انحصار علمی بنیاد پر استوار خدمات (Services) پر ہے۔ یہاں یہ تذکرہ مناسب ہو گا کہ علمی معیشتوں کا دارومدار علمی بنیاد پر استوار اشیاء کی پیداوار کی بجائے جدید تحقیق کے ذریعے نئے علوم کی تخلیق ہے۔ بین الاقوامی انسٹیٹیوٹ برائے تعلیمی منصوبہ بندی2007کے مطابق علمی معیشتیں علم کی پیداوار اور تقسیم کو اولیت اور اہمیت دیتی ہیں، ا س لیے اعلیٰ تعلیمی ادارے کسی بھی معاشرے میں انسانی وسائل کی دستیابی کے بنیادی مراکز ہیں۔ پاکستان میں پالیسی سازوں میں ایک بنیادی مغالطہ یہ پایا جاتا ہے کہ معاشی ترقی کے لیے بنیادی تعلیم یا زیادہ سے زیادہ ثانوی تعلیم ہی اہم ہے نہ کہ اعلیٰ تعلیم ۔ اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے وجود میں آنے تک اعلیٰ تعلیم کو مسلسل نظر انداز کیا جاتا رہا۔ اس غفلت کے نتیجے میں اعلیٰ تعلیمی کمیشن پاکستان جیسے کئی ایک ممالک میں غربت و افلاس ختم کرنے میں ناکام رہا۔ یہی بے اعتنائی ” ترقی و خوشحالی کے مقاصد“میں بھی برتی گئی ہے۔ یہ صاف ظاہر کرتا ہے ہم جان بوجھ کر اپنے خوشحال مستقبل کے حصول سے پہلو تہی کر رہے ہیں۔ یہاں یہ ذکر کرنا مناسب ہو گا کہ صرف لکھنے پڑھنے کی صلاحیت اور پرائمری تعلیم روز گار، تکنیکی مہارت، مناسب تنخواہ یا اعلیٰ معیارِ زندگی کے حصول کا ذریعہ نہیں بن سکتی ۔ معیارتعلیم کی کمی کی وجہ سے ہمارا نوجوان طبقہ عمومی طور پر پیداواری طور پر تخلیقی و پیداواری بانجھ ہے اور تکنیکی طور پر ترقی یافتہ ممالک سے درآمد کی گئی اشیاء کی کھپت میں دلچسپی رکھتا ہے۔ اعلیٰ تعلیم پر توجہ دینے کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم بنیادی تعلیم سے غفلت برتیں بلکہ اعلیٰ تعلیم پر توجہ مرکوز کرنا اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ ہم پرائمری اور ثانوی تعلیم کو اعلیٰ تعلیم سے اس طرح مربوط کریں کہ ہم پوری قوم کے لیے جس ترقی وخوشحالی کے وہ آرزو مند ہیں اُس کو حاصل کریں۔ اعلیٰ تعلیم تبھی بامقصد ہو سکتی ہے جب یہ ملک کے تعلیمی نظام کے تسلسل کی آخری کڑی ہو جو اپنی پیداواری سمجھ بوجھ میں پوری قوم کو اپنے ہمراہ کر لے۔ گلوبل پیداواری و سیاسی نظام کی یلغار نے زندگی کے ہر شعبے میں انتہائی تربیت یافتہ محنت کش طبقے کی مانگ بڑھا دی ہے جس سے روزگار کے بہتر مواقع پید اہوئے ہیں اور اجرت میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ خصوصی طور پر اُن طلباء کے لیے جو اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم و تربیت حاصل کر چکے ہیں۔ کالجوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے جو طلباء کے داخلوں کی شرح اوسط سے عیاں ہے۔ جے بی جی تلک نے اپنے ایک حالیہ تجزبے میں ہندوستانی اور بین الاقوامی کالجوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں معاشی بڑھوتری اور سماجی ترقی کو انسانی ترقی کے شواہد جیسا کہ بچوں کی شرح اموات اور زندگی کی اوسط عمر میں اضافہ ہے۔ گواہی دیتے ہیں کہ کسی بھی قوم کی نشوو نما میں اعلیٰ تعلیمی ادارے ایک مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔ تلک نے تجرباتی بنیادوں پر ثابت کیا ہے کہ یونیورسٹی کی تعلیم افراد کی آمدنی میں اضافہ،معاشی ترقی میں بڑھوتری، غربت میں کمی کرنے جیسے عوامل کا پیش خیمہ اور انفرادی نشوونما کی واضح علامات سے منسلک ہے جیسا کہ اطفال کی شرح اموات میں بڑی حد تک کمی اور زندگی کے ماہ و سال میں اضافہ ہے۔ دنیا بھر میں پالیسی سازوں کا اس اٹل حقیقت سے آگاہ ہونے کے باوجود بھی پاکستان جیسے کئی ایک ترقی پذیر ممالک میں اُن کی توجہ کا مرکز ابتدائی تعلیمی پروگرام ہی ہیں اور پائیدار اور مسلسل سماجی و معاشی ترقی کے اعلیٰ تعلیم کے حصول سے اغماض برتتے ہیں۔ ایک باقاعدہ ،لگاتار سماجی و معاشی ترقی کے لیے لازم ہے کہ علمی نظام انسانی افرادی سرمایہ اور افرادی نشوونما، مالیاتی بڑھوتری کے ساتھ ساتھ غربت و افلاس میں کمی، جدید ٹیکنالوجی کے جلو میں روایتی طریقوں کا استعمال، گلوبل کے ہمراہ مقامی معاملات پر بھی نظر رکھے۔ پالیسی ساز نہ صرف ابتدائی تعلیم کا حصول ممکن بنائیں بلکہ ایسے اقدامات کی بھی پذیرائی کریں جن سے اعلیٰ تعلیم کا فروغ ممکن ہو سکے۔ یہ معاشرے کے لیے نہ صرف عمومی طور پر مفید ہو گا بلکہ سماجی بہبود اور معاشی ترقی کا باعث بھی بنے گا۔ ایک انگریزی اخبار میں بہ عنوان ”درمیانہ طبقہ کے پاکستانیوں کی اُمید افزاء توقعات“ میں لکھا گیا کہ ایشیائی ترقیاتی بنک کی رپورٹ کے مطابق اب پاکستان کا درمیانہ طبقہ کل آبادی کا40فی صد ہو گیا ہے جو کہ ہندوستان کے25فیصد سے خاطر خواہ بڑا ہے جبکہ1990سے ہمسایہ ملک کے36.5فی صد کے بالمقابل صرف12.8فی صد ہی تھا۔ پاکستان کے 2011-12ء کے معاشی سروے میں اسی دورانیے کے پہلے نوماہ میں اشیائے کھپت کی عمودی افزائش میں ٹیلی ویژن کی مانگ میں 28.6فی صد جبکہ گاڑیوں کی خرید میں 14.6فی صد اضافہ ہوا۔ پچھلی دہائی میں درمیانے طبقے کا اِن اشیائے کھپت کی خریداری میں اضافہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان میں اس اضافے کی وجہ صرف اور صرف اعلیٰ تعلیم کی کامیابی تھی۔ پاکستان میں اس وقت اعلیٰ تعلیم کا اجراء کرنے والی بڑی ایجنسیHECکے وجود میں آنے سے قبل کھپت کے معیار بہت پست تھے کیونکہ خدمات کا شعبہ بھی نوزائیدہ ہی تھا۔ بہت سے سماجی مفکر ین بشمول میرے یہ رائے رکھتے ہیں کہ متوسط طبقہ زیادہ دلجمعی کے ساتھ جامعاتی تعلیم کا خواہش مند ہے جس کی وساطت سے آزاد خیالی،بے باکی، معاشرتی ترقی کی مانگ اور جمہوریت کے مقاصد حاصل ہو سکتے ہیں۔ ایسے ہی دیگر عالمی نمونوں کی موجودگی میں پاکستان میں متوسط طبقے کا عروج مثبت تبدیلی لانے اور ترقی برپا کرنے والے ہر اول دستے کا کردار ادا کرنے کے امکانات میں اضافہ کا باعث ہو گا جو اعلیٰ تعلیمی اداروں کی وساطت سے تکمیل پائے گا۔