بھارتی پائلٹ ونگ کمانڈر ابھینندن بحفاظت ہندوستان پہنچ گیا لیکن نریندر مودی نے امن کے لئے پاکستان کی تازہ پیشکش پر اب تک کوئی براہ راست جواب نہیں دیا ہے۔ خیال ہے کہ ہندوستان میں اِس سال عام انتخابات تک پاکستان کے ساتھ امن قائم کرنے کا کوئی معمولی سا اشارہ بھی بھارتی وزیر اعظم کے سیاسی مستقبل کو ملیا میٹ کر سکتا ہے، لہٰذا سرحد پار کسی مثبت پیش رفت کے اِمکانات فی الحال روشن نہیں۔ یہ وہی روّیہ ہے جس کے سبب مسئلہ کشمیر، روز بروز معمہ بنتا جا رہا ہے اور یہ وہی پالیسی ہے جس کے تحت بھارتی حکمراں حقیقی دنیا میں رہنے کے بجائے آنکھوں پر پٹی باندھ کر خطے میں اپنی بادشاہت قائم کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ حکمرانی کا یہ انداز درحقیقت اُن قدیم روایات کی بھی کھلی اور بھرپور خلاف ورزی ہے جنہیں ہندوستان میں کم و بیش مقدّس مانا جاتا رہا ہے۔
امریکی مصنف رَاجر بوش قدیم ہندوستانی دانشور وِشنو گپتا چانکیہ عرف کوٹلیا کو دُنیا کا پہلا حقیقت پسند ماہرِ ریاستی اُمور قرار دیتے ہیں۔ ہندوستان میں آج بھی چانکیہ اور اِن کی تاریخی تصنیف اَرتھ شاستر کو سیاسی اور ریاستی اُمور میں رَہنمائی کا سب سے مستند ذریعہ ماناجاتا ہے لیکن کٹھور ہندوستانیت کے دَعویدار موجودہ بھارتی حکمراں اپنے اِس تاریخی رہنما اور اُن کی تعلیمات کو عملاً رد کر چکے ہیں۔ حقائق سے چشم پوشی، حقیقت پسندی پر مبنی چانکیہ کے فلسفے کی کھلی توہین ہے۔
پلوامہ حملے سے اَب تک بھارتی میڈیا پر خبروں اور تبصروں کو سن کر مایوسی ہوتی ہے کہ سرحد کے اُس پار کوئی ماننے کو تیار نہیں کہ جموں و کشمیر میں ریاست مخالف مسلح مزاحمت نہ صرف پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے بلکہ اِس کی شدّت اور حجم میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ بھارتی حکمران، افسر شاہی، افواج اور میڈیا اِس صورتحال کو محض ’’پاکستان کی جانب سے کی گئی سازش‘‘ قرار دے کر خود کو اور اپنی قوم کو مستقل دھوکہ دے رہے ہیں۔
برسر اقتداربھارتیہ جنتا پارٹی کے سینئر رہنماوں کو ماضی میں ویتنام، لبنان، فلپائن، نکراگوا، ایل سلواڈور، چلی، کیوبا اور بولیویا میں عوامی تحریکوں کے اُبھرنے اور پھر مسلح بغاوتوں میں تبدیل ہونے کے واقعات یقیناً یاد ہوں گے۔ ایسی تحریکوں اور بغاوتوں کی کامیابی یا ناکامی سے قطع نظر یہ تاریخی حقیقت دنیا کے سامنے ہے کہ ریاست کی کوتاہیاں اور غیر سنجید گی ہولناک نتائج کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہیں۔ ہندوستانی حکمراں بلاشبہ چار دہائیوں قبل افغان قبائل سے اٹھنے والی اُس مزاحمت سے بھی واقف ہوں گے جو مغربی مداخلت کے بعد گمراہ ہوکر، ریاست کی مکمل تباہی کا پیش خیمہ بن گئی۔
وادی کشمیر میں گزشتہ چند برسوں میں رُونما ہونے والے واقعات اپنی نوعیت و اثرات کے حوالے سے خالصتاً باغیانہ ہیں۔ پھر بڑے پیمانے پر گرفتاریوں اور سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں متعدد ہلاکتوں کے باوجود، پُرتشدد کارروائیوں کا جاری رہنا بھی اشارہ ہے کہ صورتحال کے بنیادی اسباب کا تعلق خالصتاً مقامی حالات سے ہے۔ مزید یہ کہ مسلح حملوں کے زیادہ تر واقعات کے رونما ہونے کے فوراً بعد اِن میں ملوث افراد کا مقامی آبادی میں گم ہو جانا ثبوت ہے کہ نہتے کشمیری عوام کی خاموش مگر بھاری اکثریت، نظریاتی طور پر اِس مسلح جدوجہد کی حامی ہے۔
بیسویں صدی کے اسکالرز نے تاریخی تناظر میں مسلح تحریکوں کے سیاسی، سماجی اور نفسیاتی پس منظر پر خاصی تحقیق کر رکھی ہے۔ دلچسپ بات یہ کہ لگ بھگ تین صدیوں پہلے اِس موضوع پر ہسپانوی سیاستدان سانتا کروس ڈی مارسی ناڈو کے مشاہدات، بیسویں صدی میں مختلف خطوں میں رُونما ہونے والی صورتحال سے براہ راست تعلق رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ عوامی بغاوت عموماً ریاست کی ناکامی کے نتیجے میں جنم لیتی ہے، لہٰذا اِس پر قابو پانے کے لئے جلد از جلد عام لوگوں کے دل جیتنا ضروری ہوتا ہے۔ مزید لکھتے ہیں کہ بغاوت کو اِبتدائی مراحل ہی میں شناخت کر لینا ریاست کی سب سے بڑی کامیابی ہوتی ہے۔ خاص طور پر کشمیر کے تناظر میں، مارسی ناڈو کا یہ نظریہ بھی قابلِ غور ہے کہ ریاست کے خلاف عوام کے عمومی جذبات اور احساسات کا غیر حقیقی ہونا ممکن نہیں۔ یعنی حکمرانوں کی غلطیوں کے تسلسل کے بغیر کسی مسلح جدوجہد کا اُبھرنا کم و بیش ناممکن ہے۔
جدید انقلابی رومانویت کی سب سے بڑی علامت سمجھے جانے والے چی گویرا نے عوام کے نچلے طبقوں سے اُبھرنے والی تحریکوں کے اسباب پر خاصی معروضی روشنی ڈالی ہے۔ اُن کے خیالات حیرت انگیز طور پر نہ صرف تین صدیوں قبل لکھے گئے مارسی ناڈو کے مقالات سے مطابقت رکھتے ہیں بلکہ بیسویں صدی میں سر اٹھانے والی زیادہ تر بغاوتوں کے پس منظر پر پورا اُترتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہر گوریلا (جنگجو ) دراصل اِصلاح پسند ہوتا ہے اور وہ صرف جبری قوتوں کے خلاف نہتے اور پسماندہ عوام کے حقوق کے لئے ہتھیار اُٹھاتا ہے۔ وادی کی صورتحال، چی گویرا کے بیان کردہ حالات سے خاصی مشابہت رکھتی ہے۔ چی گویرا کے اِن خیالات کو فرانسیسی دانشور ژول غیزی دَبغے نے فوکو تھیوری (Foco Theory) یا فوکل ازم (Focalism)کے نام سے باقاعدہ مزاحمتی فلسفے کے طور پر پیش کیا ہے۔ لیکن بھارتی حکمرانوں نے تو خود اپنے ہی رہنما چاnکیہ کے اِس سبق کو بھلا دیا ہے کہ کسی حکمران کی عوام میں مقبولیت، اِس کے مستحکم ہونے کی ضمانت ہوتی ہے۔ وادی میں غیر مقامی اَفواج کی کثیر تعیناتی بھی، چاnکیہ کی اِس ہدایت کی کھلی خلاف ورزی ہے کہ قانون کے نفاذ پر معمور اہلکاروں اور مقامی آبادی کا ہم زبان اور ہم نسل ہونا انتہائی ضروری ہے۔
عجب یہ کہ دِہلی میں بیٹھے فیصلہ ساز فی الحال اپنی نظریں، کشمیر کے بگڑتے ہوئے حالات پر جمائے رکھنے کے بجائے، آنے والے عام انتخابات پر لگائے ہوئے ہیں۔ ضرورت اِس بات کی ہے کہ وہ سب سے پہلے جمو ں و کشمیر کی تازہ صورتحال سے متعلق تمام حقائق کھلے دل سے تسلیم کریں اور امن کے قیام کے لئے سنجیدہ اقدامات کریں۔ اُنہیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ چانکیہ جس نے کوئی تئیس سو سال قبل، ہندوستانیوں سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ اور طاقتور یونانیوں کو حقیقت پسندی پر مبنی اپنی مقبول حکمت عملی کے ذریعے شکست ِ فاش سے دوچار کیا تھا، صاحبِ علم تھا، وہ جانتا تھا کہ کامیاب ریاست کے لئے حقیقی دُنیا میں رہنا ناگزیر ہے۔