• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چین نے آزادی اور خود مختاری کے فرق کو سمجھ لیا ہے

چین جو چند برس قبل تک بھاری مقدار میں امداد لینے والا ملک تھا آج ترقیاتی قرضے اور عطیات دینے والا دنیا کا ایک بڑا ملک بن گیا ہے اس نے گزشتہ دو سال میں ترقی پذیر ملکوں اور کمپنیوں کو عالمی بینک سے بھی زیادہ امداد فراہم کی ہے اور اب چین ایسے مرحلے میں داخل ہو گیا ہے جہاں وہ بآسانی دوسرے ملکوں میں اپنی موجودگی کا احساس کروا سکتا ہے۔ میرے خیال میں چین آج کل اپنی اقتصادی طاقت کے بل بوتے پر جو کچھ کررہا ہے اس سے الگ یا مختلف نہیں ہے جو دوسرے ترقی یافتہ ملک ہمیشہ سے کرتے آئے ہیں۔ چین نے حال ہی میں ترقی پذیر ملکوں اور عالمی کمپنیوں کو 110 ارب ڈالر کے قرضے دیئے ہیں جبکہ عالمی بنک نے دنیا کو مالیاتی بحران سے نمٹنے کے لئے صرف 110 ارب ڈالر کی رقم دی ہے۔ پیپلز بینک آف چائنا کے مطابق 2012ء کی چوتھی سہ ماہی کے دوران چین کے زرمبادلہ ذخائر میں گزشتہ سال کی نسبت 18.7 فیصد اضافہ ہوا ہے ستمبر میں ختم ہونے والی سہ ماہی میں زرمبادلہ ذخائر 2648 ارب کی سطح پر تھے اس طرح تین ماہ کے دوران ان میں 199 ارب ڈالر کا اضافہ ہو کر چین کے زرمبادلہ کے ذخائر 2847 ارب ڈالر کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئے ہیں، اس طرح چین دنیا بھر میں سب سے زیادہ زرمبادلہ رکھنے والا ملک بن گیا ہے۔
میرے حساب سے اقتصادیات کے بڑھتے ہوئے دیوقامت حجم کے ساتھ چین تیزی کے ساتھ عسکری استعداد کو بڑھا رہا ہے تاکہ علاقے اور علاقے سے باہر اپنے اقتصادی مفادات کا تحفظ کر سکے ایسا میرا خیال ہے کہ دنیا میں کہیں بھی حرکت پذیر ہونے کی صلاحیت رکھنے والی عسکری طاقت کا قیام چین میں بہت پہلے ہو چکا تھا اب اس میں تیزی کے ساتھ جدیدیت لائی جا رہی ہے تاکہ اسے فوجی طاقت میں نیٹو کے ہم پلہ بنایا جا سکے اس حوالے سے بعض مغربی عسکری تجزیہ نگاروں نے اس خوف کا اظہار کیا ہے کہ چائنا پیپلز لبریشن آرمی (PLA) کی تیزی سے بڑھتی قوت اسے بڑے ”عالمی عسکری ایکشن“ کی جانب دھکیل سکتی ہے اس خوف میں اس وقت اضافہ ہوا جب مارچ 2010ء میں چین کے سرکاری میڈیا میں اس بات کا اعلان کیا گیا کہ چینی وزیر اعظم نے چینی فوج کو ”علاقے میں ہائی ٹیک جنگ“ کو جیتنے کے لئے صلاحیتیں بڑھانے کی ہدایت کی، ستمبر 2009ء کو لندن میں ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں دنیا بھر سے عسکری قیادت نے شرکت کی۔ اس حوالے سے آرٹلری اور اسلحہ پر نظر رکھنے والے ادارے نے چین کے مستقبل کی جنگی پلاننگ پر ایک تجزیہ شائع کیا۔ جسے ہالینڈ کے ایک جریدہ نے اشاعت میں شامل کیا۔ جریدہ لکھتا ہے۔ ”چین ایک متحرک اور تیزی کے ساتھ نقل و حرکت کرنے والی فوج تیار کررہا ہے جو دنیا میں کہیں بھی کارروائی کے قابل ہوگی اور صلاحیت میں کسی بھی طور مغربی فوجوں کے ہم پلہ کہلائی جا سکتی ہے، اس مقصد کیلئے روس سے فضا میں ہی ایندھن لینے والے طیارے حاصل کئے گئے ہیں جو چینی فوج کی جنگی صلاحیتوں کو دوگنا کردیں گے۔“
ان تمام حالات کا اگر جائزہ لیا جائے تو صاف محسوس ہوگا کہ چین دراصل مغربی یونی پولر دنیا کے مقابل آچکا ہے اس کی ایک مثال یہ ہے کہ چین اور روس کے درمیان تیزی کے ساتھ سٹریٹجک تعاون میں اضافہ ہو رہا ہے۔ امریکہ کی معیشت 6 فیصد سے آگے نہیں بڑھ رہی جبکہ چین کی معیشت 10 فیصد تک جا پہنچی ہے۔ امریکہ کے مالیاتی نظام میں چین کی سرمایہ کاری ایک ہزار ارب ڈالر کو پار کر گئی ہے اور امریکہ اپنی تجارت میں چین کے ساتھ ڈھائی سو ارب سالانہ خسارے تک جا پہنچا ہے۔ ہالینڈ کے ایک اخبار نے چینی روزنامہ ”دی ڈیلی چائنا“ کی ایک رپورٹ کے حوالے سے بتایا ہے کہ روس اور چین کے درمیان ایک معاہدے کے تحت روس نے چین کو 34 ٹرانسپورٹ طیارے اور چار فضائی ٹینکر مہیا کئے ہیں اس کے ساتھ ساتھ روس چین کو اس کے جوہری توانائی کے منصوبوں کو مزید توسیع دینے کیلئے نیوکلیئر پاور انڈسٹری کے شعبے میں ٹکنیکی معاونت کررہا ہے۔ مئی 2008ء میں روس اور چین کے درمیان 1.5 بلین ڈالر کے معاہدے پر دستخط ہوئے تھے جس کے تحت روس چین کو نہ صرف یورینیم مہیا کررہا ہے بلکہ دو نئے ایٹمی ری ایکٹر بھی تعمیر کرکے دے گا۔ ادھر چین کے جوہری سائنسدانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے ایک ایسا طریقہ ڈھونڈ لیا ہے جس سے ملک کے جوہری پروگرام کو تین ہزار سال تک یورینیم کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ چین کے سرکاری ٹی وی چینل نے یہ خبر نشر کرتے ہوئے بتایا ہے کہ جوہری ماہرین نے استعمال شدہ یورینیم کو دوبارہ استعمال کے قابل بنانے کا طریقہ ڈھونڈ لیا ہے۔ میری معلومات کے مطابق چین کے موجودہ یورینیم کے ذخائر صرف اگلے پچاس سال تک چل سکیں گے مگر استعمال شدہ یورینم کو دوبارہ استعمال کرنے کی خبر چین کے لئے انتہائی خوش کن ہے جبکہ برطانیہ، فرانس اور انڈیا کے پاس پہلے ہی سے یہ ٹیکنالوجی موجود ہے لیکن چین کیلئے یہ انتہائی اہمیت کی حاصل ہے کیونکہ چین کوئلے کی درآمد پر اپنا انحصار کم کرنے کی کوشش میں ہے۔
مغربی ممالک میں چین کے بارے میں جو پروپیگنڈا عام ہے اس میں یہ بھی کہا جاتا ہے (جو ممکن ہے حقیت ہو) کہ چینی مصنوعات بلاشبہ سستی ہیں مگر وہ معیاری نہیں ہیں اس سے متعلق یورپ میں بے شمار لطیفے اور کارٹون شائع کئے جارہے ہیں علاوہ ازیں چین کی بعض غذائی اشیاء کے کور سے کاغذ اور گتہ وغیرہ نکالنے کی خبریں عام ہیں اور پھر یہ کہ چین کے تیار کردہ ملبوسات پر چین کے ٹیگ چسپاں نہیں کئے جاتے، سائز کا غلط اندارج ہوتا ہے اورا شیاء بالخصوص غذائی اجناس کی تیاری میں حفظان صحت کا خیال نہیں رکھا جاتا ان باتوں سے چین کے عالمی طاقت بن کر ابھرنے میں کوئی شے حائل نہیں البتہ چینیوں کی انگلش سے ناواقفیت ترقی کی راہ میں آڑے ضرور آسکتی ہے۔
چین پاکستان کا اچھا دوست ہے ، چینی سرمایہ کار پاکستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری بھی کرنا چاہتے ہیں مگرجہاں وہ پاکستانی بیورو کریسی کے رویہ سے از حد شاکی ہیں وہاں پاکستان کی امن و امان کی خراب صورتحال سے بھی متاثر ہیں اس کی ایک ادنیٰ سی مثال یہ ہے کہ چین کی یہ خواہش ہے کہ اس کیلئے پیٹرول جو مشرق وسطیٰ اور افریقہ سے آتا ہے وہ پاکستان کے راستے سے آئے اگر صوبہ سرحد ، فاٹا اور طالبان کے زیر تسلط علاقے میں بدامنی کا خاتمہ ہو جائے اور ان علاقوں پر حکومت پاکستان کا مکمل کنٹرول ہو جائے اور چین کے پیٹرول کیلئے پاکستانی راستہ کھل جائے تو وہ پیٹرول جو ابھی ایک ماہ میں چین پہنچتا ہے محض ایک ہفتے میں پہنچنے لگے گا۔ چین کا صوبہ ژی جیانگ ایک ایسا صوبہ ہے جو پاکستان کے قریب ہے اور پاکستان سے تجارتی تعلقات قائم کرنے کیلئے یہ ایک اہم مقام ہے، پاکستان کی لگ بھگ 64 کمپنیوں نے تجارتی مراکز یہاں قائم کر رکھے ہیں کہ پاکستان کے انفراسٹرکچر شعبہ میں 110 بلین ڈالر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ پاکستان نے چین کو پاکستان کی بندرگاہوں کے ذریعے اپنا مال بیرونی ممالک کو برآمد کرنے کی پیشکش کررکھی ہے کیونکہ چینی اشیاء اپنے ملک کی کسی بندرگاہ تک پہنچانے کیلئے تین ہفتے لگ جاتے ہیں جبکہ اس سے کم وقت میں چینی اشیاء پاکستانی بندرگاہوں کے ذریعے بیرونی ممالک کو پہنچائی جاسکتی ہیں میرے حساب سے پاکستان کی بندرگاہیں چینی اشیاء کی بیرونی تجارت کیلئے خود چین کی بندرگاہوں سے زیادہ موزوں اور کار آمد ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ صدر پاکستان آصف علی زرداری (جنہوں نے چین کے سترہ دورے کررکھے ہیں) کہتے ہیں کہ ان کے بار بار چین آنے کا مقصد یہ ہے کہ دونوں ملک ایک دوسرے کے تجربات اور سہولتوں سے فوائد حاصل کریں۔ پاکستانی یہ بات کہنا کبھی نہیں بھولتے کہ چین کی طاقت پاکستان کی طاقت ہے اور پاکستان کی طاقت چین کی طاقت ہے اور یہ کہ پاک چین دوستی ہمالیہ سے اونچی اور سمندروں سے گہری ہے لیکن اس کا کیا کیجئے کہ د ونوں جگہ پر آکسیجن نہیں ہے … میں نے کہیں پڑھا ہے کہ سانس لینے کیلئے آکسیجن ضروری ہے کیا میرا یقین غلط ہے…؟
تازہ ترین