• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میگزین رپورٹ

کراچی لٹریچر فیسٹیول اب شہر کی ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کے کیلنڈر میں مستقل حیثیت اختیار کرگیا ہے ۔ اس مرتبہ یہ رنگا رنگ ادبی اور ثقافتی میلہ ایسے ماحول میں منعقد ہوا جب پاکستان اور بھارت کے درمیان سرحدوں پر کشیدگی عروج پر تھی۔ایسے میں بہت سے افراد کو یہ میلہ مقررہ تاریخ(یکم تا تین مارچ) پر منعقد ہونے کی امید کم تھی۔خود اس میلے کے منتظمین کے مطابق ایک مرحلے پر انہوں نے اس نکتے پر سوچ بچار کی کہ کیا اسے منسوخ یا موخر کردیا جائے۔لیکن پھر وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ میلہ مقررہ تاریخ ہی پر منعقد کیا جائے اور ہمیں اپنے اوپر خوف طاری نہیں کرنا چاہیے ۔ خدا کا شکر ہے کہ سرحدوں پر کشیدگی ایک حد تک پہنچ کر کم ہونے لگی اوراس میلے میں بھی ماضی کی طرح لوگوں نے بھرپور انداز میں شرکت کرکے دنیا بھر کو یہ پیغام دیا کہ پاکستانی بہادر اور زندہ دل لوگ ہیں ، ادب اور ثقافت سے پیارکرتے ہیں، دنیا بھر کے ادیبوںشاعروں ، محققین اور فن کاروںکو پرامن ماحول میں مکالمہ کرتے اوراپنی ادبی ، علمی، تحقیقی اور فنّی کاوش پیش کرتے ہوئے دیکھنا اور سننا چاہتے ہیں ۔وہ ان کی کتابیں اور تحقیقی مواد پڑھنا بھی چاہتے ہیں اور فن کاروں کو ان کے فن پر داد دینے کا حوصلہ بھی رکھتے ہیں۔

بلاشبہ ایسی محافل نہ صرف قوموں اور ثقافتوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے بلکہ انہیںپُر امن بقائے باہمی کے ساتھ زندہ رہنے کا درس دینے کا ذریعہ بھی بنتی ہیں ۔ سرحدوں پر بہت زیادہ کشیدگی کے باوجود اس میلے کے ذریعےپاکستانی قوم دنیا بھر کو یہ پیغام دینے میں کام یاب رہی ۔

اگرچہ پاکستان کی فضائی حدود پروازوںکے لیے بند ہونے کی وجہ سےپہلے روز کی ایک نشست کی دو اہم شخصیات، ڈیبورا بیکر اورآئی اے رحمن شریکِ محفل نہیں ہوسکے اور ممتاز شاعر احمد فراز سے متعلق نشست اتوار کے روز تک موخر کردی گئی تھی، لیکن باقی پروگرام پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ شہر کے ایک معروف ہوٹل میں منعقدہ اس میلے میں مذاکرے، کتابوں کی رونمائی، شعر و شاعری کی نشستیں ،اسٹینڈ اپ کامیڈی ،انٹرویوز،پینل ڈسکشنز اور دیگر علمی و ادبی مباحثوں پر مشتمل نشستیں ہوئیں۔اس کے آغازسے ایک روز قبل آرٹس کونسل میں آکسفورڈیونیورسٹی پریس کے منیجنگ ڈائریکٹر ارشد سعید حسین نے پریس کانفرنس سے خطاب کرکےدسویں کراچی لڑیچر فیسٹیول کے بارے میں تفصیلات بتائیں۔

میلے میںدو سوسے زاید پاکستانی اور پندرہ سے زاید غیر ملکی ادیبوں، شعرا، نقاد اور فنون لطیفہ کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والی معروف شخصیات نےشرکت کی اور مختلف نشستوںمیں حصہ لیا۔میلےمیں انگریزی اور اردو ہی نہیں بلکہ سندھی، پنجابی اور سرائیکی زبانوںکی تیس سے زاید کتابوں کی رونمائی کی گئی۔مجموعی طورپر اسّی نشستیں ہوئیں اورڈاکیومینٹریزاور مختصر دورانیے کی فلمیں بھی دکھائی گئیں ۔سال ہائے گزشتہ کی طرح اس برس بھی انفاق فاونڈ یشن اردو لٹریچر پرائزکے لیے تین کتابوں کو منتخب کیا گیاتھاجن میں سمیع آہوجا کی کتاب ناردرن کمانڈ،فہمیدہ ریاض کی قلعہِ فراموشی اور صابر ظفر کی تصنیف روحِ قدیم کی قسم شامل تھیں۔

افتتاحی تقریب میں عالمی شہرت یافتہ مصنفہ ڈیبورا بیکر اور پاکستان میں صحافت اور انسانی حقوق کا معروف نام آئی اے رحمان کو شرکت کرنا تھی،لیکن وہ اس میں شریک نہیں ہوسکے تھے۔اختتامی تقریب میں وزیراعظم کے مشیر برائے ادارہ جاتی اصلاحات ڈاکٹر عشرت حسین اور ممتازشاعر افتخار عارف شریک ہوئے۔

افتتاحی تقریب کے مہمانِ خصوصی صوبہ سندھ کے گورنر،عمران اسماعیل تھے۔انہوں نےاپنے خطاب میں کہا کہ ہم کراچی میں معمول کی زندگی واپس لائے ہیں۔اب لوگوں نے یہ احساس کرلیا ہے کہ جنگ مسئلوں کا حل نہیں ہوتی۔اس سے پہلے اپنے افتتاحی خطاب میں، آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے منیجنگ ڈائریکٹر ارشد سعید حسین نے کہا آج دسویں کراچی لٹریچر فیسٹیول کی تقریب میں ہم نئی جہتیں اور ابھرتے ہوئے رجحانات سامنے لائیں گے، جس میں سوشل میڈیا اور ٹیکنالوجی کا ادب، کتب ، اشاعتی کام، مطالعے اور سوچنے کے اندازپر اثرات شامل ہے ۔اس سال فیسٹیول نسبتاً نوجوان پاکستانیوں کی حوصلہ افزائی کرنااور کل کے چیلنجز پر توجہ مرکوز کرنا چاہتا ہے۔

اس میلے میں تین دنوں میں دوسوسے زاید مقررین نے گفتگو اور خطاب کیا۔بیرون ملک سے آنے والی پندرہ شخصیات نے بھی خطاب کیا۔اس کے علاوہ مختلف موضوعات پراسّی نشستیں ہوئیں اورتیس سے زاید کتابوں کی رونمائی کی گئی۔

افتتاحی تقریب میں دو اہم مقررین کی عدم موجودگی کے سبب ان کی جگہ ممتاز شاعرہ زہرہ نگاہ اور منیزہ شمسی نے خطاب کیا۔زہرہ نگاہ نے کشیدہ صورت حال اور پاکستان کے ماضی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ماضی نے ہمیں بہت کچھ سکھایا ہے اور اب عام آدمی بھی یہ کہہ رہا ہے کہ جنگ میں کسی کی جیت نہیں ہوتی اور صرف انسانیت ہارتی ہے ۔ منیزہ شمسی نے آزادیِ اظہار اور قدغنوں سے پاک صحافت کی اہمیت کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں انفارمیشن کے نام پر ڈس انفارمیشن کا راستہ روکنا ہوگا۔

تقاریرکے بعد انفاق فاؤنڈیشن کی جانب سے بہترین اردو ادب کا انعام صابر ظفر کی کتاب’’روحِ قدیم کی قسم‘‘ کو دیا گیا۔شیما کرمانی اور ان کی ٹیم نے فہمیدہ ریاض کی نظم پر رقص پیش کیا جس کا عنوان تھا ”آؤ ہم وطنو رقص کرو“ تھا۔اس کے ساتھ ہی اس نشست کا اختتام ہوا۔

پہلے روز پاکستان کی سنیما انڈسٹری کے ماضی ،حال اور مستقبل کے حوالے سے بھی ایک نشست ہوئی۔اسی طرح ایک نشست :دی بیگم،اے پورٹریٹ آف رعنا لیاقت علی خان،کے عنوان سے انگریزی میں لکھی گئی کتاب کے بارے میں بھی ہوئی۔کتاب کی مصنفہ دیپا اگروال کواگرچہ تقریب میں شریک نہیں ہونا تھا لیکن ، شریک مصنفہ تہمینہ عزیزاور رعنا لیاقت جونیئرکو شرکت کرنا تھی۔تاہم فضائی ٹریفک پر پابندی کی وجہ سے وہ نشست میں شریک نہیں ہوئیں۔نشست کی میزبان منیزہ شمسی نے اس موقعے پر بیگم صاحبہ کے صاحب زادے اکبر اور بھتیجے جاوید علی خان سے گفتگو کی۔اس موقعے پر جاوید علی خان نے کہا کہ بیگم صاحبہ پر یہ واحد کتاب ہے۔اس کتاب کے لیے سرحدوں کے دونوں جانب دو خواتین نے تحقیق کی اور خوب کی۔اکبر لیاقت علی نے اپنی والدہ کی تعلیم اورخواتین کی فلاح و بہبودکے شعبے میں خدمات کا تذکرہ کیا۔

انگریزی شاعری کے بارے میں بھی ایک نشست ہوئی جس میں مختلف شعرا نے انگریزی زبان میں کلام سنایا۔اس سیشن کے ماڈریٹر سلمان طارق قریشی تھے۔

فیسٹیول کے دوسرے روزچھبّیس سے زایدنشستیں ہوئیں۔ فیسٹیول میں ادب کی باتوں کے ساتھ تھیٹر کیسا ہو اورکیسا تھاکےموضوع پربھی بحث کی گئی ۔وزیر تعلیم سردارشاہ کا اس موقعے پر کہنا تھا کہ اگر محکمہ تعلیم ،تعلیم کی خرابی کا ذمے دار ہے تو سرکاری اسکولز سے پڑھے والے طلبا نے بھی بے وفائی کی ہے۔

دوسرے روز امریکا سے تعلق رکھنے والی تاریخ کی محققہ،ڈیبورا بیکر اوریونیورسٹی آ ف اوریگن،امریکا کے شعبے،بین الاقوامی مطالعے کی پروفیسرانیتاویز کے درمیان ہونے والی گفتگو حاضرین کو 1930کے عشرے اور 1040کے عشرے کے اوائل کے برطانوی ہندکی یادوں کے سحر میں گرفتار کیے رہی۔یہ گفتگو ڈیبورا بیکر کی کتاب وار اینڈ دی اینڈ آف ایمپائرکے تناظر میں ہوئی۔

تیسرے روزڈاکٹر عشرت حسین،اعجاز قریشی اور ندیم حسین کی تحریر کردہ کتاب، اکانومی آف ماڈرن سندھ، کی رونمائی کی تقریب سے سندھ کے وزیر اعلی مراد علی شاہ نے بھی خطاب کیا۔اس کے علاوہ اردو زبان سے محبت، شارٹ فلم، ڈرامے، عورت کی نگاہ میں ماضی اور مستقبل کے خاکے کے ساتھ دیگر نشستیں بھی ہوئیں۔

دسویں کراچی لٹریچر فیسٹیول میں درویش بینڈنے صوفیانہ رنگ جمایا اور تماشابینڈ نے بھی پرفارم کیا۔

فیسٹول کے آخری روز لوگوں کی بڑی تعداد انور مقصود اور ضیا محی الدین کی دل چسپ گفتگو سننے پہنچی تھی۔ انور مقصود ۔ ضیا محی الدین نے مشتاق احمد یوسفی کے مزاح سے بھرپور اقتباسات پڑھ کر شرکا کو خوب ہنسایا۔

تازہ ترین