• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئو دوستو! کوئی نئی کتاب خریدیں …

خیال تازہ … شہزادعلی
آج 7 مارچ کو ورلڈ بک اینڈ کاپی رائٹ ڈے منایا جارہا ہے۔ جسے انٹرنیشنل ڈے آف دی بک اور ورلڈ بک ڈیز کے طور پر بھی جانا جاتاہے۔ اس دن کو یونیسکو( UNESCO ) آرگنائز کرتاہے۔ مقاصد ریڈنگ ، پبلشنگ اور کاپی رائٹ کو پروموٹ کرنا ہے۔ ایک علیحدہ ایونٹ ورلڈ بک نائٹ 23 اپریل کو انڈی پنڈنٹ چیرٹی دی ریڈنگ ایجنسی اس کا اہتمام کرتی ہے لیکن برطانوی اسکولوں میں اس مناسبت سے ہفتہ رواں کو ہفتۂ کتاب کے طور پر سلیبریٹ کیا جارہاہے۔ یعنی ہفتہ بھر مختلف طرح کی سرگرمیوں کے ذریعے بچوں میں کتابیں پڑھنے اور ذوق مطالعہ کو فروغ دیا جاتا ہے۔ مختلف کتابوں کے ناشرین، بک پبلشرز، بک سیلرز اور قومی بک ٹوکن تعاون کرتے ہیں اور بچوں کے شوق کو جلا بخشتے ہیں۔ کئی سال سے اس تاریخ کو ورلڈ بک ڈے یعنی کتابوں کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ برطانیہ میں کاپی رائٹ بھی شامل ہے جس باعث یہ مصنفین ، illustrators ، کتابوں اور سب سے زیادہ یہ پڑھنے( reading ) کو سلیبریٹ کرنا ہے۔ بچوں میں کتب بینی کے شوق کو پروان چڑھانے کے ساتھ ساتھ ناشروں اور مصنفین کے حقوق کے تحفظ کا احساس اجاگر کیا جاتا ہے۔ یہ روایت رہی ہے کہ ملک بھر کے بچے ایک پونڈ مالیت کے ٹوکن لیتے ہیں اور پھر ورلڈ بکس میں سے مخصوص یا اپنے کسی موسٹ فیورٹ پسندیدہ مصنف کی کتاب خریدی جاتی ہے۔ بچے اپنی پسندیدہ کتاب کے کسی کریکٹر کردار کا لباس پہن کر بھی مختلف سرگرمیوں میں پارٹ پلے کرتے ہیں جب کہ کتاب پڑھنے میں رغبت پیدا کرنے کے لئے مختلف تھیم کو استعمال کیا جاتاہے کہ آپ صرف تفریح طبع just for enjoyment and pleasure کے لئے کتاب پڑھیں یا ذہنی آسودگی اور معلومات میں اضافہ کے لئےکتاب ضرور پڑھیں۔درحقیقت یہ اپنی نوعیت کی دنیا بھر میں سب سے بڑی سلیبریشن ہے جب کہ یوکے اور آئرلینڈ میں بچوں کو پڑھنے کا سرور بخشنے کے لئے ہر ایک کو کتاب مہیا کی جاتی ہے۔ نئے سال( New Year )، نیو لائبریری ( New Library ) کا تصور ابھارا جاتا ہے۔ سال کا کوئی دن مخصوص کرکے نئے سرے سے عہد و پیماں باندھے جاتے ہیں۔ برطانوی اس طرح کسی نئے موقع پر کسی اہم دن کی خوشی میں اس نوعیت کی عہد کرتے نظر آتے ہیں کہ چلو اس بہانے کوئی نئی کتاب خریدی جائے۔ اپنے بچوں کو والدین بکس گفٹ کرتے ہیں اور پارٹنرز بھی ایک دوسرے کو ان کی پسند کی نئی کتاب تحفہ میں دیں گے۔ مقصد بدیع طور پر یہ کہ بالآخر ہر کوئی واپس ریڈنگ کی طرف مائل ہو۔پاکستان کا جب دیگر ممالک سے موازنہ کیا جائے تولٹریسی ریٹ بہت کم ہے۔ اکنامک سروے کے مطابق ساٹھ سے 58فیصد ہے جب کہ برطانیہ میں پندرہ یا اس سے اوپر کی عمر کے افراد میں یہ شرح 99فیصد ہےمگر پھر بھی پوری تندہی سے ریڈنگ پر فوکس کیا جاتا ہے۔ ہفتہ کتاب کی مناسبت سے شاید آج اپنا شغل بھی شیئر کرنا برمحل ہو۔ اخبارات ، رسائل و جرائد کے علاوہ رنگ رنگ کی کتابوں سے اپنا رشتہ نانا جان چوہدری میر زمان مرحوم جو آزاد کشمیر کے کلکٹر تھے، ان کی لائبریری میں بانگ درا، بال جبریل، ضرب کلیم، شہاب نامہ سے لے کر کئی طرح کی نصابی اور غیر نصابی کتب کا ذخیرہ تھا۔جن سے بچپن میں ہی استفادہ کا موقع ملا۔ والد مرحوم چوہدری شہباز علی جو برطانیہ سے اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے نے بھی میرے شوق کو پروان چڑھانے کا خصوصی خیال رکھا۔ ماموں ڈاکٹر سفیر اقبال جواس وقت ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ آزاکشمیر ہیں ان کی وساطت سے ریڈرز ڈائجسٹ کوٹلی میں پڑھنا دستیاب ہوا چند روز آئین نو میں پڑھا کہ امریکیوں کی فکری تعمیر میں ریڈر ڈائجسٹ کا کردار اور پاکستان کے اہل فکر و دانش کی نشوونما میں اردو ڈائجسٹ کا کلیدی رول رہا ہے۔ اس تناظر میں راقم خوش نصیب ہے کہ بچپن سے دونوں ڈائجسٹ زیر مطالعہ رہے ۔ پھر کوٹلی، میرپور اور راولپنڈی کا کوئی بک سٹال ایسا نہیں تھا جہاں سے کتاب ، ڈائجسٹ ، رسالہ تسلسل سے نہ لیتا جبکہ واقفان حال کو ہی علم ہوتا تھا کے مارکیٹ بک سٹال پر پندرہ دن پہلے اگلے ماہ کا رسالہ آ جاتا تھا۔ ابن صفی، مظہر کلیم کی عمران سیریز، نئے افق، الطاف حسین اور اعجاز قریشی کا اردو ڈائجسٹ، عنایت اللہ کا حکایت، سسپنس، جواب عرض، آداب عرض، سلام عرض، پاکیزہ، گاوں میں پڑھے لکھے گھرانوں میں کوئی گھر کم ہی ایسا تھا جہاں پر راقم کی کوئی کتاب زیر گردش نہ ہوتی رہی ہو۔ پھر برطانیہ آکر بھی اپنی ہابی hobby ، مشغلہ ، شوق کتاب ، اخبار بینی یا پارکر پین خریدنا ہی رہا ۔ اس سے ہٹ کر بس کافی یا چائے نوش کرنا۔ پھر یورپ کے سب سے بڑے بک سٹور واٹر سٹون بک اسٹور پکڈلی سے واقفیت ہوگئی جہاں book browsing کی اصطلاح سے متعارف ہوا کہ نہ تو روایتی لائبریری کہ کتاب borrow ہی کریں یا traditional بک شاپ کہ کتاب خریدی ہی جائے ۔ یہاں پر آپ کیفے میں بیٹھ کر بھی کتاب خریدے بغیر کتاب پڑھیں انجوائے کریں۔ یا یہاں کی درسگاہوں اور سنٹرل لائبریریوں میں کتابیں کھنگالنا خریدنا یا borrow کرنا۔ راقم ایک رات میں کتاب ختم کرنے کی لڑکپن سے عادت پختہ بہت کم سویا اخبار بینی یا کتاب کی ورق گردانی ۔ ہونٹ ہلائے بغیر صرف آنکھوں سے پڑھنا سیکھا جس باعث طویل سے طویل کتاب نہ صرف فوری طور پر پڑھنی بلکہ متدد کتابوں کے جائزے لکھے۔ ان دنوں نک رابنسن کی الیکشن نوٹ بک Nick Robinson Election Note book زیر مطالعہ ہے۔ الیکشن نوٹ بک برطانیہ کے مستقبل پر درون خانہ جنگ اور ایک صحافی کی ان واقعات کو رپورٹ کرنے کی جدوجہد پر مشتمل ہے۔اس طرح کی کتاب سے میری دلچسپی فطری ہے۔ اس کتاب سے بریگزٹ متعلق بعض امور پر بھی روشنی پڑتی ہے اور ایک ورکنگ جرنلسٹ کی زندگی اور طرز عمل کیسا ہو ۔یہ پہلو بھی ہمارے سامنے آتا ہے۔بی بی سی کے پولیٹیکل ایڈیٹر کے طور پر نک رابنسن کی مقتدر شخصیات تک بہتر رسائی تھی جس باعث 10 ڈاؤننگ سٹریٹ اور اپوزیشن پارٹیز کے ہیڈز تک سب کی اندرونی سرگرمیاں بھی وہ عام لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں۔ صحافیوں کے لئے بعض رہنما اصول بھی موجود ہیں۔ جب کہ آنے والے الیکشن کو سمجھنے کے لئے پچھلی مشق سے واقفیت بھی ضروری ہے اس لحاظ سے بھی الیکشن نوٹ بک کا مطالعہ دلچسپی کا باعث ہے پھر بریگزٹ پس منظر، پیش منظر اور الیکشن کے عرصہ میں کیسے اپنے سیاسی نظریات سے ہٹ کر غیر جانبداری ایک جرنلسٹ کیسے اپنے پیشے سے دیانت دار ہوسکتا ہے اپنے سامعین اور قارئین کو سچ اور حقائق سے باخبر بھی رکھیں اور کوئی آپ کی ذات پر انگلی بھی اٹھا نہ سکے اور آپ کے بطور جرنلسٹ تمام پولیٹیکل سٹیک ہولڈرز سے ریلشنز بھی برقرار رہیں یہ فن کسی پروفیشنل جرنلسٹ سے ہی سیکھا جاسکتا ہے۔یہ کتاب نہ صرف برطانیہ میں پاکستانی ورکنگ جرنلسٹ بلکہ ملک کے اندر کام کرنے والے پیشہ ور صحافیوں کے لئے ایک آئینہ ہے کہ جہاں ہم اداروں ، حکومت یا مختلف جماعتوں کے میڈیا کے حوالے تحفظات ملاحظہ کرتے ہیں وہاں اس طرح کے صحافی سے بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے کہ کیسے سچ بھی پیش کردیا اور ساتھ ہی اپنی ملازمت بھی جاری رپورٹنگ میں کیسے بیلنس ، توازن رکھا جائے۔ یہ بھی خیال رہے کہ قبل ازیں نک آئی ٹی وی کے پولیٹیکل ایڈیٹر بھی رہے پہلے شخص ہیں جو ان دو اہم عہدوں پر متمکن رہے۔ انہوں نے آکسفورڈ سے پالیٹیکس، فلاسفی اور اکنامکس جیسے اہم مضامین پڑھے۔ اور جو یہ کہا جاتا ہے کہ کتاب ایسی ہو کہ جسے انگریزی میں page turner یعنی جو ریڈر کو ازخود صفحہ پلٹنے پر مجبور کردے راقم کے زیر مطالعہ جو کتب رہی ہیں اس تناظر میں اردو میں کرنل محمد خان اور انگریزی میں لارڈ جعفری آرچر کی تصنیفات نمایاں ہیں ۔ لارڈ جعفری آرچر میرا پسندیدہ قلمکار ہے۔ جن کے متعلق ڈیلی ٹیلی گراف کا تبصرہ ہے کہ اگر سٹوری بتانے story telling پر نوبل پرائز ہو تو آرچر ہی جیتے گا۔ میل آن سنڈے ، شاید ہمارے وقت کے سب سے بڑے سٹوری ٹیلر ہیں۔ ان کے ناول اور شارٹ سٹوریز دنیا بھر میں سب سے زیادہ فروخت کا ریکارڈ رکھتی ہیں۔ یہ دنیا کے واحد کہانی کار ہیں جو فکشن ، شارٹ سٹوریز اور نان فکشن کے حوالے بیسٹ سیلر مانے جاتے ہیں ۔ اس وقت ان کی کتاب ہیڈز یو ونheads you win راقم کے ہاتھوں میں موجود ہے۔ دوستو، آؤ عہد کریں کہ ہر روز نہ سعی ہر ہفتے بعد ایک کتاب ضرور خرید کر اپنی لائبریری کی زینت بنائی جائے اور کتب بینی کے مثبت شوق کو زندہ رکھا جائے ۔
تازہ ترین