گزشتہ دنوں پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری کشیدگی کے حوالے سے ایک پوسٹ پر نظر پڑی، جس پر ان گنت کمینٹس تھے۔ سوشل میڈیا پر دونوں ممالک سے تعلق رکھنے والے پڑھے لکھے اور باشعور نوجوان ایک دوسرے سے سبقط لے جانے کی دوڑ میں جس طرح الفاظ استعمال کر رہے تھے اُسے پڑھ کر یہ کہئے بنا نہیں رہ سکتے کہ، اسے بدلنے کی ضرورت ہے۔
356 ملین نوجوان آبادی پر مشتمل بھارت دنیا کا سب سے بڑا جب کہ پاکستان 59 ملین نوجوان آبادی کے ساتھ پانچواں بڑا ملک ہے۔ کسی بھی ملک کی ترقی میں اس ملک کے نوجوانوں کا کردار صف اوّل کے سپاہی کی طرح اہم ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ نے بھی اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ معاشرے میں سلامتی ، تحفظ اور امن برقرار رکھنے میں نوجوانوں کا کردار کلیدی ہے۔ ان کی کوششوں ہی سے معاشرے میں مثبت تبدیلی کو اُجاگر کیا جاسکتا ہے، جب کہ ماہر عمرانیات اس بات پر متفق ہیں کہ کسی بھی معاشرے ميں تبديلی کا بہترين ذريعہ وہاں کی نسل نو ہوتی ہے۔ کیوں کہ نوجوان کسی بھی معاشرے ميں سب سے زيادہ متحرک اور با اثر ہوتے ہیں۔ نوجوان توانائی کا ايک بے پناہ ذخيرہ ہیں، جنہیں اگر درست طريقے سے کام ميں نہ لايا جائے تو يہ تخريب کاری کا سبب بھی بن سکتے ہیں۔ بلاشبہ نوجوان کسی بھی ملک کی ترقی میں ریڈہ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ملکی ترقی کا پہیہ رواں دواں رکھنے کے لیے نوجوانوں پر مشتمل افرادی قوت کی ضرورت ہوتی ہے، یہ ہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں نوجوانوں کی صلاحیتوں سے بھر پور استفادہ کرنے کی ہرممکن کوشش کی جاتی ہے۔ ایسی پالیسیاں اور اقدامات کیے جاتے ہیں، جس سے نوجوانوں کی زیادہ سے زیادہ تعمیری و عملی شرکت کو یقینی بنایا جائے۔
کیا ہی اچھا ہوتا اگر نوجوان کشیدہ صورت حال کے دوران سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کو محاذ جنگ بنانے کی بجائے امن کا پیغام پھیلاتے۔ تھوڑا غور کرتے کہ اگر دونوں ممالک کے مابین جنگ چھڑ جائے تو کتنا نقصان ہوگا، نسل نو کس نہج پر آکھڑی ہوگی، دونوں ممالک کو جس غذائی قلت کا اس وقت سامنا ہے وہ کس حد تک بڑھ جائے گا، مہنگائی جو ابھی آسمان کی بلندیوں کو چھو رہی ہے وہ بعدازاں جنگ کس انتہا کو پہنچ جائے گی۔ نوجوان نسل چاہئے پاکستان کی ہو یا بھارت کی، کیا جنگ کے بعد ان کا مستقبل تاب ناک نہیں ہوگا؟، صرف ان کا ہی کیوں ہر اس شخص کا مستقبل تاریک ہوگا جو جنگ میں زندہ بچ جائیں گے۔ لیکن اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ زندہ بچ جانے والوں کی صلاحیتیں، ہنر، قابلیت، طاقت سب کچھ بالکل ویسی ہی ہوگی جیساکہ قبل از جنگ تھی۔
وہ افراد جو صرف جنگ کی حمایت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ اس کے ذریعے پڑوسی ملک سے برتری حاصل کرلیں گے ، اس طرح ان کی انا کو تسکین حاصل ہوگی، تو انہیں ماضی سے کچھ سبق حاصل کرنا چاہیے۔ جب جنگ عظیم کے دوران دنیا بھر بلخصوص برصغیر کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد اپنے ہی وسائل سے مستفید نہیں ہوسکتے تھے۔ کسی دوسرے کی جنگ کا حصہ بن کر انہیں جیتانے کی خاطر برصغیر کی ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کو اپنے باپ، بھائی اور بیٹوں کی قربانیاں دینا پڑی تھی۔ موجودہ صورت حال ماضی سے کچھ مختلف نہیں ہے جب چند دشمن ممالک، سیاست داں، شر پسند عناصر اپنے عزائم کو پورا کرنے کی خاطر دونوں ممالک کے درمیاں ایسے حالت برپا کردیتے ہیں کہ نوبت جنگ تک آنپہچے۔
مشاہدے میں آیا ہے کہ، کسی بھی جنگی صورتحال سے نمٹنے کے لیے دونوں ممالک دفاعی نظام کو بہتر سے بہتر، مضبوط سے مضبوط تر بنانے کی خاطر جدید ترین اسلحہ سے لیس افواج تیار کرنے کی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں، جس کی خاطر وہ اپنے ملک کے بجٹ کا بڑا حصہ صرف کرنے سے بھی نہیں چونکتے۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ جو پیسہ دفاعی نظام کو مضبوط و مستحکم بنانے کی خاطر خرچ کر رہے ہیں۔ اس کا کچھ حصہ اپنے عوام کے معیار زندگی بہتر بنانے پر خرچ کریں۔ مثال کے طور پر حال ہی میں ہونے والی ائیر اسٹرئیک میں بھارت کی جانب سے مگ -21 ، جب کہ پاکستان کی جانب سے جے ایف تھنڈر لڑاکا طیارے استعمال کیے گیے، ایک طیارے کی لاگت تقریباً 25 سے 30 ملین ڈالرز تک ہے۔ اس کے برعکس اگر دونوں ممالک کے صرف تعلیمی بجٹ کو ہی لیجئے تو پاکستان تقریباً 97 کڑور روپے جب کہ بھارت تقریباً 85 کڑور روپے سالانہ خرچ کرتا ہے، اس کے علاوہ صحت کے شعبے میں پاکستان تقریباً 25 بلین اور بھارت 61 بلین روپے سالانہ خرچ کرتا ہے۔ بنیادی سہولیات پر خرچ ہونے والی یہ رقم دفاعی آلات پر خرچ ہونے والی رقم کا 20 فیصد بھی نہیں ہے۔ پاکستان میں 24 فیصد، جب کہ بھارت میں 28 فیصد عوام غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار نے پر مجبور ہے۔ اگر دونوں ممالک کے درمیان امن قائم ہوجائے تو جو پیسہ آج دفاعی نظام کو مضبوط و مستحکم بنانے کی خاطر خرچ کیا جارہا ہے وہی پیسہ کل عوام کی فلاح و بہبود کے لیے خرچ کیا جاسکتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ نوجوان نسل ملک و قوم کا قیمتی اثاثہ ہوتی ہے، وہ اپنا قیمتی وقت ملک کی ترقی و خوشحالی میں صرف کرتے ہیں۔ انہیں چاہئے کہ کسی تبدیلی کا انتظار کیے بغیر خود کو تبدیل کریں، اپنی چیزوں کو دیکھنے کا نظریہ و زاویہ تبدیل کریں، اپنے اندر برداشت پیدا کریں، اظہار رائے کا حق ہر ایک کو ہے اس لیے اگر آپ سامنے والے کی رائے سے اتفاق نہیں بھی کرتے تو اس کا احترام کریں، ایک دوسرے کے رسم و رواج، مذہب، لسانیت کا احترام کریں، ذاتی مفادات سے بڑھ کر انسانیت کی قدر کریں۔ آج کے نوجوان جو مستقبل کے معمار ہیں، پڑھے لکھے، باشعور ہیں۔ وہ دشمن کی چالاکیوں اور حکمت عملیوں کو خوب جانتے اور سمجھتے ہیں، اس لیے انہیں چاہیے وہ دشمن کے عزائم کو شکست دیں۔ یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب نوجوان اپنی سوچ کو تبدیل کرکے عملی طور پر امن کو فروغ دیں گے۔ انہیں چائیے کہ وہ مختلف پلیٹ فارمز پر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی بجائے امن کے پیغام کو اُجاگر کریں، ملک و قوم کے مسائل حل کرنے کی بات کریں۔ اگر مقابلہ کرنا ہی ہے تو تعلیم و کھیل کے میدان میں کریں۔ قوم کا معیار زندگی بہتر بنانے کے لیے مقابلہ کریں۔ قوم کو صحت مہیا کرنے لیے مقابلہ کریں، بے روزگاری کو شکست دیں اور یہ سب اسی وقت ممکن ہوگا جب نوجوان نہ صرف اندرونی بلکہ بیرونی فسادات کو ختم کرکے امن کی ایسی فضا قائم کریں جس سے شر پسند عناصر کے ناپاک عزائم ناکام ہوجائیں۔ دوسری جانب ارباب اختیار کو بھی چاہیے کہ وہ ملک کی ترقی کے لیے ایسی حکمت عملی تیار کریں جس سے نسل نو کو بھی فیصلہ سازی کے اختیارات حاصل ہوں وہ نہ صرف معاشرے کی سوچ تبدیل کریں بلکہ مختلف اقدامات کے ذریعے مثبت سوچ کو عملی جامہ بھی پہنا سکیں۔ حام ان کے فیصلوں کو سراہیں، تاکہ ان کی قائدانہ صلاحیتیں اُجاگر ہوسکیں۔ آخر کو مستقبل ان ہی کا ہے، انہیں ہی ملک و قوم کو چلانا ہے۔