• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
”رائٹرز فورم دبئی“ادبی، سماجی اور سیاسی حوالے سے ایک متحرک تنظیم ہے۔ اس کے روحِ رواں چوہدری امجد اقبال امجد بذات خود ایک انجمن ہیں۔ یوں تو ان کے تعارف کے خانے میں شاعر، آرگنائزر ، سیاسی رہنما اور مزاح نگار جیسے کئی سنہری حوالے موجود ہیں مگر ان کا سب سے بڑا حوالہ ان کی حبِ الوطنی ہے۔ پاکستان سے محبت اُن کی شخصیت کا خاصہ ہے اور یہی محبت انھیں سماجی اور رفاہی کاموں سے سیاست کی جانب لے آئی ہے۔ خوش قسمتی سے انھیں بابر عزیز بھٹی ، ملک یاسر امتیاز اعوان اور اشتیاق لطیف جیسے مخلص دوستوں کی رفاقت حاصل ہے جو ہر محاذ پر اُن کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔
دبئی سیاسی اور سماجی حوالے سے ایشیاء میں مرکزی حیثیت کا حامل ہے۔کالعدم سیاسی جماعتوں اور تحریکوں کے رہنماؤں اور اُن کے نظریات کے لئے بھی یہاں کی آزاد فضائیں بہت موافق ہیں۔ اس ملک کا حدود اربع تو مختصر ہے مگر اس کے دل میں ایسی وسعت ہے جو پوری دنیا کے لوگوں کو اپنے اندر بسانے کی اہلیت رکھتا ہے۔ یہ بے حد خوش آئند بات ہے کہ دبئی میں رہنے والے پاکستانی مختلف تنظیموں اور سیاسی جماعتوں سے منسلک ہونے کے باوجود ایک لڑی میں پروئے ہوئے ہیں۔وہ پہلے پاکستانی ہیں اور بعد میں کسی تنظیم یا تحریک کے کارکن، اس بات کا ثبوت رائٹرز فورم دبئی کا حالیہ مشاعرہ بھی ہے جس میں مسلم لیگ (ن) ، پاکستان پیپلز پارٹی ، تحریک انصاف اور عوامی نیشنل پارٹی کے سرکردہ لوگ شامل تھے۔ اس مشاعرے کی صدارت استاد شاعر جناب شفیق سلیمی نے کی، اس منفرد مشاعرے کا موضوع ”محبت“ تھالیکن یہاں محبت کا احساس صرف مرد اور عورت کے درمیان رومانی تعلق تک محدود نہیں تھا بلکہ اُسے کئی حوالوں سے بیان کیا گیا۔ جو رنگ سب سے گہرا تھا وہ اپنی مٹی سے غیر مشروط محبت کااظہار تھا۔ سامعین نے بھرپور داد کے ذریعے شعراء کی فکر سے مکمل اتفاق کیا۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دبئی میں رہنے والے پاکستانیوں کی ترجیحات میں سب سے پہلی ترجیح اُن کا اپنا وطن ہے۔ شاہ زمان کوثر، ڈاکٹر زبیر فاروق، ڈاکٹر ثروت زہرا، امجد اقبال امجد، مصدق لاکھانی، تسنیم عابدی، مقصود تبسم، سحرتاب رومانی اور دیگر شعرا کی شاعری وطن کے حالات، اس کے لئے کچھ کرنے کی خواہش اور جمہوری عمل کی بقاء کی ترجمان تھی۔
UAE میں کچھ روز قیام کے دوران چند سوالات صحرا کی تند ہواؤں میں اُڑتے ریت کے ذروں کی طرح میری فکر کی آنکھوں میں چبھتے رہے ۔ بہت سے مناظر مجھے اپنے ملک سے موازنہ کرنے پر اُکسا تے رہے اور یہ موازنہ میرے اندر عجیب طرح کا دُکھ بھرتا رہا۔مثلاً دبئی میں مختلف قومیتوں کے لوگ آباد ہیں اور اس حوالے سے مذہبی رسومات کیلئے الگ الگ عبادت گاہیں بھی موجود ہیں۔ جیسے کہ بر دبئی میں ایک ہی گلی میں مسجد ، مندر اور چرچ ہے جہاں یوں تو روز ہی خاصی آمدورفت نظر آتی ہے مگر جمعہ، اتوار اورمخصوص تہواروں کے موقع پر یہاں بہت بڑے بڑے مذہبی اجتماعات ہوتے ہیں۔مگر کبھی بھی کسی مذہبی مبلغ نے اپنے مذہب کی بڑائی بیان کرتے ہوئے دیگر مذاہب کی نفی کی نہ اُس کے مبلغین کے طرزِ فکرو عمل کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ اسی طرح مختلف مذاہب میں مختلف فرقہ جات کے ماننے والوں نے بھی کبھی کسی فرقے کے حوالے سے اختلافی پہلو کو اُجاگر نہیں کیا،ا ور نہ ہی وہاں آئے روز فتوے جاری ہوتے ہیں۔بلکہ یہ سب انسانی محبت کے پرچارک ہیں۔ یہاں کسی بھی قسم کی فکری اور مذہبی اجارہ داری قائم کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔جس کے باعث ماحول میں انسان دوستی کی فضا مہکتی ہے، دراصل یہ فضا اور اس قسم کا ماحول ہی انسانی حیات کی بقاء کا ضامن ہے جو انسانوں کو کسی بھی حوالے سے محدود کرنے کی بجائے ایک ایسے مقام کی طرف گامزن کرتا ہے جس کے باعث انسان اور کائنات کے درمیان تفہیم کے سفر کا آغاز ہوتا ہے۔ یہ تفہیم ہی انسان کو اُس زندگی سے آشنا کرتی ہے جو ذات پات، مذہب ، رنگ نسل اور قوم کی تفریق سے بالا تر کر کے ہر قسم کی تقسیم کو بے معنی گردانتی ہے میں اس فضا میں کھڑی یہ سوچ رہی تھی کہ یہ فضا میرے لئے اجنبی ہے یا میں اس کے لئے اجنبی ہوں؟ کیونکہ مجھے اپنے وطن میں ایسی فضا کبھی بھی میسر نہیں آئی جہاں میں صحیح معنوں میں آزادی کا سانس لے سکوں اور خود کو آزاد تصور کروں کیونکہ یہاں کی فضائیں انواع و اقسام کی تنگ نظری سے آلودہ ہو کر محبوس ہوچکی ہیں اس لئے فرد کی حیثیت سے کوئی بھی اس سے باہر نکلنے کی کوشش کرتا ہے تو ایک بند گلی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔
دبئی میں نئے سال کو خوش آمدید کہنے کے لئے منعقد ہونے والی تقریبات بھی کئی مثبت پیغامات کی حامل تھیں، بُرج خلفیہ پر تمام رنگ و نسل کے لوگ موجود تھے۔ دین والے بھی اور لادین بھی، روحانیت کے علمبردار بھی اور مادیت کے پرستار بھی ۔مگر وہ سب ایک نظارے کیلئے ایک ہی جگہ پر موجود تھے اور ایک جیسے طرزِ عمل کا اظہار کر رہے تھے۔دین والوں کو نہ ماننے والوں سے کوئی خطرہ تھا اور نہ ہی دوسرے فریق کو پہلے فریق سے کوئی شکوہ۔ سب اپنے اپنے نظریات اور افکار پر قائم رہتے ہوئے ایک ایسی فضا میں ڈھل چُکے تھے جہاں کسی بھی حوالے سے انسانی تقسیم کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔
دبئی میں عید اور کرسمس سمیت تمام مذہبی تہواروں کو یکساں اہمیت دی جاتی ہے۔ حکومت لوگوں کے مذہبی و سماجی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرتی مگر معاشرے میں امن و امان اور نظم و ضبط کے حوالے سے جو قوانین موجود ہیں اُن پر سختی سے عمل درآمد کروا کر لوگوں کی سلامتی کو یقینی بناتی ہے۔ جس کی وجہ سے دنیا بھر کے لوگ اس خطہٴ زمین کی طرف کشش محسوس کرتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق روزانہ ڈیڑھ لاکھ لوگ دبئی آتے جاتے ہیں۔ کاروبار اور سیاحت کی ترقی کے لئے حکومت نت نئی ترغیبات، تفریح اور دلچسپی کے سامان پیدا کرتی رہتی ہے۔ جیسے سالِ نو کی تقریبات کے موقع پر دنیا کی بلند ترین عمارت بُرجِ خلیفہ پر آتش بازی کا مظاہرہ کیا گیاجسے دیکھنے کیلئے پوری دنیا سے لوگ وہاں موجود تھے۔اس کے علاہ صحرا میں مصنوعی کیمپ لگاکر سیرو تفریح کا بھرپوراور اُچھوتا اہتمام کیا گیاتھا ۔یہ تمام باتیں دیکھ کر ایک بنیادی سوال میری فکر کے دروازے پہ دستک دیتا رہا کہ پاکستان جو جنوبی ایشاء کے مسلمانوں کی سماجی ، سیاسی اور معاشی آزادی کے حصول کیلئے قائم کیا گیا تھا اور اپنے قیام کے بعد اُس کے مقاصد کی ترجیحات میں تبدیلی کہاں سے آگئی جس کے باعث یہاں کے لوگ اور ان کے مسائل، فلاح اور تشخص پس منظر میں چلے گئے اور مخصوص نعروں کا سہارا لے کر کچھ نادیدہٴ قوتوں نے اس ملک کو اپنے مخصوص مقاصد کی تکمیل کیلئے ایک تجربہ گاہ بنا کر پوری دنیا میں رسوا کردیا۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ آج اس صورتِ حال سے نکلنے کی تدبیر کرنے کی بجائے کسی نئے تجربے کے فریب میںآ کر ایک بار پھراُسی دلدل کی طرف تو نہیں بڑھ رہے۔ جو ماضی میں ہمارا مقدر رہی ہے۔
تازہ ترین