• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وقفہ وقفہ سے میں بچو بھائی سے ملتا رہتا ہوں۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ میں ان سے لمبے عرصے تک نہ ملوں کیونکہ میں خود کو اندر سے خالی خالی محسوس کرنے لگتا ہوں۔ کچھ دیر ان کی صحبت میں گزارنے کے بعد میرے لئے بہت سے بند دروازے کھل جاتے ہیں۔ بند کواڑ کھلنے کے بعد ہم کھلی فضائوں میں سانس لے سکتے ہیں۔ روشنی کو اپنے باطن میں داخل ہوتے ہوئے محسوس کر سکتے ہیں۔ ایسے ہیں میرے بچو بھائی۔ بہت بوڑھے ہیں۔ اس دنیا میں آنے اور شعور سنبھالنے کے بعد پہلی مرتبہ جب میں ان سے ملا تھا تب بچو بھائی مجھے بہت بوڑھے لگے تھے۔ اب جبکہ میں خود بہت بوڑھا ہو چکا ہوں، بچو بھائی اب بھی اتنے ہی بوڑھے ہیں جتنے بوڑھے وہ مجھے پہلی بار لگے تھے۔ اپنے چھوٹے سے ذہن سے میں اس ماجرے کو سمجھنے سے قاصر ہوں۔ میں بس اتنا جانتا ہوں کہ کچھ دنوں تک میں ان کو نہ دیکھوں تو خود کو بجھا بجھا سا محسوس کرنے لگتا ہوں۔ میرے ناقص اندازے کے مطابق بچو بھائی اتنے ہی قدیم ہیں جتنا کہ شہر کراچی اور کراچی اتنا ہی قدیم ہے جتنا سمندر پرانا ہے۔ آپ سمندر کا کھارا پانی پی کر زندہ نہیں رہ سکتے۔ آپ کھارے پانی سے بیج نہیں بو سکتے۔ آپ فصل اگا ہی نہیں سکتے۔ آپ درخت لگا نہیں سکتے۔ آپ کھارے پانی سے نہا نہیں سکتے۔ آپ کھارے پانی سے کھانا پکا نہیں سکتے۔ تب کراچی کا نام نہ جانے کیا تھا۔ کلاچی اور کولاچی بہت بعد کے بلکہ حالیہ تاریخ سے ملنے والے کراچی کےقدیم نام ہیں۔ تب اسی جگہ میٹھے پانی کے چشمے ہوتے تھے۔ میٹھے پانی کے چشموں کے گرد کچھ کنبے رہتے تھے۔ سمندر میں دور تک جا کر مچھلیاں پکڑتے تھے۔ یہی ان کا اوڑھنا بچھونا تھا۔ یہی ان کا روزگار تھا۔ ان کنبوں میں ایک کنبہ بچو بھائی کا کنبہ تھا۔ بچو بھائی نے نجانے کتنے زلزلے دیکھے ہیں۔ نجانے کتنی مرتبہ سمندر کو بپھرتے اور سینکڑوں فٹ بلند لہروں کے ساتھ امنڈتے ہوئے دیکھا ہے۔ اس قیامتِ صغریٰ کو آج کل سونامی کہتے ہیں۔ زمین کا یہ حصہ جس پر شہر کراچی بنا ہوا ہے، خطہ ارض کے زلزلوں والی پٹی پر بنا ہوا ہے۔

تاریخ کے پنے جب پلٹنا شروع ہوتے ہیں تب پلٹتے ہی جاتے ہیں۔ بچو بھائی تاریخ کی تمہید کا ورق ہیں۔ ہماری زمین پر یونانیوں سے لیکر مغلوں تک طر ح طرح کی قومیتوں کے لوگ آئے مگر کسی میں بھی انگریز جیسی ذہانت اور دوررس نگاہ نہیں تھی۔ انگریز نے کیماڑی کو دیکھا اور بندرگاہ بنانے کا فیصلہ کرلیا۔ بندرگاہ بنتی تو سمندر کے کنارے ہے مگربندرگاہ کی تعمیر سمندر کے کھارے پانی سے نہیں ہوتی۔ دریائے سندھ کراچی سے پینتیس چالیس میل پہلے کیٹی بندر کے مقام سے سمندر میں شامل ہو جاتا تھا اور اب تک وہیں سے سمندر میں داخل ہوتا ہے۔ انگریز نے ڈملوٹی اور گھارو کے قریب ٹیوب ویل لگائے اور بڑے بڑے پائپوں کے ذریعے کیماڑی تک پانی فراوانی سے پہنچا دیا اور پھر کیماڑی کی بندرگاہ سے شروع ہوا کراچی کا شہر بننا۔ یہ تمام باتیں بچو بھائی نے چشم دید گواہ کی طرح مجھےبتائی ہیں۔

بچو بھائی نے کراچی کا عروج دیکھا ہے۔ بچو بھائی نے کراچی کا زوال دیکھا ہے۔ وہ اس طرح کہ بچو بھائی کا شہر کراچی کیماڑی سے شروع ہوتا ہے اور ٹکری پر ختم ہوتا ہے۔ ٹکری کا مطلب ہے چھوٹی سی پہاڑی۔ اس پہاڑی پر قائداعظم محمد علی جناح کا مقبرا بنا ہوا ہے۔ یہ ہے انیس سو سینتالیس کا شہر کراچی۔ یہی اصل اوریجنل کراچی ہے۔ باقی سب کچھ کراچی کی توسیع ہے۔ ناظم آباد سے لے کر ڈی ایچ اے تک کراچی کی توسیع ہے لیکن کراچی نہیں ہے۔ کیماڑی، بندر روڈ، برنس روڈ، فریئر روڈ، صدر، ایلفنسٹن اسٹریٹ، وکٹوریہ روڈ، پریڈی اسٹریٹ، سولجر بازار، عامل کالونی، جمشید روڈ، گاڑی کھاتہ، لیاری، چاکیواڑہ، لی مارکیٹ، بولٹن مارکیٹ، کھارادر، میٹھادر، جوڑیا بازار اصلی اوریجنل کراچی ہیں۔ بھائی لوگوں نے روڈ راستوں گلی کوچوں، باغ باغیچوں کے نام بدل بدل کر اصلی شہر کراچی کا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔ اصلی کراچی سے اس کی شناخت چھین لی ہے۔ بچو بھائی جیسے گنتی کے لوگ اب اصلی کراچی کی شناخت ہیں، پہچان ہیں۔ وہ بھی اب جہانِ غیب کی طرف جانے کیلئے تیار بیٹھے ہیں۔

پچھلے دنوں بچو بھائی نے اسی حوالے سے جو باتیں کی تھیں آپ سے شیئر کرنا چاہتا ہوں، بچو بھائی نے کہا:روڈ راستوں، باغیچوں، عمارتوں کے نام بدلنے جیسی حرکت کو تاریخ کے اصولوں کی نفی اور تاریخ پر حملہ سمجھا جاتا ہے۔ تاریخ کومسخ کرنے کا گھنائونا حق صرف وحشی فاتح قومیں رکھتی ہیں جو مفتوح قوم کو اپنے ورثے، اپنی پہچان سے محروم کردیتی ہیں۔ ان کے ماضی کو دھندلکوں میں دھکیل دیتی ہیں۔ کراچی کو تو کسی نے فتح نہیں کیا تھا! انگریز کے آنے سے پہلے شہر کراچی کا نام ونشان نہیں تھا۔ یہاں گنتی کے کنبوں پر مشتمل مچھیروں اور ماہی گیروں کی بستی تھی۔ جس کا نام کولاچی یا کلاچی تھا۔ کولاچی یا کلاچی کو شہر کراچی انگریز نے بنایا تھا۔ اس کام میں پارسیوں، ہندوئوں، اینگلو انڈین اور مالدار مسلمان گجراتیوں اور میمنوں نے ان کی بھرپور مدد کی تھی۔ بننے والے روڈ راستے باغ باغیچے، پارک، کھیلوں کے میدان عمارتیں ان کے نا م سے منسوب کی گئیں جنہوں نے کولاچی یا کلاچی کو جدید شہر کراچی منی یعنی چھوٹا سا لندن بنانے میں بھرپور مدد کی تھی۔

بچو بھائی کی باتیں سننے کے بعد میں سوچ رہا ہوں کہ میری زندگی کے ان لمحوں کا کیا ہو گا جو صدر کراچی کی ایلفنسٹن اسٹریٹ کی خاک چھانتے ہوئے گزر گئے ہیں۔ بھائی لوگوں نے ایلفنسٹن اسٹریٹ کا نام بدل کر زیب النسااسٹریٹ رکھا ہے۔ کون تھی زیب النسا؟ پرائی محنتوں کو ہڑپ کرنا ہماری پرانی عادت ہے ورنہ کراچی کے سب سے مصروف ترین بزنس اور کاروباری روڈ میکلوڈ روڈ کو چند ماہ وزیر رہنے والے شخص آئی آئی چند ریگر کے نام سے کبھی منسوب نہ کیا جاتا۔

تازہ ترین