جون2017ء میں محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد سے سعودی عرب ایک بڑی تبدیلی کے عمل سے گزر رہا ہے۔ خواتین کو بااختیار بنانا، تبدیلی کے اس عمل کا ایک بڑا حصہ ہے۔ سعودی خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت دینا، کاروبار کرنے کے لیے اپنے سرپرست سے اجازت نامہ میں استثنیٰ دینا، اسٹیڈیم جاکر کھیلوں کے مقابلے براہِ راست دیکھنا، گھر سے باہر جسمانی ورزش کی اجازت دینا اور فوج میں شمولیت کا اختیار دینا، یہ سب وہ اقدامات ہیں جو حالیہ عرصہ کے دوران سعودی خواتین کو بااختیار بنانے کیلئے لیے گئے ہیں۔
سعودی خواتین ہر شعبہ زندگی میں بتدریج آگے بڑھ رہی ہیں، جس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ 2013ء سے اب تک سعودی عرب میں ملازمت پیشہ اور کاروباری خواتین کی تعداد میں130فیصد اضافہ ہوچکا ہے۔ اس وقت وہاں ملازمت پیشہ یا کاروباری خواتین کی تعداد23فی صد ہے، جسے سعودی عرب کے پلان 2030ء کے تحت آنے والے برسوں میں30فیصد تک بڑھایا جائے گا۔ صرف یہی نہیں، سعودی عرب کے معاشی تنوع کے پروگرام میں سعودی خواتین کو بنیادی اہمیت دی گئی ہے۔
زندگی کے دیگر شعبہ جات کی طرح مالیاتی شعبہ میں بھی سعودی خواتین آگے بڑھ رہی ہیں، جس کی ایک مثال سارہ السحیمی ہیں۔
38سالہ السحیمی اپنے کیریئر میں ابھی تک تین بار تاریخ رقم کرچکی ہیں۔ سعودی عرب کی پہلی خاتون ہیڈ آف ایسیٹ مینجمنٹ، کسی سعودی بینک کی پہلی خاتون سی ای او اور اب سعودی اسٹاک ایکسچینج کی پہلی خاتون سربراہ۔
سارہ السحیمی، فروری 2017ء سے سعودی اسٹاک ایکسچینج (تداول) کی چیئرپرسن ہیں۔ تداول، مشرقِ وسطیٰ کی سب سے بڑی اسٹاک مارکیٹ ہے اور سارہ السحیمی پہلی خاتون ہیں، جو اس عہدے پر فائز ہوئی ہیں۔ انہیں شہزادہ محمد بن سلمان کے وژن 2030ء کے تحت سعودی کیپٹل مارکیٹس کو عالمی مالیاتی نظام کے ساتھ جوڑنے کا ہدف دیا گیا ہے۔
السحیمی، مارچ2014ء سے سعودی عرب کے سب سے بڑے بینک، نیشنل کمرشل بینک(این سی بی کیپٹل) کی چیف ایگزیکٹو آفیسر اور بورڈ ڈائریکٹر رہی ہیں اور کسی سعودی بینک کی سربراہی کرنے والی وہ پہلی سعودی خاتون ہیں۔ السحیمی نے این سی بی کیپٹل کی سربراہی اب بھی اپنے پاس رکھی ہوئی ہے۔ السحیمی کی سربراہی میں این سی بی کیپٹل کے اثاثہ جات کی مالیت دسمبر 2017ء تک دُگنی ہوکر 34ارب ڈالر تک جا پہنچی ہے جبکہ بروکریج اور کارپوریٹ فنانس میں بھی اس کا مارکیٹ شیئر بڑھا ہے۔
السحیمی نے اپنی بیچلرز کی ڈگری کنگ سعود یونیورسٹی، ریاض سے اعلیٰ ترین اعزاز کے ساتھ حاصل کی، جس کے بعد2015ء میں انہوں نے ہارورڈ بزنس اسکول، بوسٹن سے پبلک ایڈمنسٹریشن پروگرام مکمل کیا۔
موجودہ عہدے پر ترقی پانے سے پہلے وہ2013ء سے 2015ء کے درمیان کیپٹل مارکیٹ اتھارٹی کے بورڈ کی ایڈوائزری کمیٹی کی نائب چیئرپرسن کے طور پر خدمات انجام دے رہی تھیں۔
سارہ السحیمی2007ء سے2011ء کے دوران سعودی خود مختار سرمایہ کاری ادارے جدویٰ انویسٹمنٹ کی مینجمنٹ کمیٹی کی رکن رہیں اوروہاں بطور چیف انویسٹمنٹ آفیسر اس ادارے کی ایسیٹ مینجمنٹ اور ویلتھ مینجمنٹ بزنس کی سربراہی کی۔ انہوں نے اپنے انویسٹنگ کیریئر کا آغاز ایک بینک کے ایسیٹ مینجمنٹ ڈویژن سے کیا، ترقی پاکر وہاں پورٹ فولیو منیجر بنیں، جہاں 12ارب ڈالر مالیت کے حصص کا پورٹ فولیو ان کے زیرِ انتظام تھا۔
2017ء میں بلوم برگ بزنس ویک نے سارہ السحیمی کو 50 people to watchکی فہرست میں شامل کیا۔ بلوم برگ نے لکھا، ’سارہ سعودی اسٹاک ایکسچینج کی پہلی خاتون سربراہ ہیں، توقع ہے کہ ملک کی ریاستی آئل کمپنی کے حصص کی اولین عوامی فروخت (آئی پی او) کے بعد یہ دنیا کی سب سے پُرکشش مارکیٹ بن جائے گی‘۔ سعودی حکومت کا کہنا ہے کہ آرامکو کے حصص کی فروخت، دنیا کا سب سے بڑا آئی پی او ہوگا۔
ریاض میں ہونے والے فیوچر انویسٹمنٹ اِنیشیئیٹو (FII)سے خطاب کرتے ہوئے، سارہ السحیمی کا کہنا تھا، ’ہم دنیا کے قریب تر ہونا چاہتے ہیں۔ ہم اپنی کمپنیوں میں کارپوریٹ گورننس کے معیارات بلند سے بلند تر کرنے کا عمل جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ ہم تمام سرمایہ کاروں کو خوش آمدید کہتے ہیں کہ وہ آئیں اور ہم سے اور ہمارے ریگولیٹرز سے بات چیت کریں‘۔
حالیہ عرصے میں سعودی عرب کے مالیاتی شعبہ میں ایک اور خاتون کی بھی اعلیٰ عہدے پر تقرری ہوئی ہے اور ان کا نام رانیہ محمود ہے، جنھیں ملک کے ایک بڑے بینک کا چیف ایگزیکٹو مقرر کیا گیا ہے۔
ان ہائی پروفائل عہدوں پر خواتین کی تقرری کے بعد، اُمید ہوچلی ہے کہ سُست روی سے ہی سہی لیکن سعودیہ عرب میں صنفی تفریق کے خاتمے کی طرف سفر کا آغاز ضرور ہوچکا ہے۔
سعودی خواتین کو سارہ السحیمی کی صورت میں امید کی کرن نظر آتی ہے کہ اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر مستقبل میں بھی وہ بڑے عہدوں تک پہنچ سکتی ہیں۔ ساتھ ہی سعودی حکومت سارہ السحیمی کی صورت میں اپنی بدلتی پالیسیوں کو ’ریئل ٹائم‘ میں جانچ رہی ہے۔ ’سعودی روایات کے ساتھ جُڑے نوجوان اور باصلاحیت مرد اور خواتین کو اہم ذمہ داریاں سونپیں اور پھر دیکھیں کہ وہ کیا کرسکتے ہیں‘، یہ ہے سعودی حکومت کی نئی پالیسی، جس کے تحت سارہ السحیمی، رانیہ محمود اور دیگر کئی خواتین کو اہم عہدوں پر فائز کیا گیا ہے اوراس پالیسی کے اب تک کے نتائج یقیناً حوصلہ افزا ہیں۔