• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

22-A,Bکے اختیارات منتقل کرنیکا مقصد عدالتوں پر بوجھ کم کرنا ہے، رپورٹ

کراچی (محمد منصف، اسٹاف رپورٹر) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعیدخان کھوسہ کی صدارت میں این جے پی ایم سی (نیشنل جوڈیشل پالیسی میکنگ کمیٹی )نے 22-A,B کے اختیارات منتقل کرنے کا بنیادی مقصد عدالتوں سے 6 لاکھ 50 ہزار سے زائد مقدمات کا اضافی بوجھ کم کرنا ہے، نیشنل جوڈیشل پالیسی کے مطابق ضابطہ فوجداری کی دفعہ 22-Aاور 22-B کی درخواستوں پر کارروائی کیلئے پولیس کو دیئے گئے اختیارات کے بہتر نتائج پولیس کی نیک نیتی اور بروقت کارروائی سے ہی ممکن ہونگے کیونکہ مذکورہ درخواستوں کی جانچ پڑتال کیلئے پولیس کےپاس مدت معیاد کیاہوگی اس حوالے سےابہام موجود ہےکیونکہ نیشنل جوڈیشل پالیسی کمیٹی کے اجلاس کی تفصیلات تاحال سامنے نہیں آسکی ہیں تاہم پولیس کی غیر ضروری تاخیرکے نتیجے میں آئین کے آرٹیکل 10-A کے تحت درخواست گزار شفاف ٹرائل کےحق سے بھی محروم ہوسکتے ہیں۔جبکہ پاکستان بار کونسل کاکہنا ہے کہ آرٹیکل 10_A کے تحت حاصل منصفانہ عدالتی کارروائی کا حق متاثر ہوگا۔سندھ بار کونسل کا کہنا ہے کہ ساڑھے 6 لاکھ مقدمات کم ہوئے ہیں تو ججوں کی تعداد بھی کم کردی جائے۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ بلڈنگ میں 11 مارچ 2019 کو نیشنل جوڈیشل پالیسی میکنگ کمیٹی کے چیئرمین چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید خان کھوسہ کی زیر صدارت اجلاس منعقد ہواتھاجس میں چاروں صوبوں کی ہائی کورٹس کے چیف جسٹس سمیت شریعت کورٹ کے چیف جسٹس اور وفاقی سیکرٹری قانون بھی شریک ہوئے تھے جہاں سیکرٹری قانون نے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایاکہ پاکستان بھر کی ماتحت عدالتوں میں جنوری 2017 سے فروری 2019 تک 6 لاکھ 14 ہزار 307 مقدمات صرف ضابطہ فوجداری کی دفعہ 22-A کےتحت متعلقہ ایس ایچ او کی جانب سے مقدمات درج نہ کرنے کیخلاف درخواستیںدائر ہوئیں اور 47 ہزار سے زائد مذکورہ چاروں ہائی کورٹس میں بھی دائر ہوئیںجس پر کمیٹی نے منظوری دی کہ مذکورہ درخواستیں براہ راست سیشن ججوں کے پاس دائر کرنے کے بجائے پہلے متعلقہ ایس پی سے رجوع کیا جائے اور ایس پی آفس میں اس مقصد کیلئے علیحدہ سے نیا فورم یا شکایتی سیل قائم کیا جائے اور جانچ پڑتال کے بعد اگر درخواست گزار مطمئن نہ ہوں تو دوسرے مرحلے میں سیشن عدالتوں سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔ اس منظوری کےفوری بعد پاکستان بار کونسل اور وکلا برادری کا ردعمل سامنے آیا جس میں اس فیصلے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے آئین کیخلاف قراردیااور کہا گیاکہ آئین کے آرٹیکل 10-A کے تحت منصفانہ عدالتی کارروائی ہر شہری کا حق ہے لیکن اس فیصلے سے شہری اپنے آئینی حق سے محروم ہوسکتے ہیں۔ پاکستان بارکونسل کے وائس چیئرمین سید امجد شاہ نےکہاہےکہ مذکورہ فیصلے سےجانچ پڑتال کیلئے مقررہ مدت سامنے نہیں آسکی ہےاور پولیس روایتی انداز میں جانچ پڑتال یا تحقیق کرکے معاملہ غیر ضروری تاخیر کا شکار کریگی جسکے نتیجے میں مزید مسائل پیدا ہونگے۔ انہوں نےکہاکہ اختیارات سیشن ججوں کو دیئے ہی اسلئے گئے تھے کہ پولیس شہریوں کی درخواستوں پر مقدمات درج نہیں کرتی تھی۔ سندھ بارکورنسل کے رکن حیدرامام رضوی نے کہاہےکہ اگر ساڑھے 6 لاکھ مقدمات کم ہوئے ہیں تو پھر ججوں کی تعداد بھی کم کردی جائے کیونکہ بغیر مقدمات کے جج صاحبان کیا عدالتی کارروائی کرینگے۔دوسری جانب بعض حلقوں کا کہنا ہےکہ اگر پولیس افسر ایس پی نیک نیتی سے جانچ پڑتال کرکے بروقت کارروائی عمل میںلائے تو نتائج عوام کے حق میں بہتر آسکتے بصورت دیگر وکلا برادری کا موقف سچ ثابت ہوسکتا ہے جو اس وقت اپنی آمدن میں کمی پر اس اقدام کی مذمت کررہے ہیں۔گزشتہ روز وفاقی سیکرٹری قانون ڈاکٹر محمد رحیم اعوان نے ایک وضاحتی بیان میں کہاکہ اس حوالے سے حقائق کو غلط انداز میں بیان کیاجارہاہے اور وکلا برادری سے اپیل کی کہ نیشنل جوڈیشل پالیسی کی مذکورہ منظوری کی غلط تشریح نہ کی جائے۔واضح رہےکہ ضابطہ فوجدراری کی دفعہ 22-A,B 1898 کا قانون ہے جسکے تحت کارروائی پہلے جسٹس آف پیس کرتے تھے جو براہ راست سندھ حکومت کے ماتحت ہوتے تھے بعدازاں بہترنتائج کیلئے سیشن ججوں کو یہ اضافی اختیارات دئیے گئے ان اختیارات کے مطابق سیشن جج جسٹس آف پیس کے فرائض بھی سرانجام دے سکتے تھے جو اپنے مخصوص علاقے میں کسی بھی جرم کی انکوائری متعلقہ مجسٹریٹ کے زریعے کراسکتے تھے اور قابل دخل اندازی قانون کی صورت میں اس پر مقدمہ درج کرنے کے احکامات بھی دے سکتے تھے۔
تازہ ترین