• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قائدین کو جب بھی آئینہ دکھاؤ گے برہم ہوں گے، دکھانے والے پر تھوکیں گے۔جاہلوں کو میں منہ نہیں لگاتا۔ حکم ہے جب واسطہ پڑے ”سلام “ کہہ دو۔ ضمیر کی چھابڑی لگا کر دو وقت کی روٹی کمانے والے قابلِ صدرحم۔ ان جیسوں کے دلائل صرف قائدین کی تالیف ِقلب اوراپنی قدرومنزلت میں اضافے تک محدود۔ میں نے چند سطروں میں اپنے ذاتی لین دین کا جواب دیا، پسند نہ آیا۔ قومی لیٹروں سے صرف ِنظر برقرار، بے شرمی اور ڈھٹائی ایسی کہ قوم کو” تھوک“ لگانے والوں نے ایک سطر کا جواب بھی نہیں دیا۔عالمِ ہوت اور خاموشی ۔جواب دیں گے بھی کیسے۔ حضور قومی دولت کا حساب مانگا ہے، اقتدار سے پہلے ذاتی لین دین کا نہیں۔ سلائی مشین کی” دو نمبر ڈائی “ میں قائدین کے بزرگوں کے جیل جا نے کا بتایا ہے نہ زور والے رسے کے ذریعے براستہ چمنی فونڈری کے دفتر داخل ہو کر کمپنی کا ریکارڈ غائب کرنے کی بات کی۔ قومی وسائل کے ضیاع پر محاسبہ کی بات کریں تو تادیبی کاروائیاں اور دشنام طرازی کا سامنا کرنا پڑتاہے۔
پاکستان کو گھن کی طرح چاٹنے والوں کے ہرکارے وفاداری کواصل ایمان سمجھ بیٹھے خدا اور رسول بھول بیٹھے۔ قائدین کھربوں روپے ڈکارچکے ان کا قبروں تک پیچھا کرنا ضروری ہے ۔حساب بھی دینا ہوگا اور جواب بھی۔
سب سے پہلے قائدین کو ایسے ”دہاڑی دار“ ہی چھوڑ کر جاتے ہیں۔میاں محمد نواز شریف کی یہ شکایت شاید مناسب تھی کہ جب میں نے قدم بڑھائے تو میں اکیلا تھا پیچھے بندہ نہ بندے کی ذات ۔لیکن جناب آپ نے قدم بڑھائے کس سمت میں اور مقصد کیا تھا؟حضور ”سرور پیلس“ کی منزل پانے والے اور جنرل مشرف کے ساتھ معاہدہ کرنے والے بڑی توقعات نہیں رکھتے۔قائدین حسرت سے پوچھتے ہیں” قدم بڑھاؤ “کے فلک شگاف نعرے لگانے والے کہاں غائب ہوگئے۔قدم تو آپ ہی نے غلط سمت میں اٹھائے تھے بھلا سرور پیلس میں غریب عوام کا کیا کام۔یاس سے سوال پوچھتے ہیں عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر کہاں گیا؟جناب والا وہ تو چودھویں رات کے لیے تھا ادھر چاند ماند ہو ا ادھر سمندر اتر گیا۔نہ اترنے والا ارتعاش ”سونامی“ ہوتا ہے چودھویں رات کا ٹھاٹھیں مارتا ”سمندر“ عارضی عمل ہے۔ ماضی مالی بدعنوانیوں کے الزامات کی زد میں اور خواہش ہے کہ قوم چھٹی بار نظرِ کرم کرے تاکہ ملک کو سدھار سکیں۔
لکھاریوں ، حواریوں کا رزق تو خوشامد ، جھوٹ اور اختراعات سے جوڑ دیا گیا ہے۔ ایسے ہنرمند قائدین کو پتا نہیں چلنے دیتے کہ” وہ ننگ دھڑنگ ہیں“ اور عوام الناس کا دوبارہ سامنا کرنے سے پہلے ان کوپوشاک پہننے کی ضرورت ہے۔ قائدین کی مدح سرائی، مخالفین کی کردار کشی اور عوام الناس کی فہم وفراست کی توہین مرغوب مشغلہ ہے۔ سبق نہیں سیکھنا۔آج قائدین کے بھائی حسنی مبارک پر کیا بیت رہی ہے؟ کہاں گئے وزیر مشیر، تعلقات ِ عامہ کے افسران، سیکرٹری اطلاعات ، لکھاری، حواری ۔ جیل اکیلے ہی مقدر بنتی ہے۔ حضور یہ اقتدار کے ساتھی تھے ”مرواؤ پروگرام“ کے خالق مصیبت میں نئی پناہ گاہ کی تلاش میں۔
طاہر القادری صاحب کو بددیانت ثابت کرکے قائدین کی قومی کرپشن کی توثیق نہیں ہو سکتی ۔عمران کی سابقہ بیوی پر ٹائیلز سمگل کرنے کا الزام ، عمران کے اسلام آباد گھر کی زمین کی خرید میں پہلے کیڑے ڈال کر نکالنے کی کوشش، شوکت خانم ہسپتال پر منی لانڈرنگ اور مالی بددیانتی ایسے الزامات ذلت اور رسوائی کا ہی سبب بن پائیں گے۔قائدین جودیانت کے چراغ کی ہلکی سی لو سے بھی محروم مقابلہ عمران خان سے جو دیانت اور امانت کا نصف النہار۔ ”کہاں کرپشن کے پہاڑ اور کہاں دیانت وامانت کا راجہ “۔
وطن عزیز حالت ِنزاع میں۔ ملک کی حالت بدتر اور پنجاب کی بدترین۔اقتصاد زبوں حال ، بجلی، پانی ، گیس ناپید۔ لسانی و مذہبی تنازعے اور دہشت گردی شعلے برسا رہی ہے۔ کراچی، بلوچستان اور قبائلی علاقے آتش فشاں پہاڑ کے دہانے پرجو کسی وقت بھی لاوا اگلنے کو تیار۔کیسی تکلیف کا مقام کہ سیاسی جماعتوں کے سربراہ دنیا کے امیر ترین لوگوں میں اور عوام الناس غریب ترین لوگوں میں۔
پاکستان کا وجودمملکت اسلام کی نشاة ثانیہ کے ظہور کا اعلان ہی تو تھا۔ میرا وجدان کہتا ہے کہ ربّ ِ ذو الجلال کی طرف سے علامہ اقبال کی تڑپ اور کرب سے بھری دعاؤں کا مقبول جو اب۔ ہماری نئی نسل کو اس بات کا قطعاًادراک نہیں کہ قائداعظم 15سال تک مہلک بیماری کو اپنے سینے میں دفن کر کے مسلما نا نِ ہند کے لئے جان کی بازی فقط اس لئے نہیں ہاری کہ تاریخ کا دھارا بدلنا تھا اور مملکت خدا داد پاکستان کا منفردجغرافیہ بنانا تھا۔ تاریخ تو رقم ہو گئی ۔جغرافیہ بن گیا اور جغرافیہ ایسا جو اقوامِ عالم کی قیادت کے لیے فٹ، ساڑھے تین بلین انسانوں کے درمیان گھرا ہوا۔ وائے بدنصیبی آج پاکستان کا وجود اور جغرافیہ وجہ نزاع بن چکا۔ جناح کو کیا معلو م ہو گا بعد میں آنے والے سیاستدان اس عظیم مقصد کو اپنی تجارت اور مفادات کے تابع بنا دیں گے اور عالمی طاقتوں کا طفیلی بنا دیں گے؟ایک علامہ طاہرالقا دری کیا نازل ہوئے سلیقہ ، شعور اور عقل و دانش خوداحتسابی سے فارغ ”مین میخ“ نکالنے میں مصروف ہو گئے بلکہ لٹھ لے کر پیچھے پڑ گئے ۔ قادری صاحب کے ساتھ بھی وہی سلوک تجویز کیاہے جو عمران خان اور دوسرے آئینہ دکھا نے والے پہلے بھگت رہے ہیں۔ لکھاری حواری اورسیاسی انتہا پسند بغض اور عناد میں یکسو اور قادری صاحب کا یومِ حساب شروع۔جملہ معترضہ قادری صاحب کی اپنی ساکھ متقاضی ہے کہ کچھ تشنہ طلب سوالات پر اطمینان دلادیں ۔لیکن اس مطالبے کو کیوں زدوکوب کیا جا رہا ہے کہ” مشکوک اور بد نام کرداروں کو الیکشن میں حصہ نہ لینے دیا جائے اوراربوں ، کھربوں کی اندرونِ بیرونِ ملک جائیداد رکھنے والوں کو بلکہ تحقیق انتخابی عمل کا حصہ نہ بننے دیا جائے“۔
عزت مآب چیف جسٹس صاحب اور قابلِ احترام چیف الیکشن کمشنر صاحب آپ کی یہ بات مقدس کہ انتخابی عمل میں رکاوٹ ناقابل برداشت لیکن انتخابی عمل کوخائن اور بددیانت لوگوں کے رحم و کرم پر چھوڑنا کہاں کی حکمت ہے؟۔عزت مآب اس بات کا حل بھی دیں کہ حرام کے کسب سے قوم کو لوٹ کر کھربوں روپے سے سیاسی مہمات چلانے والے اور فاؤل پلے کے مرتکب سیاستدان کیسے فیئر پلے کا حصہ بن سکتے؟ اگر ایسے قائدین کے کردار کو قانون ، اخلاق اور آئین کی روح کے مطابق نہ پرکھا گیا تو ایسے انتخابی عمل اور ایسی جمہوریت پر ردعمل بھیانک ہو سکتا ہے۔
طاہر القادری کی آواز نے قوم کو جھنجھوڑ دیا ہے ۔ کیا طاہر القادری پاکستان کا انا ہزارے بن پائے گا؟ہندوستان میں جہاں پاکستان کے مقابلے میں کرپشن آٹے میں نمک برابر اور نا اہلی ناممکن ۔وہاں” انا ہزارے “ کے پیچھے ہندوستانی فقط اس لئے یکسو کہ وہ انتخابی عمل کو بائی پاس کرکے نا اہلی اور کر پشن کے ناسورکو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے وقف ہو چکے ۔ کیا علامہ صاحب اپنی ذات کی نفی کر کے اور اپنے آپ کو انتخابی عمل میں الجھائے بغیر ”نا اہلی اور کرپشن کے باری کے بخار “میں مبتلا سیاستدانوں کی بیخ کنی کر پائیں گے؟ یا کسی خفیہ ایجنڈے کی تکمیل میں پاکستان کے اوپر مزید تکلیف و کرب کے نشتر چلیں گے ۔
میرا پاکستان حالت ِنزاع میں ہے ۔ عالمی طاقتیں شطرنج کی بساط بچھا چکی ۔ ہمارے قائدین فقط مہرے ہیں۔ شاطر کے ارادے مہروں کی چال کے تعین میں مصروف ۔ افغانستان سے امریکی انخلا کا نزلہ بھی پاکستان پر ، نیوکلیئر پروگرام کی موجودگی بھی شاطر کی فکر ۔ مضبوط و مربوط پاک فوج کا آنکھ میں کھٹکنا بھی ضروری ۔پاکستان میں انارکی اور خانہ جنگی کے لیے راہ ہموار ہو چکی ۔ پاک فوج کو کمزور کرنا عالمی طاقتوں کی پہلی ترجیح ۔ فوج کمزور ہو گی تو ملک کمزور ہو گا۔ نیٹو کنٹینرز اور دوسرے ذرائع سے گولہ بارود کراچی ، بلوچستان پہنچا دیا گیا ہے۔ اب فقط حکمرانوں کا تعاون چاہیے حکمران ”کانے اوربے بس“ ہیں چنانچہ تعاون پر مجبور۔ ایسے لوگوں سے ہی امریکہ بہادر اپنے ایجنڈے کی تکمیل کر پائے گا۔ایسے قائدین کی بقا ء قوم کی آزمائش۔کرپشن نااہلی اور گماشتوں کی گرفت انتخاب سے پہلے بہت ضروری ہے ۔
اگلے چند ہفتوں میں اگر ڈاکٹر طاہر القا دری نے قوم کو یہ باور کرا دیا کہ وہ خلوصِ دل سے قوم کو کرپٹ مافیا سے نجات دلانے کے لئے میدانِ عمل میں آئے ہیں ۔ اس کار خیر کو سر انجام دینے کے لئے علامہ صاحب کی بے غرض لگن ہی ان کے ایجنڈے کو پایہٴ تکمیل تک پہنچا سکتی ہے ۔جہاں تحریک انصاف کاانتخابی عمل میں حصہ لے کر کرپشن کو تہہ تیغ کرنا قومی مفاد میں ہے ۔وہاں طاہر ا لقادری کو انا ہزارے کا رول ادا کرنا وقت کی اشد ضرورت ہے ۔ پاکستان میں اپنی نوعیت کا یہ پہلا تجربہ کہ سیاسی مفادات کے بغیر کرپٹ عناصر کا گھیراؤ کیا جائے ۔ ان کو ڈھول بجا کر بھاگنے پر مجبور کیا جائے ۔ان کے کرتوتوں اور اعمال کے بینرز ، پوسٹرز ، ٹی وی، اخبارات پر تشہیر کا طوفان کھڑا کر کے ہی محاسبہ ہو سکتا ہے۔
تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کو تحفظات بالائے طاق رکھ کر 14 جنوری اسلام آباد مارچ کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔محترم قادری صاحب ملک کو اگر کرپشن اور نااہلی سے چھٹکارے کے لیے ملک کے طول وعرض میں کثیر الجماعتی مہم منظم کریں ان کا اپنا نظم بھی گاؤں گاؤں موٴثر موجود ہے اور اگروہ یہ اعلان کر دیں کہ کرپشن اور لوٹ مار سے جمع سرمایہ والے انتخابی مہم کے لیے اس شہر داخل نہیں ہو سکتے جب تک اپنے اوپر ہمالیہ جیسے الزامات کا جواب نہ دیں اس مقصد کے لیے قوم آپ کے ہاتھ میں ہاتھ دینے کے لیے تیار ہے۔
کیا کوئی انا ہزارے ہمارے ہاں سیاست سے بلند ہو کر بدعنوانوں کی گرفت کر پائے گا؟قوم منتظر ہے!
تازہ ترین