• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دل مچلتا ہے تو ماضی کے جھروکوں میں جھانک لیتا ہوں۔ آج جانے کیسے اپنے اصل کراچی جو کہ 1948ءسے لے کر 1970ءتک، شاندار ،یورپ کے کسی بھی ملک کی ہمسری کرتا تھا، پھر جانے اس کو کس کی نظر لگ گئی۔ آج یہ تباہ حال اور برباد ہےبالکل اسی طرح جیسے ،جسم کا ڈھانچہ بغیر روح کے،اسی شہر کراچی میںروزانہ سڑکیں دھلا کرتی تھیں۔ صاف و شفاف، چمکتی ہوئی ۔ شہرمیںٹرام چلا کرتی تھیں۔عمارتیںایسی کہ بس مت پوچھئےاُن شان ہی نرالی تھی۔ وہ اب بھی وہ کھڑی ہیں لیکن اُن کی حالت وہ نہیں جیسے کبھی ہوا کرتی تھی ۔اُن کی مرمت ودیکھ بھا ل کا کوئی انتظام نہیں ،جیسے کے ایم سی بلڈنگ ، فریئرہال،گارڈن کا علاقہ اتنے سارے کھیل کے میدان، مگر بلڈر زنے قبضے کرکے لمبی چوڑی عمارتیں کھڑی کردیں۔ شہرگنجان کر کے رکھ دیا۔

آج ایک امریکی سفیر کی کراچی کے حوالے سے باتیں یاد کر کے میری آنکھیں نم ہوگئیں۔سوچا کیوں نہ قدردانوں تک پہنچا دوں،تاکہ اس وقت کے لوگ اگر آج بھی بقیدحیات ہیں تو ان کی بھی یادیں تازہ ہوجائیں۔ میں 2002ءمیں سیر کے لئے امریکہ گیا ۔میرے دوست مجھے نیویارک میںایک بوڑھے امریکی سفارت کار کے گھر لے گئے۔ وہ صدر ایوب خان سے لے کر ذوالفقار علی بھٹو کے دورتک پاکستان میں تعینات تھا۔جنرل ضیاءالحق کے مارشل لاء کے بعد پاکستان سے لاطینی امریکہ ٹرانسفر ہوگیاتھا۔وہ اُس وقت ریٹائرڈ زندگی گزار رہا تھا۔میں اس کے اسٹڈی روم میں اس کے سامنے بیٹھ گیا، وہ بیتے دنوں کی راکھ کریدنے لگا۔ اس نے بتایا کراچی 60ءکی دہائی میں دنیا کے بہترین شہروں میں شمار ہوتا تھا۔ بہت پر امن شہر تھا۔ دنیا جہاں کے سفارت کار، سیاح یہاں کھلے بندوں پھرتے تھے ۔ کراچی کا ساحل دنیا کے دس شاندار ساحلوںمیں سے ایک تھا۔قومی ایئز لائنزدنیا کی چار بڑی ایئرلائیز میں آتی تھی۔ یورپ،امریکہ، مشرق بعید،عرب ممالک ، سوویت یونین،جاپان اور ہندوستان جانے والے تمام جہاز کراچی اترتے تھے اور مسافر کراچی کے بازاروں میں ایک دو گھنٹے گزار کر اپنی منزل کی طرف روانہ ہوجاتے تھے۔ شہر میں ڈبل ڈیکر بسیں چلتی تھیں۔کراچی کی روشنیاں رات کو دن میں بدل دیتی تھیں۔ ہم تمام سفارت کار کراچی کو روشنیوں کا شہر کہتے تھے۔ کراچی کے ساحل بھی لاجواب تھے۔ ہم گورے ہفتہ اور اتوار کا دن بیچ کی گرم ریت پر گزارتے تھے ۔ کراچی میں دنیا بھر سے بحری جہازآتے تھے۔ کراچی خطے کا جنکشن بھی تھا۔ یورپ سے لوگ ٹرین کے ذریعے استنبول آتے تھے۔ استنبول سے تہران، تہران سے کوئٹہ اور کوئٹہ سے کراچی آتے اور یہیں سے ٹرین کے ذریعے انڈیا چلے جاتے ، وہاں سے سری لنکا “نیپال اور بھوٹان“ تک پہنچ جاتے تھے۔

کراچی میں دنیا کی جدید ترین مصنوعات ملتی تھیں، میںنے زندگی کا پہلا ریڈیو ٹیپ ریکارڈر، پہلا رنگین ٹی وی اور پہلی ہیوی موٹر بائیک کراچی سے خریدی۔ یہ شہر بڑی گاڑیوں کی بہت بڑی مارکیٹ ہوتا تھا۔ جاپان، یورپ اورامریکہ سے مہنگی گاڑیاں کراچی آتی تھیں اور کراچی کے سیٹھ باقاعدہ بولی دے کر ے، گاڑیاں خریدتے تھے۔ کراچی کا ریلوے اسٹیشن دنیا کے بہترین اسٹیشنوں میں شمار ہوتا تھا۔ٹرینز بھی جدید، صاف ستھری اور آرام دہ تھیں،ان میں کھانا بھی صاف ستھرا اور معیاری ملتا تھا۔ہم میں سے زیادہ تر سفارت کار ریٹائرمنٹ کے بعد کراچی میں قیام کے منصوبے بناتے تھے۔ کراچی میں پراپرٹی خریدنے کی کوشش بھی کرتے تھے۔ سردیوں اور گرمیوں میں درجہ حرارت معتدل رہتا تھا۔بیورو کریسی ، محب وطن اور کوآپریٹو تھی۔ حکومتی عہدیدار اعلیٰ تعلیم یافتہ اور کلچرڈ تھے۔ لوگ بہت مہمان نواز تھے۔ شہرمیں کسی قسم کی ٹینشن اور خوف نہیں تھا۔ کراچی کے کسی سفارتخانے کے سامنے سیکیورٹی گارڈ یا پولیس نہیںہوتی تھی۔ہم اپنے ہاتھ سے سفارت خانے کا گیٹ کھولتے اور بند کرتے تھے۔ پاکستان کے لئے کسی ملک کے ویزے کی ضرورت نہیںہوتی تھی۔پاکستانی شہری جہاز میںسوار ہوتے ، یورپ کے ممالک میں اترتے اوروہیںایئرپورٹ پر انہیںویزا مل جاتا تھا۔پاکستان کا معیارِ تعلیم پورے خطے میں بلند تھا۔طالب علم یورپ، عرب ممالک، افریقہ، مشرق بعید، ایران، افغانستان اور چین سے تعلیم حاصل کرنے کے لئے پاکستان آتے تھے ۔ کراچی، لاہور کے کالجوںاور یونیورسٹیوں میںد اخلہ لیتے تھے۔ امریکہ اور یورپ کے پروفیسر روزگار کے لئے پاکستان کا رخ کرتے تھے۔کراچی شہر میں ایک ہزار کے قریب غیر ملکی ڈاکٹر، طبیب اور پروفیسر تھے۔ پاکستان کا بینکنگ سسٹم جدیدا ور فول پروف تھا۔بجلی ، ٹیلی فون اور گیس کاانتظام بہت اچھا، سیوریج سسٹم شاندار تھا۔ کراچی میں بارش کے آدھے گھنٹے بعد سڑکیں خشک ہوجاتی تھیں، روز گار کے مواقع عام تھے، فیکٹریاں لگ رہی تھیںاور مال ایکسپورٹ ہورہاتھا۔ٹیلی وژن نیا نیا آیا تھا، چنانچہ کراچی کی چھتوں پر اینٹینوں کی لمبی قطار یں دکھائی دیتی تھیں۔

ہم سفارت کار اس وقت ایک دوسرے سے پوچھتے تھے ،کیا کراچی 1980 ءتک دنیا کا سب سے بڑا شہربن جائے گا؟۔اس کے بعد اس سفارت خار نے ایک لمبی آہ بھری اور کہاکہ میں آج ٹی وی پر کراچی کے حالات دیکھتا ہوں یا پھر اس کے بارے میں خبریںپڑھتاہوں تو مجھے بہت افسوس ہوتاہے اور میں بڑی دیر تک سوچتا رہتاہوںکہ کیا واقعی یہ وہی شہر ہے،جہاں میں نے اپنی زندگی کے پندرہ سال گزارے تھے، جسے دنیا کاشاندار ترین شہر سمجھتا تھا۔

ہماری میٹنگ ختم ہوگئی لیکن دکھ کانہ ختم ہونے والا احساس میرے ساتھ چپک گیاپھر میں جب بھی کراچی کے بارے میں کوئی خبرپڑھتا تھا تو مجھے اس سفارت کار کی باتیںیاد آجاتیں اورمیںسوچتاکہ ہم نے ملک کو کیا سے کیا بنادیا لیکن میرا دکھ مزید بڑھ گیا جب میںنے پڑھا کہ کراچی دنیاکے 10 خطرناک ترین شہروں میں شامل ہوچکاہے۔کراچی دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں شامل ہوچکاہے۔اس کے ساحل، فضا اورسڑکیں آلودگی کی انتہا ءکو چھو رہی ہیں۔بارش کے بعد کراچی میں نکلنا محال ہوجاتاہے جبکہ شہر میں اسٹریٹ کرائم کی صورتحال یہ ہے کہ لوگ ہاتھوں میں سستا موبائل، جیب میں پرس، جس میںتین چار ہزار روپے سے زائد نہ ہوںاورکلائی پر سستی سی گھڑی پہن کر گھر سے نکلتے ہیں اورانہیں جس چوک پر ”سب کچھ ہمارے حوالے کردو“ کاحکم ہوتاہے ےہ چپ چاپ اپنی گھڑی، اپنا پرس اور اپنا موبائل حکم دینے والے کے حوالے کردیتے ہیں لیکن اس کے باوجود مارے جاتے ہیں۔ (صلاح الدین حیدر)

تازہ ترین