• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:مفتی عبدالمجید ندیم…برمنگھم
ہماری تا ریخ میں 23مارچ کا دن میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہی وہ مبارک دن ہے جس نے برصغیر کے مسلمانوں کو ان کی حقیقی منزل یعنی آزادی سے ہمکنار کیا۔ قوموں کی تاریخ میں ایسے دنوں کی بہت زیادہ اہمیت ہوتی ہے اس لئے کہ وہ ان سے بہت کچھ سیکھ کر منزلِ مقصود تک پہنچنے کی جدوجہد کرتی ہیں۔ آج ہم اپنی تاریخ کے ایسے موڑ پر کھڑے ہیں جہاں ہمیں اپنی تاریخ سے سبق حاصل کرنے بعد اپنے مستقبل کی تعمیر کی عملی جدوجہد کو جاری و ساری رکھنا ہے یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ بہت سے افراد اس نصب العین ہی کو بھول گئے ہیں جس کے لئے برصغیر کے مسلمانوں نے اپنا سب کچھ قربان کر دیا تھا۔ قائد اعظم ؒ محمد علی جناح کے بقول قیامِ پاکستان کی جدوجہد اسی دن شروع ہو چکی تھی جس دن پہلے مسلمان نے ہندوستان کی سر زمین پر قدم رکھا تھا لیکن انگریزوں کے متحدہ ہندوستان کے قبضے کے بعد غلامی کی رات طویل سے طویل ہوتی چلی گئی۔ ہندو جو بظاہر اس بات کا اظہار کر رہے تھے کہ ہندوستان میں بسنے والے تمام لو گ چاہے ان کا کسی بھی مذہب کے ساتھ تعلق ہو ایک قوم ہیں لیکن قدم قدم پر ان کے خیالات، اعمال اور افعال اس بات کو ثابت کر رہے تھے کہ وہ ہندوستان کی ساری اقوام کو انگریزوں کی غلامی سے نکال کر ہندوئؤں کی غلامی میں دینا چاہتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ علامہ اقبال، قائدِ اعظم ؒ اور دوسرے مشاہیر کو اس بات کا شرحِ صدر حاصل ہو گیا کہ مسلمانوں کے روشن مستقبل کے لئے یہ ضروری ہے کہ انہیں ایک الگ قوم کی حیثیت سے تسلیم کیا جائے۔ علامہ اقبال ؒ نے اپنے اشعار کے ذریعے واضح الفاظ میں پیغام دیا کہ مسلمان اپنے مذہب، اپنی روایات اور اپنی ثقافت کے لحاظ سے بالکل الگ تھلگ قوم ہیں، لہٰذا انہیں اپنی دینی اقدار کو عملی جامہ پہنانے اور اپنی تہذیب و ثقافت کو رواج دینے کے لئے ایک آزاد خطے کی اشد ضرورت ہے۔ اقبالؒ فرماتے ہیں :
اپنی ملت پہ قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہا شمی
پھر انہوں نے مسلما نا نِ ہند کو یہ سبق بھی پڑھایا کہ
دیں دے کے اگر آزاد ہو ملت
ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارہ
علامہ اقبال ؒ کو یہ معلوم تھا کہ میرے اس خواب کی تعبیر کو عملی جامہ پہنانے کیلئے جس عظیم لیڈر کی ضرورت ہے وہ قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ کے سوا کو ئی دوسرانہیں ہو سکتا ۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس عظیم لیڈر کو کانگریس کے سحر سے نکال کر مسلم لیگ کا گرویدہ بنا دیا۔ مسلمانانِ برصغیر کی یہ عظیم الشان جدوجہد 23مارچ 1940کو اپنے اس مقام پر پہنچی جس نے اس بے مثال جدوجہد کو وہ مہمیزدیا کہ صرف سات سال کے قلیل عرصے میں مسلمانانِ ہند نے بیک وقت انگریز اور ہندوکو شکست سے دوچار کر کے ایک الگ آزاد و خود مختار ریاست قائم کر لی۔ قوموں اور ملتوں کی تاریخ میں ایسا نا ممکن ہے کہ اتنے قلیل عرصے میں ایسا عظیم الشان معجزہ رونما ہو جائے لیکن اس سب کے اندر بانیانِ پاکستان کا خلوص، عوام کی پرخلوص جدوجہد اور اللہ تعالیٰ کا خصوصی فضل و کرم شامل تھا ۔لاہور کے منٹو پارک میں جہاں آج مینارِ پاکستان اپنی ساری بلندیوں کے ساتھ کھڑا ہے ساٹھ ہزار افراد کے لئے انتظام کیا گیا تھا لیکن جب عوام کا جم غفیر ہندوستان کے کو نے کو نے سے امڈ کر آیا تو وسیع و عریض میدان کی وسعتیں سمٹ گئیں اور ہر سڑک اور چوراہا انسانوں کے سمندر کے سامنے اپنی تنگ دامانی پر نوحہ کناں ہونے لگا۔ حاجی الف دین مرحوم نے جو سٹیج تیار کروایا تھا اس کے اوپر ایک بینر آویزاں تھا جس پر علا مہ اقبال ؒ کا یہ شعر درج تھا جو اہلِ ایمان کے جذبوں کی ترجمانی کر رہا تھا :
جہاں میں اہلِ ایمان صورتِ خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے
قرار داد پاکستان سے پہلے قائدِ اعظمؒ نے ڈیڑھ گھنٹہ تک فی البدیہہ ایسی زبردست تقریر کی جو اپنی جامعیت کے لحاظ سے بے مثال تھی۔ قائدِ اعظم ؒ نے فرمایا’’ اسلام اور ہندو دھرم محض دو مذاہب نہیں بلکہ درحقیقت دو مختلف معاشرتی نظام ہیں، چنانچہ اس خواہش کو خواب ِ خیال ہی کہنا چاہئے کہ ہندو اور مسلمان مل کر ایک مشترکہ قومیت تخلیق کر سکیں گے۔ یہ لو گ آپس میں شادی بیاہ نہیں کرتے ایک دستر خوان پرکھانا نہیں کھاتے۔ میں واشگاف الفاظ میں کہتا ہوں کہ یہ دو مختلف تہذیبوں سے واسطہ رکھتے ہیں اور ان تہذیبوں کی بنیاد ایسے تصورات اور حقائق پر رکھی گئی ہے جو ایک دوسرے کی ضد ہیں ۔قائدِ اعظم ؒ کی اس تقریر نے نشانِ منزل کو واضح کر دیا۔ اس کے بعد جونہی قراردادِ لاہور پیش کی گئی تو ہر طرف سے آواز بلند ہوئی ’’ لے کے رہیں گے پاکستان ۔۔۔بن کے رہے گا پا کستان اور پاکستان کا مطلب کیا ؟ لا الہ الااللہ۔ قراردادِ لاہور کے بعد برصغیر کے طول و عرض میں ایسا عظیم الشان جذبہ پیدا ہوا جس سے ہندوستان کے بام و در میں ایک رعشہ سیماب پیدا ہو گیا۔ ہر طرف آزادی حاصل کرنے کی ایسی جدوجہد تھی جس نے لازوال قربانیوں کی ایسی درخشاں تاریخ رقم کر دی جس کی مثال تاریخ ِ انسانی میں ملنا انتہائی مشکل ہے۔ یاد رکھئے یہ ملک ہمیں پلیٹ میں رکھ کر نہیں دیا گیا بلکہ اس کے لئے لاکھوں افراد لقمہ اجل بنے، لا کھوں سہاگنوں کے سہاگ لُٹے، لاکھوں بچے یتیم ہوئے، ان گنت خواتین نے اپنی عزت و ناموس کی قربانی دی، تب قرارداد پاکستان کواپنی حقیقی منزل یعنی آزادی نصیب ہوئی۔ آئیے اس مرحلے پر عہد کریں کہ ہمارے آبا و اجداد نے اس ملک کو معرض ِ وجود میں لانے کیلئے جو جدوجہد کی ہے اسے سامنے رکھتے ہوئے پاکستان کے استحکام کیلئے اپنی ساری قوتیں صرف کر دیں گے پاکستان اس وقت اپنی تاریخ کےنازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔ ایک طرف بھارت کا عفریت اپنا منہ کھولے ہوئے ہے تو دوسری طرف نظریہ پاکستان سے بغاوت کا شور ہے ایک طرف مادر وپدر آزاد خواتین ہمارے خاندانی اور معاشرتی نظام کی دھجیاں بکھیر رہی ہیں اور دوسری طرف عوام کے کروڑوں روپے لوٹنے والے احتساب سے بچے ہوئے ہیں اور اگر کہیں ان پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش ہوتی ہے تو ہر طرف انتقام کا واویلا ہے۔ لہٰذا وقت کا تقاضا ہے کہ ہم یومِ پاکستان کو عہد کریں کہ ہم پاکستان کو بچانے اور مستحکم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں گے اور کشمیر کو آزاد کرا کر تکمیلِ پاکستان کے آخری مرحلے کو عزت و آبرو کے ساتھ سر کر کے دم لیں گے ۔انشاء اللہ
تازہ ترین