• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی دو مساجد میں ایک انتہا پسند آسٹریلوی نے نماز جمعہ کے دوران بے گناہ نمازیوں پر ظلم و ستم کی جو انتہا کی ہے، اُس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ پچاس سے زائد انسانوں کو موت کے منہ میں دھکیلتے اور درجنوں کو زخمی کرتے ہوئے اُس بد بخت‘ انسانیت سے گرے ہوئے شخص نے سوچا کہ اِس طرح دنیا سے مسلمان ختم ہو جائیں گے یا اُن کا مذہب کہیں دب جائے گا۔ اُس نے 74صفحات کا جو منشور دیا ہے، وہ بھی منافرت سے پُر ہے کہ جب تک دنیا میں ایک بھی سفید فام موجود ہے، مسلمان ان کے ممالک پر قبضہ نہیں کر سکتے۔ قابلِ اطمینان بات یہ ہے کہ دنیا میں کیا سفید فام کیا سیاہ فام، کیا مذہبی کیا غیر مذہبی بشمول یہود، مسیحی، ہندو، بدھ، سکھ ہر کسی نے اِس اندوہناک سانحہ کے خلاف آواز بلند کی ہے اور دنیا بھر کے مسلمانوں سے اظہارِ یکجہتی کیا ہے۔کرائسٹ چرچ میں یہودیوں اور مسیحیوں نے مسلمانوں کے لیے نہ صرف اپنی عبادت گاہوں کے دروازے کھول دئیے بلکہ مسلمانوں سے اظہارِ ہمدردی کے لیے انتہا پسندی کا نشانہ بننے والی مساجد میں پہنچے اور اُن کے باہر پھولوں اور اپنے درد مندانہ پیغامات سے بھرے کارڈوں کی بھرمار کر دی۔ کرائسٹ چرچ کی بڑی یونیورسٹی میں مسلمانوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے اذان کی آواز یوں گونجی جیسے سبھی اذانیں دے رہے ہوں اور سینکڑوں طلبہ ادب سے کھڑے ہو کر اذان سن رہے تھے۔ دنیا کی کسی بھی قوم میں جہاں لاکھوں کروڑوں انسان محبت اور انسان نوازی کے علمبردار ہوتے ہیں، وہیں منافرت کے بیوپاریوں کی موجودگی سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ مگر آفرین ہے اِن مغربی اقوام پر جنہوں نے نہ صرف درندے کو درندہ کہا بلکہ اِس سے آگے بڑھ کر منافرت کی آواز نکالنے والے کی خود بولتی بند کی ۔ ایک آسٹریلوی سینیٹر نے منفی آواز نکالنا چاہی تو ایک آسٹریلوی بچے نے عین موقع پر اُس کیخلاف نفرت کا اظہار کیا، جس پر آسٹریلوی قوم اور میڈیا میں یہ بچہ ہیرو بن کر اُبھرا۔ مانچسٹر میں ایک سفید فام نوجوان نے مسلمانوں کے خلاف ٹویٹ کیا تو اُس کی اپنی حکومت نے ایسے غیر ذمہ دار شخص کو فوری گرفتار کر لیا ۔ نیوزی لینڈ کے مسیحیوں نے مسلمانوں سے یہ کہا کہ آپ اپنی عبادت کریں ہم آپ کا پہرہ دیں گے۔

سب سے زیادہ قابلِ ستائش رویہ نیوزی لینڈ کی خاتون وزیراعظم جسینڈا آرڈرن کا رہا، جس نے اپنے ملک میں موجود اس ایک فیصد مسلم کمیونٹی کی دلجوئی و ہمدردی کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا۔ سیاہ لباس اور سر پر دوپٹہ اوڑھ کر مسلم کمیونٹی کے زخموں پر مرہم رکھا۔ کرائسٹ چرچ میں فوری کرفیو نافذ کرتے ہوئے اسلحہ قوانین میں تبدیلیوں اور ایسے سانحات کی روک تھام کے اقدامات کئے۔ زخمیوں کی عیادت کرتے ہوئے اُنہوں نے ہر ممکن مدد کی یقین دہائی کروائی ، جام شہادت نوش کرنے والوں کے لیے دس ہزار ڈالر فی کس مدد کا اعلان کیا ہے اور تمام تارکین وطن سے اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے کہا کہ جنہوں نے اپنا وطن چھوڑ کر نیوزی لینڈ کو اپنا وطن بنایا، یہ اُن کا اپنا گھر ہے، اُن کا اپنا وطن ہے اور وہ ہمارا حصہ ہیں۔ اگلے روز اُنہوں نے اپنی پارلیمنٹ میں خصوصی اجلاس کا آغاز تلاوت قرآن سے کراتے ہوئے اپنی تقریر کا آغاز السلام و علیکم سے کیا اور کہا کہ آپ سب پر خدا کی سلامتی و رحمت ہو، میں یہاں اُس شخص کا نام بھی لینا نہیں چاہتی، جس شہرت کے بھوکے نے ہمارے ملک میں دہشت گردی کرتے ہوئے بے گناہ انسانوں کا خون بہایا۔ وہ ایک دہشت گرد، مجرم اور انتہا پسند ہے، وہ بے نام رہے گا۔ اُس کا ہمارے ملک سے کوئی تعلق نہیں، میں اُن مظلوموں کے نام لینا چاہتی ہوں جنہوں نے اپنی جانیں قربان کر دیں اور یہ شہید ہو جانے والے ہی اصل ہیرو ہیں۔ اِس موقع پر نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے اُس بہادر پاکستانی کا خصوصی طور پر ذکر کیا جس نے جوانمردی سے سنگدل دہشت گرد کو دبوچنے کی کوشش کی۔ اُنہوں نے اعلان کیا کہ لواحقین اپنے پیاروں کے جسدِ خاکی جہاں بھی لے جانا چاہیں، اخراجات حکومت ادا کرے گی۔ ملک میں ہائی الرٹ برقرار رہے گا اور دہشت گرد حملے کی تہہ تک پہنچیں گے۔ قاتل کیفرِ کردار کو پہنچے گا۔ امریکی صدر ٹرمپ نے اُنہیں فون کرتے ہوئے جب یہ پوچھا کہ میڈم پرائم منسٹر امریکہ اِس دکھ بھری گھڑی میں آپ کی کیا مدد کر سکتا ہے تو نیوزی لینڈ کی نیک دل وزیراعظم نے فوری جواب دیا کہ امریکہ دنیا بھر کی مسلم کمیونٹی سے اظہارِ محبت و ہمدردی کرے، جس پر صدر ٹرمپ نے اپنا پہلے والا ٹویٹ ڈیلیٹ کرتے ہوئے اس سانحہ کو دہشت گردی قرار دیا اور اس کی مذمت کی۔ اُنہوں نے اِس امر پر حیرت کا اظہار کیا کہ نہ جانے کیوں میڈیا اِس حوالے سے مجھ پر منفی تنقید کر رہا ہے حالانکہ اِس کا جواب اُنہیں خود اپنے آپ سے پوچھنا چاہئے۔ اتنے عظیم الشان ملک کی قیادت پر فائز شخص کو کسی بھی جواز سے منافرت پھیلانے کا وتیرہ اختیار نہیں کرنا چاہئے جو کوئی بھی ایسی آگ بھڑکاتا ہے اس کی بیخ کنی کی جانی چاہئے۔

ہر قو م کے ذمہ داران کو چاہئے کہ وہ اپنے ملک میں موجود انتہا پسندوں کو خود لگام دیں، یہ فریضہ میڈیا میں بیٹھے لوگوں پر بھی اُسی طرح عائد ہوتا ہے جس طرح سیاسی، مذہبی، ادبی یا سماجی رہنمائوں پر۔ جب بھی اس نوع کا سانحہ ہوتا ہے غیر ذمہ دار لوگ اقوامِ دیگر کے خلاف ایک طوفان بدتمیزی برپا کردیتے ہیں، خود کو زیادہ محبِ قوم ثابت کرنے کے لیے ہر گھٹیا الزام اقوامِ دیگر پر عائد کرنا، ایمانی مضبوطی کا سمبل خیال کیا جاتا ہے لہٰذا اپنی مسلمان قوم بالخصوص پاکستانی بھائی بہنوں کی خدمت میں التماس ہے کہ وہ اس مسئلہ پر بھی اہلِ مغرب سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔                    

تازہ ترین