دنیا بھر کی طرح سعودی عرب میں بھی گزشتہ دنوں خواتین کا عالمی دن منایا گیا ۔اس سال سعودی اسٹاک ایکس چینج ( تداول) میں خواتین کا عالمی دن منانے کے لیے دنیا کی باقی 80 مارکیٹوں کی طرح کام کے آغاز پر گھنٹی بجائی گئی ۔کاروبار کے آغاز پر ایکس چینج کی تجارتی منزل پر یہ گھنٹی کسی اور نے نہیں بلکہ تداول کی چیئرپرسن سارہ جماز السحيمی نے اپنی ساتھی دو خواتین سے مل کر بجائی ہے ،یہ بات سعودی عرب میں خواتین کو بااختیار بنانے کی علامت تھی۔
اس موقعے پر باضابطہ ایک تقریب منعقد کی گئی اور اس میں خواتین کو بااختیار بنانے کے اصولوں سے متعلق ایک سمجھوتے پر دستخط بھی کیے گئے۔یہ سمجھوتا سعودی معیشت میں خواتین کی مزید شرکت کی حوصلہ افزائی سے متعلق ہے ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ تداول کی چیئر پرسن کی حیثیت سے سارہ السحیمی کا تقرر دراصل ایک بڑا انقلابی قدم تھا کیوں کہ اس کے ذریعے دراصل مردوں کی بالادستی کے حامل مالیاتی شعبے میں خواتین کی ترقی کی راہیں کھولی گئی ہیں اور سعودی معاشرے میں خواتین کو بھی ملکی معیشت کی ترقی میں شریک کیا جارہا ہے۔ تاہم مالیاتی شعبے میں تحقیقات کرنے والی فرم ڈیلواِٹ کنسلٹنسی کا کہنا ہے کہ کارپورٹ بورڈز میں خواتین کی نمایندگی میں تو مسلسل اضافہ ہورہا ہے لیکن عالمی سطح پر بورڈز کی سربراہی کرنے والی خواتین کی تعداد بہت کم ہے۔اس وقت دنیا بھر میں مالیاتی اداروں کے بورڈز میں خواتین کی نشستوں کی تعداد 12 فی صد ہے لیکن ان میں سے صرف چار فی صد بورڈ کی صدارت کررہی ہیں۔39 سالہ سارہ السحیمی ان میں سے ایک ہیں۔وہ سعودی عرب کی 533 ارب ڈالرز مالیت کی اسٹاک مارکیٹ کی سربراہ ہیں ۔اس سے بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ سعودی عرب، خواتین کو بااختیار بنانے کی حکمت عملی پر کس طرح عمل پیرا ہے اور وہ انھیں مردوں کے شانہ بشانہ مختلف شعبوں میں سامنے لا رہا ہے۔
ورلڈ فیڈریشن آف ایکسچینج کے مطابق تداول مشرقِ وسطیٰ کے خطے میں سب سے بڑی اسٹاک ایکسچینج ہے اور دنیا بھر میں یہ اکیسویں نمبر پر ہے۔سارہ اس کی سربراہ بننے سے قبل مختلف مالیاتی اداروں میں خدمات انجام دے چکی ہیں۔وہ اس وقت نیشنل کمرشل بینک کیپٹل کی چیف ایگزیکٹو افسر بھی ہیں ۔ اس سے قبل جدہ انوسٹمنٹ میں چیف انوسٹمنٹ افسر رہی ہیںاور سامبا فنانشیل گروپ میں سینئر پورٹ فولیو مینجر کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکی ہیں۔وہ امریکا کی معروف دانش گاہ ہارورڈ اور سعودی عرب کی جامعہ شاہ سعود کی گریجو یٹ ہیں۔انھیں ستمبر 2013ء میں سولہ دیگر خواتین کے ساتھ اسٹاک ایکس چینج کی مشاورتی کمیٹی کا رکن بنایا گیا تھا۔انھیں 16 فروری 2017ء کو خالد الربیعہ کی جگہ تداول کی چیئرپرسن مقرر کیا گیا تھا ۔
دوسری طرف سعودی عرب کی انسانی حقوق کونسل کے سربراہ بندر العیبان نے کہا ہے کہ مملکت خواتین کو ترقی کے عمل میں شمولیت کا سفر جاری رکھےگی۔ ان کا کہنا تھا کہ حقوق نسواں کا تحفظ اصلاح وترقی کے عمل میں خواتین کی شمولیت کو یقینی بنانے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کریں گے۔ العربیہ کے مطابق سعودی عرب کی انسانی حقوق کونسل کے سربراہ نے اپنے ایک بیان میں یہ بھی کہاہے کہ سعودی 'ویژن 2030ء میں خواتین کو ترقی کے عمل میں اہم حصہ دار قرار دیا گیا ہے۔ یہ صرف زبانی دعوے نہیں بلکہ سعودی عرب نے خواتین کو مقتدر اور مستحکم کرنے کے لیے مختلف شعبوں میں ان کی خدمات حاصل کرنے کا آغاز کیا ہے۔
سعودی عرب میں مقیم اقوام متحدہ کی رابطہ کار نیتنی فوسٹے نے کہا ہے کہ سعودی عرب نے خواتین کو ملک و قوم کی خدمت کے قابل بنانے کے سلسلے میں جو اقدامات کئے ہیں انہیں اقوام متحدہ قدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ سعودی عرب خواتین کے حقوق کے سلسلے میں انسانی حقوق کے عالمی اداروں سے بھرپور تعاون کررہا ہے جو قابل تحسین ہے۔ سعودی عرب نے دنیا بھر کے شانہ بشانہ خواتین کا عالمی دن منایا۔ مملکت نے اس موقعے پر اس عزم کا اعادہ کیا کہ خواتین کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گااو رانہیں ملک و قوم کی خدمت کے سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنے کا اہل بنانے کے لیے درکار اقدامات کئے جارہے ہیں، ادھر اسی دوران اچھی خبر خواتین کے حوالے سے یہ آئی کہ شہزادی ریما بنت بندرکو امریکا میں سعود ی عرب کا سفیر تعینات کردیاگیاہے، 2017ءمیں فاطمہ باعشن کو واشنگٹن میں سعودی سفارتخانے کا ترجمان ، مجلس شوریٰ میں 20فیصد ارکان خواتین، اگست 2018ءمیں بلدیاتی کونسلوں کے کلیدی عہدوں پر 3خواتین کی تقرری، ڈاکٹر نورالفایز کو نائب وزیر تعلیم برائے امور طالبات ، ڈاکٹر تماضر الرمح کو نائب وزیر محنت و سماجی بہبود ، ڈاکٹر ایمان المطیری کو معاون وزیر تجارت و سرمایہ کاری ، وزارت انصاف میں 57خواتین کو وثیقہ نویسی کے اختیارات کی تفویض نمایاں مثالیں ہیں۔ سعودی خواتین عالمی اداروں میں بھی اپنا اور ملک کا نام روشن کررہی ہیں۔ لبنیٰ الانصاری معاون چیئرپرسن عالمی ادارہ صحت ، ڈاکٹر سمر الحمود عالمی ادارہ صحت کے ماتحت سائنس ریسرچ کمیٹی کی چیئرپرسن ، تواصیف المقبل مورخین کی عالمی تنظیم کی رکن بنائی گئی ہیں۔اسپورٹس کے حوالے سےدیکھیں تو اپنی مدد آپ کے تحت کامیابی کے جھنڈے گاڑنے والی ماہر سعودی خاتون اتھلیٹ دینا الطیب کہتی ہیں کہ اہل خانہ اور برادری نے میرے جذبہ کھیل کو زندہ رکھنے میں بہت مدد کی اور میری تمام کسرتی فتوحات انہی کی حوصلہ افزائی کی مرہون منت ہیں۔ دینا الطیب کو 2018 میں پہلی خاتون عرب اتھیلیٹ ہونے کا اعزاز حاصل ہے کہ جس نے آئرن مین ورلڈ چیمپئن شپ کے مقابلوں کے لئے کوالیفائی کیا۔وہ آئرن مین ٹرائتھالون کے سخت مقابلوں کی دوڑ مکمل کرنے والی پہلی سعودی خاتون اتھلیٹ ہیں۔
العربیہ کی تفصیلات کے مطابق دینا الطیب پیشے کے اعتبار سے ماہر ڈینٹسٹ ہیں۔ ان کے تین بچے ہیں۔ وہ جس کھیل میں مہارت دکھا کر اپنا لوہا منوا چکی ہیں، اس میں شرکت کے لئے مضبوط اسٹمنا درکار ہوتا ہے۔ دینا اسٹیمنا بڑھانے کے لئے اپنے طور پر ہی کسرتی مشقیں کرتی ہیں، تاہم مشرق وسطیٰ اور سعودی عرب میں ٹرائتھالون مقابلوں کے بکثرت انعقاد اور خواتین کھیلوں کے فروغ کے بعد اس میں شمولیت اختیار کرنے والے کھلاڑی اجتماعی تربیت کے سیشن سے استفادہ کر سکتے ہیں۔دینا نے بتایا کہ ’’انہیں خواتین اسپورٹس کے موجود حالات دیکھ کر خوشی ہوتی ہے۔ میں نے اس میں شمولیت کے لئے اپنے طور پر محنت کی۔ کھیل برادری کا حصہ بننا اچھا لگتا ہے، خاص طور پر یہ جان کر کہ کوئی گروہ آپ کی حوصلہ افزائی کے لئے موجود ہے۔اسپورٹس برادری میں بڑھوتری دیکھ کر مجھے خوشی ہوتی ہے۔ ہم بہت اچھا ٹیلنٹ اور کھلاڑی دیکھ رہےہیں۔‘‘سخت جان سعودی خاتون کھلاڑی ’’تکلیف کے بغیر کچھ حاصل نہیں ہوتا‘‘ جیسے مقولے پر یقین رکھتی ہیں۔ ’’آئرن مین ٹرائتھالون چیمپئن شپ دنیا میں اولمپکس کے مقابل ایونٹس ہیں۔ تین بچوں کی والدہ نے العربیہ انگلش میں انتہائی عاجزانہ لہجے میں بتایا کہ وہ ایسی کل وقتی اتھیلیٹ نہیں کہ جو ماہرین کی ایک ٹیم کے ہمراہ اپنا مستقبل بنا رہی ہوں۔ میں نے اپنی غلطیوں سے سیکھ کر کام میں بہتری لانے کی اسکیم پر عمل کیا ہے۔میں عام انسان ہوں اور مجھ جیسا کوئی بھی انسان یہ کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔
قومی مرکزبرائے فروغ سیاحت نے 474سعودی خواتین کو سیاحتی کورس کرنے کے لیے اسکالر شپ پر بھیجا ہے۔ مزید 1200لڑکیوں کو سیاحت کا کورس کرایا جائے گا،مزید یہ کہ سعودی نوجوان خاتون ’جواہر الدبیل‘نے اپنے انوکھے اور دل چسپ خیال کو عملی جامہ پہناتے ہوئے خوشبو دار جڑی بوٹیوں، قدرتی تیلوں اور پھلوں کو قدرتی اور صحت بخش صابن کی شکل دے دی۔ وہ اس فن میں مہارت حاصل کر کے صابن کو پر کشش قالب میں ڈھال رہی ہیں اور اب یہ کام ان کا پیشہ بن چکا ہے۔ مملکت کے شہر بریدہ میں رہنے والی جواہر کو اس سلسلے میں Creative Handwork Center کی سپورٹ بھی حاصل رہی۔جواہر نے برطانیہ سے کامرس اینڈ مارکیٹنگ میں ڈگری حاصل کی ہے۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ’’دوران تعلیم میں نے یہ بات نوٹ کی کہ برطانوی باشندے بازار سے زیادہ صابن نہیں خریدتے کیوں کہ ان لوگوں کا خیال ہے کہ یہ غیر صحت بخش ہے۔ تقریبا ہر گھر میں صابن تیار کرنے کا ایک چھوٹا کارخانہ ہوتا ہے۔ بالخصوص ریٹائرڈ ہو جانے والے عمر رسیدہ افراد اپنے گھروں میں صابن تیار کرتے ہیں۔ میں جس خاتون کے گھر میں سکونت پذیر تھی اس کا بھی یہ ہی معمول تھاجواہر کے مطابق انہوں نے مذکورہ خاتون سے درخواست کی کہ وہ اس صابن کی تیاری کا طریقہ سکھا دے۔ بعد ازاں انہوں نے یونیورسٹی سے صابن سازی کے بنیادی کورس کی مفت تعلیم حاصل کی اور اللہ کے فضل سے اس میں مہارت حاصل کر لی۔ سعودی عرب لوٹنے کے بعد جواہر نے اس میدان میں اپنا منصوبہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔سعودی نوجوان خاتون کا کہنا ہے کہ وہ ’کیمیائی اور محفوظ رکھنے والے مواد‘ سے پاک صابن بنانا چاہتی ہیں‘‘۔
سعودی عرب میں تیل پائپ ساز کمپنی کی طرف سےخواتین ورکروں کے ذریعے ٹریفک قوانین سے آگاہی سے متعلق ایک منفرد مہم شروع کی ہے۔ کمپنی کی آٹھ خواتین نے سعودی عرب کے مشرقی شہر الخبر میں مختلف پٹرول اسٹیشنوں سے اپنی آگاہی مہم کا آغاز کیا ۔ پٹرول اسٹیشنوں پر ایندھن بھرنے کے لیے آنے والی گاڑیوں کے مردو خواتین ڈرائیوروں کو ٹریفک کے قوانین کے بارے میں معلومات کی فراہمی اور جان ومال کے نقصان کا سبب بننے والے حادثات کی روک تھام میں ان کی مدد کرتی ہیں۔ کمپنی کی طرف سے ان خواتین کو آگاہی مہم پر مامور کرنے سے قبل انہیں ٹریفک کے امور کی مکمل تربیت فراہم کی گئی۔ وہ اپنے آگاہی پروگرام کے دوران ڈرائیور خواتین وحضرات کو یہ بتاتی ہیں کہ ڈرائیونگ ایک ذوق ہی نہیں بلکہ ایک فن ہے اور ایک ڈرائیور کو شتر بے مہار نہیں ہونا چاہیے بلکہ ڈرائیونگ کےدوران اسے بہت سے اصولوں کی پاسداری اور احتیاط کرنا چاہیے۔سعودی عرب میں ٹریفک سے متعلق آگاہی پروگرام کے ذریعے روز مرہ زندگی میںڈرائیونگ کی اہمیت، حادثات سے بچائو، محفوظ ڈرائیونگ اور ٹریفک سگنلز کےبارے میں معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔ پٹرول اسٹیشنوں پرآنے والے ڈرائیور حضرات کی طرف سے اس مہم کی تعریف کی ہے۔