ہر غلام ذہن کے پیچھے بھاگ جانے کا تصوّر چُھپا ہوتا ہے۔ اگرچہ وہ بھی غلام سوچ کے ساتھ پیدا ہوا تھا، مگر اُس کا دوست کہتا تھا،’’تم بھی میری طرح آدھے غلام ہو۔ اور آدھا غلام وہ ہوتا ہے، جس کے ذہن کے پیچھے بھاگ جانے کا تصوّر تو چُھپا ہوتا ہے، مگر وہ ہمیشہ لمس کی لذت سے محروم رہتا ہے۔‘‘ اور پھر وہ اِک روز سب چھوڑ چھاڑ شہر سے بہت دُور کسی تلاش میں چلا آیا۔ ایک بے نام تلاش…۔
سورج کی انگیٹھی میں دوپہر کے کوئلے جل رہے تھے۔ پاس سے گزرتی بل کھاتی، چھوٹی سی ندی کا لرزتا پانی، پرندوں کی الہامی آوازوں اور خوشبو لٹاتے پھولوں کے حُسن نے ماحول سحر زدہ سا کردیا تھا۔ گائوں سے بہت دُور برگد کی زمین سے اُبھری جڑوں پر بیٹھا وہ سرسوں کی پیلی لہلہاتی فصل دیکھ رہا تھا، جس کے شگوفوں پر تتلیاں رقص کرتی، گاتی پھر رہی تھیں۔ برگد پرندوں کی موجودگی کے لمس سے جُھوم رہا تھا۔ اور جب جب ہوا چلتی تو اُسے یوں لگتا، جیسے ٹہنیاں ایک دوسرے سے سرگوشیاں کر رہی ہوں۔ آج وہ ایک طویل عرصے بعد تعبیر میں ڈھلے خوابوں کا لمس محسوس کر رہا تھا۔ پھر وہ یادِ ماضی کی اوس میں بھیگنے لگا۔
وقت کی چاک پر ہر لمحہ گھومتے ہم کیا سے کیا بنا دیے جاتے ہیں۔ پہلے بچپن، پھر جوانی اور آخر میں آکر نہ جانے والا بڑھاپا۔ آدمی کو مَرنا ہی نہیں چاہیے، زندگی میں بھی نہیں اور سانسوں کی آندھی ختم ہونے کے بعد بھی۔’’موت کیا ہے…؟‘‘شاید جب کوئی کسی کی محبّت اور حافظے سے نکل جائے، تو وہ مَرجاتا ہے۔ بڑھاپے میں محبّت کے سوا کوئی دُکھ سہنے کی سکت نہیں رہتی اور تنہائی تو قیامت کا دوسرا نام ہے اور نہ جانے کیوں جوان اولاد کے پاس ہمیشہ وقت کی کمی رہی ہے۔ یکایک اُسے غافر یاد آیا، جو بہت اچھا شاعر اور نثر نگار تھا۔ غافر اُس کا واحد دوست تھا، جس سے وہ دِل کی ہر بات کر لیا کرتا تھا۔ غافر بڑی عجیب باتیں کرتا تھا۔ ایک دِن کہنے لگا،’’یار احمر! تمھیں پتا ہے، مَیں کیوں لکھتا ہوں؟ اپنی اَن کہی کی تھکن اُتارنے کے لیے اور تم جانتے ہو کہ تخلیق کار کے لیے اہلِ دِل ہونا ضروری ہے، وگر نہ تخلیق نہیں ہوتی۔ جس کے عمل سے دوسروں کی آنکھوں کے جگنو بُجھ جائیں، اُس کی تخلیق بھی بے جان ہو کر بُجھ جاتی ہے۔‘‘ ’’یار! یہ تم شاعر، ادیب لوگ ایسی باتیں کیسے سوچ لیتے ہو۔ زلیخا کی آنکھوں کے کینوس پر صرف یوسف کی تصویر ہی بنتی ہے۔ محبّت کی بیلوں پر صرف وصل کے پھول ہی خوشبو دیتے ہیں۔ رویّے کیکٹس اور لہجے سرد ہو جائیں، تو سوال لبوں ہی پر جمنے لگتے ہیں۔‘‘ یہ سُن کر غافر مُسکراتے ہوئے بولا تھا، ’’میرے دوست! اہلِ محبّت اور اہلِ دِل کے اپنے ہی ضابطے اور اپنی ہی نرالی دُنیا ہے۔ تم نفع نقصان کی زنداں کے اسیر ہو، تم ان باتوں کو نہیں سمجھ سکتے۔‘‘کچھ دیر ہم دونوں کے درمیان خاموشی رقصاں رہی، پھر وہ کچھ سوچ کر بولا، ’’احمر! یہ جو تخلیق کار ہوتا ہے ناں، اصل میں یہ خوابوں کے درمیاں جاگا ہوا شخص ہوتا ہے۔ اُس کی ساری عُمر دُکھ کی دُکھن کو لفظوں کا رُوپ دیتے دیتے گزر جاتی ہے۔ یہ جب راوی کو پیاسا اور خشک دیکھتا ہے، تو اُس کی آنکھوں سے ریت بہنے لگتی ہے۔ اُسے نہ جانے کیوں یہ یقین سا ہوتا ہے کہ ساحل پر سپنے بوئو گے، تو سمندر کی لہروں سے جل پَری نکلے گی۔‘‘ آہ…غافر نہ جانے برسوں سے کہاں چلا گیا ہے۔ ایک روز کہہ رہا تھا، ’’شہروں سے اُس کا دِل اُٹھ گیا ہے۔ اب مَیں کہیں دُور خامشی کے جنگل میں جانا چاہتا ہوں۔ شہروں میں تو لاتعداد لوگ خدا بنے بیٹھے ہیں۔‘‘
اُس نے سامنے دُور تک دیکھا، ایک بوڑھا پیپل کتنا چُپ چاپ اور اُداس کھڑا تھا۔ اُس پر اب صرف دو ہی گھونسلے رہ گئے تھے۔ گھونسلوں کے بغیر درخت اُن بوڑھے ماں باپ کی طرح ہوجاتے ہیں، جن کی نافرماں اولاد انھیں تنہا چھوڑ کر اپنی اولاد کے لیے دولت اکٹھی کرنے بیرونِ مُلک چلی جاتی ہے۔ سامنے پہاڑوں پر جمی برف دیکھ کر اُسے پھر غافر یاد آگیا۔ وہ کہتا تھا، ’’عجیب نگر ہے، یہاں جون کے ایوانِ عدل میں برف کا میزان ہے۔‘‘ کبھی کہتا تھا،’’مجھے برف کا انتظار اور پہاڑوں کی تنہائی بہت بھاتی ہے۔‘‘ ایک دِن اُس نے غافر سے پوچھا تھا، ’’دوست! میرا دُکھ کیا ہے، سب کچھ ہونے کے باوجود بھی ایک کمی سی کیا ہے؟ مجھے ایسے کیوں لگتا ہے، جیسے میرا کچھ کھو گیا ہے۔ وہ گم شدہ شے مجھے یاد کیوں نہیں آتی۔ میری ماں مجھے اتنا پیار کیوں کرتی تھی؟ میرا بازو پکڑے، ماتھا چومتے مجھے اپنے سامنے بٹھا کر، ہر لمحہ مُسکراتے میرے ساتھ باتیں کیوں کرتی رہتی تھی؟ جب مَیں اُس سے اپنے بازو چھڑوا لیتا، تو وہ یہ کیوں کہتی تھی،’’پتّر! ویسے تو ماں کا سارا وجود ہی دِل ہوتا ہے، مگر مجھے لگتا ہے، میرا دِل تیری اُنگلیوں کی پَوروں میں دھڑکتا ہے۔‘‘میرے والد کے غصّے میں بھی اتنا پیار کیوں تھا؟ وہ میرے سامنے معصوم سا بچّہ کیوں بن جاتا تھا۔ وہ میرے بچپن میں ایسی سادہ بچّوں والی باتیں کیوں کرتا تھا، جس سے مجھے اُس کو سمجھانے اور زیادہ باتیں کرنے کا موقع ملے۔ وہ باتیں کرتے میرے ہاتھ کیوں پکڑے رکھتا تھا۔ جب ماں اُسے کہتی تھی، ’’اپنے بچّے کو نصیحتیں کیا کریں۔‘‘ تو وہ کہتا تھا، ’’عمل ہی تبلیغ ہوتا ہے۔ تبلیغ میں زباں کا کردار اُتنا ہی ہے، جتنا جسم میں زبان کا حصّہ۔‘‘ پھر اُسے ماسٹر غلام علی کی بیٹی شبنم، جسے سب شبّو کہتے تھے، یاد آئی، جو حُسن و حیا کا پیکر تھی۔ کہتی تھی، ’’ایسی تعلیم اور ڈگریوں کا کیا فائدہ، جب آدمی آنکھوں سے چھلکتی محبّت نہ پہچان سکے۔‘‘ یہ بھی کہتی تھی، ’’محبّت کے نصاب میں خوف زدہ ہونا شامل نہیں۔‘‘ ایک روز شبنم بھی رسموں رواجوں اور سماج کے دیوتاؤں کے آگے قربان کردی گئی اور میری خوف زدہ آنکھیں تماشائی بنی رہیں۔ غافر نے ایک دِن یہ بھی کہا تھا، ’’بندے کو کم از کم اتنا تو حسّاس ہونا چاہیے کہ وہ بن برسے بادل، اَن سُنی کہانی، ادھورے خط اور بِنا پوسٹ کی چِٹھی کا درد سمجھ سکے۔‘‘ کہتا تھا، ’’تم نے کبھی شبّو سے محبّت ہی نہیں کی۔ محبّت میں واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہوتا۔ محبّت کے قافلے کا اگلا پڑائو، عشقِ حقیقی کے میدان میں ہوتا ہے، کیوں کہ محبّت، پاکیزگی مانگتی ہے اور پاکیزگی صرف فطرت میں ہے یا قُربِ الٰہی میں۔‘‘
دِن کی رات کے طاق میں اب عصر کا چراغ جلنا شروع ہو گیا تھا۔ اُسے تنہا سَر جُھکائے اس طرح سوچتے کئی گھنٹے بیت چُکے تھے۔ اُس نے سَر اُٹھایا اور حیران رہ گیا کہ سامنے سے غافر کینوس اور رنگوں کا کٹورا اُٹھائے چلاآ رہا تھا۔ ’’ارے…احمر! تم یہاں کہاں؟‘‘ غافر خوشی سے چیخااور دونوں بغل گیر ہوگئے۔ ’’تم یہاں کہاں غافر…؟‘‘ ’’احمر! مَیں اُس سماج سے بھاگ آیا ہوں، جس معاشرے میں ہر وجود کے اندر برف کا میزان ہے۔ جہاں مادّہ پرستی کی شب نے اپنے گیسو ہر سُو پھیلا رکھے ہیں، سوچنے والے غدّار ٹھہرائے جاتے ہیں، جہاں جھوٹ کا عنوان سچ ہے، تو زندگی کا مفہوم فطرت سے دُوری اور جہاں بھوک کے خوف نے سب درندوں کو اکٹھا کر رکھا ہے۔ اب مَیں مصوّر بن چُکا ہوں اور یہاں فطرت کے حُسن کو محفوظ کر رہا ہوں۔ مَیں نے یہاں کئی موسموں کی میزبانی کی ہے۔ موسموں اور فطرت کے کینوس سے رنگ لے کر اپنا کٹورا بَھرا ہے اور اب اسی کٹورے سے کینوس پر بنی تصویروں میں رنگ بَھرتا ہوں۔اور تم یہاں کیسے پہنچے احمر…؟‘‘ ’’غافر!میرا کچھ کھو گیا ہے۔مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ مجھ سے کیا گُم ہو گیا ہے، مگر لگتا ہے میرا بہت کچھ کھو گیا ہے، جیون کی طرح قیمتی۔ اب مَیں شہرمیں اپنی جوان اولاد چھوڑ کر، یہاں کچھ فاصلے پر اسی گائوں میں آبسا ہوں۔ شاید اس ویرانے میں مجھے کچھ یاد آجائے۔ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے، جیسے مَیں وہ پنچھی ہوں، جسے مِلوں کا دھواں زہر لگتا ہے۔ کبھی لگتا ہے، مَیں وہ جوانی ہوں، جسے شہر کے کارخانوں نے نگل لیا ہو یا پھر وہ جیون، جسے معاش کے خرکار نے قید کر رکھا ہو۔غافر! تم تو میرے دوست ہو، کیا تم جانتے ہو میرا کیا کھو گیا ہے؟ میری گم شدہ چیز کیا ہے…؟‘‘’’ہاں…!!‘‘ احمر نے حیرانی سے غافر کی طرف دیکھا اور بولا ’’کیا واقعی تم جانتے ہو، میرا کیا کھو گیا ہے، مجھے کس کی تلاش ہے…؟‘‘’’ہاں…مجھے معلوم ہے۔‘‘یہ کہہ کر وہ لمحے بَھر کو رُکا، پھر دھیرے سے بولا،’’ احمر! میری ایک بات ضرور ماننا۔ سب سے بڑے بھید کے بھید کو پانے کے لیے سفر ضرور کرنا۔ اگرچہ بھید کا بھید ملے گا نہیں، مگر اس سفر میں تمہیں صحرائوں سے بھی گزرنا پڑے گا اور جنگلوں سے بھی۔ صحرا کی چاندنی تمھارے اندر کی دُنیا روشن کردے گی، جس سے تم اس کائنات کا حُسن دیکھ سکو گے۔ اور جس جنگل سے تم گزرو گے، وہ صندل کا ہوگا، جو تمھارے وجود کو بھی صندل کردے گا، جس کی خوشبو سے ساری دُنیا مہک اُٹھے گی۔‘‘ ’’ہاں دوست! یہ سفر بھی کرلوں گا، مگر یہ تو بتا دو میرا کیا کھو گیا ہے، میری گم شدہ شے کیا ہے…؟‘‘ ’’لمس…‘‘ ’’لمس…؟؟ مَیں سمجھا نہیں غافر۔‘‘ ’’تم اُس لمس کی تلاش میں ہو، جو تم سے کھو گیا ہے۔ ماں کی گود، اُس کی اُنگلیوں کی پوروں، گائوں کی فطرت، مٹّی، معصومیت، باپ کی شفقت، تمھارے چھوٹے چھوٹے معصوم بچّوں کی پیاری پیاری توتلی باتوں، ننّھے ہاتھوں اور دوستوں کی جھوٹی خفگیوں کا لمس۔ کتنابڑا المیہ ہے احمر، اب خفا ہونے کی رسم بھی باقی نہیں رہی۔ جب منانے کی رسم نہ رہے، تو خفا ہونے کی رسم بھی تاریک گلیوں میں گُم ہو جایا کرتی ہے۔ اب تو بس جینے کی رسم جاری ہے۔ سانسوں کے سلسلے کو اب جیون کا نام دے دیا گیا ہے۔‘‘ ’’غافر! تم صحیح کہتے ہو، میرا لمس کہیں کھو گیا ہے، مجھے واقعی اسی لمس کی تلاش تھی۔‘‘’’احمر! یہ کائنات اللہ رب العزّت کی محبّت کا لمس ہے، جسے صرف وہی محسوس کر سکتا ہے، جو اہلِ دِل ہو۔‘‘ ’’اور غافر! اہلِ دل کی پہچان کیا ہے…؟‘‘ غافر نے اپنا منہ دوسری طرف کرلیا اور آنسو پونچھتے ہوئے بولا،’’اہلِ دِل کی پہچان یہ ہے کہ وہ حوصلہ دیتے ہوئے خود بھی رو پڑتا ہے۔‘‘