• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چند خواتین دوستوں کو کشمالہ طارق کی تصویر لگا کر گڈ مارننگ کا میسج بھیجنے کے بعد اب میں جوابی تبصروں سے لطف اندوز ہو رہا ہوں۔ ایک میسج میں نے اپنی پرانی دوست کشمالہ طارق کو بھی کر دیا ہے تاکہ انہیں احساس ہو کہ یہ ہراسانی نہیں ہے بلکہ گڈ مارننگ یا صبح بخیر کا میسج دراصل دن کے آغاز میں ایک اچھا پیغام ہوتا ہے۔ بعض لوگ تو اس پیغام کے ساتھ دعائیں بھی دیتے ہیں، ایک طرح سے یہ دعا سلام ہوتی ہے، پتا نہیں کشمالہ طارق کے اس فرمان کا اطلاق امریکہ اور یورپ پر بھی ہوگا یا نہیں کیونکہ وہاں تو لوگ صبح سویرے سے لے کر دن گیارہ بجے تک تقریبات میں بھی ایک دوسرے کو گڈ مارننگ کہہ کر ’’ہراساں‘‘ کر رہے ہوتے ہیں۔ کشمالہ طارق نے السلام علیکم کے بارے میں وضاحت نہیں کی، پتا نہیں وہ سلامتی کے اس پیغام کو بھی ہراسانی میں شامل نہ کر دیں۔ خواتین نے اس سنہرے قول پر جو تبصرے کئے ہیں وہ یہاں میں نہیں لکھ سکتا، بس یہی کہہ سکتا ہوں کہ انسان کو سوچ سمجھ کر بولنا چاہئے۔

تبصروں سے یاد آیا کہ آج کل زرتاج گل بھی تبصروں کی زد میں ہیں، اس سلسلے میں سوشل میڈیا پر کافی مباحثے ہو رہے ہیں، خود بھی ایک دو ٹی وی چینلز پر زرتاج گل نے بارشوں اور برف باری کو اچھے حکمرانوں سے تعبیر کیا ہے۔ پہلے تو سوشل میڈیا پر اس بات کی بڑی دھوم رہی کہ جب سے زرتاج گل موسمیاتی تبدیلی کی وزیر بنی ہیں قدرت مہربان ہو گئی ہے، بارشیں بہت زیادہ اور برف باری بھی خوب ہو رہی ہے۔ اب سوشل میڈیا پر زرتاج گل کی خوشگوار گفتگو کے ساتھ ہی ہراسانی کے چند ماہرین نے مولانا طارق جمیل کی گفتگو جوڑ دی ہے ’’ہراسانی‘‘ کے کچھ خاص ماہرین نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ چونکہ زرتاج گل کے وزیر موسمیاتی تبدیلی بننے کے بعد بارشوں کی بارش ہوگئی ہے لہٰذا اب وزیر اعظم پاکستان کو چاہئے کہ وہ اس خوش بخت اور خوش شکل خاتون کو خزانے کی وزیر بنا دیں تاکہ ملک کی اقتصادی حالت بہتر ہو اور ملک پر ڈالروں کی بارش ہو، شاید کچھ لوگوں کو عمران خان کا احساس ہے اسی لئے وہ وزیر خزانہ کی تبدیلی کے لئے کہہ رہے ہیں کیونکہ اگلے دو مہینوں میں خزانے کے وفاقی وزیر کی کارکردگی عثمان بزدار سے بھی گئی گزری ثابت ہونے والی ہے، جن لوگوں کو وزیر خزانہ کی بری کارکردگی کا اندازہ ہے وہ وفاقی حکومت کی اقتصادی ٹیم سے الگ ہو رہے ہیں، کھسکتے جا رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کچھ اس کا اندازہ اسد عمر کو بھی ہو کیونکہ وہ اقتصادی باتیں کرنے کے بجائے سیاسی باتیں کر رہے ہیں تاکہ کوئی بہانہ مل جائے۔ چند سال پہلے میں نے عمران خان سے ان کے’’عالم چنے‘‘ کے ایک معاشقے کا ذکر کیا تو عمران خان ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوگئے، قہقہے لگانے لگے اور مجھے کہا ’’نہیں، وہ تو ایسا آدمی نہیں ہے‘‘۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب برین ہیمرج کا ڈرامہ رچایا جا رہا تھا، خیر میں نے خان صاحب کو لندن میں مقیم خاتون کا نام بتا دیا۔ بعد میں وہ خاتون پاکستان آئیں، پی ٹی آئی میں ہونے کی وجہ سے انہیں خان صاحب سے ملوایا گیا، اب پورا قصہ عمران خان کے سامنے تھا، پھر انہیں یقین ہوگیا کہ وہ ایسا آدمی ہی ہے۔ خاتون نے عشق کا پورا قصہ سنا دیا۔ اس کے بعد مجھے اپنی بتائی ہوئی خبر پر ناز ہوا، میں ابھی سے بتا رہا ہوں کہ عمران خان کے کچھ وزیر کرپشن کی نذر ہونے والے ہیں، ان کا ’’ عالم چنا‘‘ ایل این جی اسکینڈل کا ایک کردار ثابت ہوگا اگرچہ اس میں اور بڑے بڑے کردار سامنے آئیں گے۔

بھارت میں انسانوں کا قتلِ عام تو ہوتا تھا اب وہاں انصاف کا بھی قتل ہو گیا ہے۔ سمجھوتہ ایکسپریس میں ہونے والے دھماکے میں جو جانیں گئی تھیں ، بھارتی عدالت ان جانوں کو پی گئی ہے۔ دنیا کو ظلم پر مبنی اس بھارتی رویے کو دیکھانا چاہئے کہ کس طرح بھارت سرکار کے علاوہ بھارتی عدالتیں دہشت گردوں کا ساتھ دیتی ہیں۔ پاکستان کو یہ معاملات عالمی سطح پر اٹھانے چاہئیں۔ پاکستان کے ریاستی اداروں اور پاکستانی عوام کو ان سیاسی رہنمائوں پر بھی نگاہ رکھنا چاہئے جو پاکستان کی دھرتی پر بیٹھ کر دشمن کی زبان بولتے ہیں۔ پہلے ایک سابق وزیراعظم ممبئی دھماکوں کے سلسلے میں بہت کچھ کہہ گئے، انہوں نے پاک بھارت سرحد کو بھی ایک لکیر قرار دیا۔ ان سے ملاقات کے بعد ایک اور سیاسی جماعت کے نوجوان رہنما نے دشمن کی زبان بولنا شروع کر دی ہے، جسے پاکستانی لوگ ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ آئین اور قانون کی باتیں کرنے والی ان سیاسی جماعتوں کو اس وقت کوئی قانون نظر نہیں آتا جب ماڈل ٹائون میں چودہ افراد کو شہید کر دیا جاتا ہے، انہیں اس وقت بھی قانون یاد نہیں رہتا جب نیب کے دفتر پر دھاوا بولا جاتا ہے، اسلام آباد پولیس کے اہلکاروں کے سر پھوڑے جاتے ہیں، کیمرہ مینوں کو دھکے دئیے جاتے ہیں، انہیں زخمی کیا جاتا ہے۔ کیا جمہوریت میں قانون کا احترام نہیں ہوتا؟

بھارت نے پاکستان کے ساتھ حالیہ کشیدگی کے بعد ٹماٹر بھیجنے بند کئے تھے، پاکستان کے شہر فیصل آباد کے ایک ادارے نے ایسے ہائبرڈ بیج تیار کر لئے ہیں جن سے سارا سال ٹماٹر اگائے جا سکتے ہیں۔ یہاں مزے کی بات یہ ہے کہ ٹماٹروں کی فروخت رکنے کے باعث بھارت کا کسان بہت پریشان ہو گیا ہے۔ بھارتی کسان اپنی حکومت کو کوس رہا ہے۔ بھارت نے پاکستان سے درآمد کی جانے والی مصنوعات پر ٹیکس بہت بڑھایا مگر حیرت ہے کہ نمک پر ٹیکس عائد نہیں کیا۔ بھارت کو سبق سکھانے کے لئے پاکستان کو نمک بھیجنا بند کر دینا چاہئے۔ اس سے بھارت گھٹنوں کے بل گرے گا۔ پورا بھارت ہمارے کھیوڑہ کے گلابی نمک سے مستفید ہوتا ہے۔ بھارت، پاکستان سے نمک منگوا کر اپنی پیکنگ کے ساتھ دنیا بھر میں فروخت کر رہا ہے، یہ نمک اسرائیل بھی جاتا ہے۔ بھارتی اس نمک سے اربوں ڈالر کماتے ہیں جبکہ پاکستان کو صرف چند کروڑ حاصل ہو پاتے ہیں۔ فروخت کرتے وقت بھارت کے مکار ساہوکار کھیوڑہ کے نمک کو ہمالیہ کا نمک قرار دیتے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ گلابی نمک پاکستان کے علاوہ دنیا میں کہیں نہیں پایا جاتا۔ دنیا کے اس صحت بخش نمک سے اس خطے کے لوگ بھی واقف نہیں تھے۔ یہ نمک اس وقت دریافت ہوا جب سکندر اعظم کے گھوڑوں نے کھیوڑہ میں گھاس کھانے کی بجائے پتھر چاٹنا شروع کئے تھے۔ پاکستان کو نمک بطور ہتھیار استعمال کرنا چاہئے۔ ساتھ ہی پاکستان کو لوٹنے والوں سے بھی حساب لیا جانا چاہئے اور اس سلسلے میں کسی بھی قسم کی رعایت کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے کہ بقول سرور ارمان؎

ہمیں اکثر اٹھا کر لے گیا ہے دور منزل سے

خود اپنی ذات ہی کو راہ کی دیوار کر لینا

تازہ ترین