• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’نوری جام تماچی، عمر ماروی اور سسی پنوں‘‘

محمد باسط اللہ بیگ

’’شاہ جو رسالو‘‘ جو 1866ء میں جرمنی میں شائع ہوا، سندھ کے عظیم صوفی شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی کے کلام کا مجموعہ ہے۔ سندھ کے صوفی بزرگ شاہ عبداللطیف بھٹائی 1689ء میں ضلع مٹیاری کی تحصیل ہالا میں پیدا ہوئے۔ شاہ صاحب صوفی گزرگ ہونے کے علاوہ سندھی زبان کے شاعر بھی تھے اور انہوں نے اپنے کلام میں شاعری کے ذریعے اللہ جل شانہ کی محبت کا درس دیا ہے۔آپ کے دیوان کانا م "شاہ جو رسالو"ہے۔جومقبولِ عام وخاص ہے۔

شاہ عبداللطیف بھٹائی کا وصال 1752میں ہوا۔ان کا کلام آپ کے فقرا کو زبانی یاد تھا ۔ان میں ہاشم فقیر، بلال فقیر اور تیمر فقیر اس سلسلے میں معروف ہیں۔ تیمر فقیر نے آپ کے اشعار وافکار قلمبند کیے اور انہیں’’گنج شاہ لطیف‘‘یعنی’’ شاہ لطیف کا خزانہ‘‘ کا نام دیا ۔ آپ کی خادمہ مائی نعمت نے بھی اس کام میں اس کی مدد کی۔ یہ نسخہ تیمر فقیر کے ورثا کے پاس محفوظ رہا۔شاہ صاحب کے وصال کی ایک صدی بعد ایک جرمن دانشور ڈاکٹر أرنسٹ کا برطانوی سرکارکی طرف سے سند ھ میں تقرر کیا گیا۔ وہ یورپی زبانوں کے ساتھ ساتھ سندھی ،پنجابی،بروہی اور پشتو زبانوںپر بھی دس ترس رکھتا تھا۔ا جوگیوں اور گائیکوں کی آواز میں گایا جانے والا شاہ لطیف کا کلام اس پر سحر طاری کردیتا تھا۔ حیدر آباد میںقیام کے دوران اس نے گنج شاہ لطیف کی نقل تیار کی اورریٹائرمنٹ کے بعد جرمنی لے جا کر لیپزگ Leipzig سے شائع کرواکےاسے ’’شاہ کے پیغام‘‘ کانام دیا ۔بعض بنیادی نقائص کے باوجود یہ نسخہ سندھی دانشوروں کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہا ۔اس کی اشاعت کے فوری بعدعلامہ آئی آئی قاضی کی جرمن اہلیہ، ایلسا قاضی نے اس کا انگریزی ترجمہ شائع کرایا۔شاہ لطیف کے مجموعہ کلام کی جرمنی میں اشاعت کے بعد ہی پوری دنیا پر یہ آشکار ہوا کہ ’’شاہ جو رسالو‘‘ وہ عظیم ادبی شاہکار ہے جسے دنیائے ادب میں بجاطور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ اس کا ایک قلمی نسخہ برٹش میوزیم میں بھی محفوظ ہے۔

شاہ عبداللطیف بھٹائی نے اپنے کلام میں سندھ کی محبت بھری، لوک داستانوں کو پیش کر کے انہیں ہمیشہ کے لیے لافانی بنادیا۔ شاہ صاحب، سندھی زبان کے وہ عظیم شاعر ہیں جن کی شاعری کی بدولت سندھی زبان نے بہت ترقی کی۔ ’’شاہ جو رسالو‘‘ کی چند رومانوی لوک داستانوں کا مختصر احوال نذر قارئین ہے۔

’’نوری جام تماچی، عمر ماروی اور سسی پنوں‘‘
کینجھر جھیل کے وسط میں نوری کا مزار

نوری جام تماچی

سمہ دور حکومت میں مشہور حاکم ’’جام تماچی‘‘ کے عہد میں ’’کینجھر جھیل‘‘ کے کنارے بہت سے مچھیرے آباد تھے۔ ان مچھیروں کا رہن سہن عموماً کشتیوں ہی میں ہوتا تھا۔ مرد مچھلیاں پکڑتے تھے اور ان کی عورتیں مچھلیوں کو فروخت کرتی تھیں۔ ایک دفعہ ان مچھیروں کے یہاں ایک نہایت خوبصورت لڑکی پیدا ہوئی۔ لڑکی اتنی حسین و جمیل تھی کہ مچھیروں کی پوری آبادی اسے دیکھنے آنے لگی۔ لڑکی کی جگمگاتی اور پرنورصورت دیکھنے کے بعدبستی کے لوگوں نے فیصلہ کیا کہ اس لڑکی کا نام ’’نوری‘‘ رکھا جائے۔ ’’نوری‘‘ جوں جوں بڑی ہوتی گئی، اس کی خوبصورتی میں اضافہ ہوتا رہا۔ وہ انتہائی حسین و جمیل تھی، اس کے حسن کے چرچے زبان زد عام تھے۔۔

ایک دن ’’جام تماچی‘‘ جسے سیر و شکار کا بہت شوق تھا، اپنی شاہی کشتی میں بیٹھ کر ’’کینجھر جھیل‘‘ کی سیر کر رہا تھا کہ اچانک اس کی نظرنوری پر پڑی اور وہ اس کے حسن سے اتنا متاثر ہواکہ واپس اپنے محل میں آ کر اسی کے بارے میں سوچنے لگا۔ اب نوری کی سادگی اس کی آنکھوں میں گھوم رہی تھی۔ جام تماچی نے فیصلہ کیا کہ وہ ’’نوری‘‘ سے شادی کرے گا۔ ذات پات کے سب بندھن اس کی نظر میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے تھے۔ اس نے ’’نوری‘‘ کے رشتہ داروں کو اپنے محل میں طلب کیا۔ نوری کے سبھی عزیز و اقارب اس خبر کو سن کر بہت ہی خوش تھے کہ ان کا حاکم نوری سے شادی کرنا چاہتا ہے۔

’’جام تماچی‘‘ کے حکم سے، خوشی کے شادیانے بجنے لگے۔ مچھیروں سے جو محصول لیا جاتا تھا، اسے بھی معاف کر دیا گیا۔ غریب مچھیروں کے دن پھر گئے۔ اب وہ مچھیرے عیش و عشرت کی زندگی بسر کرنے لگے۔ نوری شاہی محل میں رہنے لگی۔ نوری اور جام تماچی اکثر شاہی کشتی میں بیٹھ کر کینجھر جھیل کی سیر کرتے اور اسی طرح کی سیروتفریح سے دل بہلاتے۔ شاہی محل میں جام تماچی کی دوسری رانیاں نوری کو حسد سے دیکھتیں کیونکہ نوری کی اہمیت شاہی محل میں بہت بڑھ گئی تھی۔ جام تماچی نے نوری کو مہارانی کا درجہ دے دیا تھا یعنی محل کی تمام رانیوں پر نوری کی اطاعت اور فرماں برداری لازم تھی۔ جام تماچی کو نوری کی سادگی اور معصومیت بہت پسند تھی یہی وجہ تھی کہ نوری، مہارانی کے درجے تک جا پہنچی۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی ’’سرکا موڈ‘‘ میں کہتے ہیں۔

پہلی داستان

ہزاروں عیب وابستہ ہیں مجھ سے

میں اک ملاح کی بیٹی ہوں پیارے

مجھے احساس ہے بے مائیگی کا

کہ مانند تن ماہی ہوں پیارے

کہیں ایسا نہ ہو پھر بے رخی ہو

خبر ہے تجھ کو جیسی بھی ہوں پیارے

کہاں میں اور کہاں محلوں کی رانی

میں اس زمرے میں کب آتی ہوں پیارے

کہاں ذرہ، کہاں خورشید تاباں

’’سمہ‘‘ تو اور میں ’’گندری‘‘ ہوں پیارے

٭ … ٭ … ٭

تماچی جام اور تیرے حضوری

یہ کیا اعجاز ہے اے چشم نوری

رہی باقی نہ کوئی حد فاصل

مٹا دی عشق نے ہر ایک دوری

’’نوری جام تماچی، عمر ماروی اور سسی پنوں‘‘
شہداد پور میں سسی بنوں کی آخری آرام گاہ

سسی پنوں

راجہ دلورائے کے زمانے میں بھانبھر نہر کے کنارے ’’نانیا‘‘ نام سے ایک برہمن رہتا تھا، اس کی بیوی کا نام ’’مندر‘‘ تھا۔ شادی کے کافی عرصے بعد ان کے یہاں ایک خوبصورت لڑکی پیدا ہوئی۔ نجومیوں نے بتایا کہ اس لڑکی کی شادی کسی غیر ہندو سے ہو گی۔ دونوں میاں بیوی اس بدنامی سے بچنے کی تدبیر کرنے لگے۔ ایک دن مجبوراً دونوں میاں بیوی نے اپنی چھوٹی سی لڑکی کو ایک صندوق میں بند کر کے بھانبھر نہر میں ڈال دیا۔ وہ صندوق تیرتے تیرتے شہر بھنبھور کے نزدیک ایک گھاٹ پر آیا جہاں لالہ نامی دھوبی کے ملازم کپڑے دھو رہے تھے۔ لالہ نامی دھوبی سب سے بڑا دھوبی تھا۔ جب اس کے ملازم صندوق کو پکڑ کر لالہ نامی دھوبی کے پاس لے گئے تو لالہ دھوبی حیران ہو گیا کہ اس صندوق میں خوبصورت سی بچی سو رہی ہے۔ عجب اتفاق تھا کہ دھوبی کی کوئی اولاد نہ تھی۔ اس نے شکر ادا کرتے ہوئے بچی کی پرورش بڑے لاڈ و پیار سے کی۔ انہوں نے اس بچی کا نام ’’سسی‘‘ رکھ دیا۔ وقت گزرتا گیا اور سسی بڑی ہو گئی۔ اس زمانے میں ’’کیچ، مکران‘‘ کے قافلے بھنبھور سے گزرتے ہوئے ٹھٹھہ اور دوسرے مقامات سے تجارت کی غرض سے گزرتے تھے۔ قافلے والوں نے بھنبھور میں ’’سسی‘‘ کی خوبصورتی کا ذکر سن رکھا تھا۔ ’’کیچ‘‘ کے حاکم ’’آری جان‘‘ کے بیٹے ’’پنوں‘‘ کو بھی سسی کا پتا چلا۔ پنوں ایک سوداگر کے بھیس میں بھنبھور گھومنے نکلا۔ وہ اپنے ساتھ مشک و عنبر لے کر آیا تھا جس کی خوشبوئوں سے بھنبھور شہر مہکنے لگا۔ سسی کو پتا چلا کہ کوئی سوداگر آیا ہوا ہے، وہ بھی سہیلیوں کے ساتھ مشک و عنبر لینے آئی جہاں اس کی ملاقات پنوں سے ہوئی۔ سسی کی وجہ سے پنوں نے اپنا مسکن بھنبھور کو ہی بنا لیا تھا۔ وہ لالہ دھوبی کے ساتھ کام کرتا۔ اس نے وقت گزرنے کے ساتھ لالہ دھوبی کو منا کر سسی سے شادی کرنے پر آمادہ کر لیا۔ ادھر حاکم آری جام کو اپنے بیٹے کی اس حالت کی خبر ملی تو اسے بہت ہی افسوس ہوا۔ ایک منصوبے کے تحت رات کو جب پنوں گہری نیند سو رہا تھا، تو اس کے بھائی اسے اٹھا کر اونٹوں پر ڈال کر اور رسوں سے باندھ کر کیچ لے گئے۔ جب سسی کی آنکھ کھلی تو پنوں کو بستر پر نہ پایا۔ وہ دیوانوں کی طرح پنوں کو آوازیں لگاتی ہوئی جنگل کی طرف چل نکلی۔ سسی بے بسی اور بے کسی کے عالم میں کیچ کی جانب رواں دواں تھی۔ وہ ٹیلوں اور بیابانوں میں گھوم رہی تھی۔ پنوں کی یاد اسے بے چین کر رہی تھی۔ آنسو رواں تھے۔ آخر تھک ہار کر سسی زمین پر گر پڑی۔ قدرت کو اس کی حالت پر رحم آ گیا۔ زمین پھٹ گئی اور سسی اس میں سما گئی مگر سسی کا دوپٹہ کسی طرح اس سے باہر رہ گیا۔ ادھر پنوں کیچ سے روانہ ہوا۔ راستے میں سسی کا دوپٹہ زمین پر گرا پایا۔ غش کھا کر وہیں گر پڑا۔ زمین پھٹ گئی اور پنوں بھی اس میں سما گیا۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی ’’سرسئی‘‘ میں لکھتے ہیں۔

نہ اب بھنبھور میں آنسو بہانا

نہ باڑھے کی طرف دامن بڑھانا

بڑی مشکل سے ملتی ہے یہ دولت

رموز عاشقی سب سے چھپانا

غم محبوب کے سوز دروں سے

جہاں تک ہو سکے دل کو بچانا

’’نوری جام تماچی، عمر ماروی اور سسی پنوں‘‘
عمر ماروی

عمر ماروی

تھر کے علاقے میں ’’ملیر‘‘ ایک خوبصورت اور سرسبز جگہ تھی جہاں ’’مارو‘‘ قوم آباد تھی۔ یہ قوم ہجرت کر کے کاٹھیاواڑ اور گجرات کے علاقوں سے آ کر آباد ہوئی تھی۔ ’’ملیر‘‘ میں ’’پالنے‘‘ نام کا ایک غریب آدمی اور اس کی بیوی ’’ماڈوئی‘‘ رہتے تھے۔ دونوں میاں بیوی سارا دن محنت مزدوری اور کھیتی باڑی کر کے اپنا پیٹ پالتے تھے۔ پالنے کے گھر اس کی ایک خوبصورت لڑکی بھی تھی جس کا نام ’’ماروی‘‘ تھا۔ ماروی اس قدر حسین تھی کہ دور دور تک اس کا چرچا ہونے لگا۔ ماروی اپنے ایک رشتہ دار سے بچپن ہی سے منسوب ہو چکی تھی جس کا نام ’’کھیت‘‘ تھا۔ ان کے رشتہ داروں میں ’’پھوگ‘‘ نامی ایک شخص تھا۔ اس نے حسد میں آ کر ’’عمر سومرو‘‘ تک رسائی حاصل کی۔ عمر سومرو، عمرکوٹ کا حاکم تھا۔ پھوگ کی زبانی ماروی کے حسن و جمال کا احوال حسن کر عمر سومرو کچھ اس طرح متاثر ہوا کہ وہ ماروی کو حاصل کرنے کا سوچنے لگا۔ آخر ایک دن وہ بھیس بدل کراونٹ پر ملیر کی جانب روانہ ہوا۔ ماروی اہر صبح پنی سہیلیوں کے ہمراہ کنویں پر پانی بھرنے جاتی تھی۔ عمر سومرو پانی پینے کے بہانے کنویں پر آیا اور ماروی کو پانی پلانے کو کہا۔ ماروی جوں ہی پانی پلانے کے بہانے آگے بڑھی، عمر سومرو نے اسے پکڑ کر اونٹ پر بٹھا لیا اور عمرکوٹ کی جانب روانہ ہو گیا۔ وہاں پہنچ کر عمر نے ماروی کو اپنے محل میں نظربند کر دیا۔ ماروی کا روتے روتے برا حال ہو گیا تھا۔ عمر، ماروی کو کہتا رہا کہ تم میری مہارانی بن کر اس شاہی محل میں رہو، میں تمہیںہمیشہ سکھی رکھوں گا مگر ماروی نے عمر کی ایک بات نہ مانی۔ وہ کہتی رہی کہ میں کھیت کی امانت ہوں، میں مر جائوں گی، مجھے ملیر پہنچا دو۔ آخرکار تھک ہار کر مجبوراً عمر نے ماروی کو ملیر پہنچا دیا۔ وہ ماروی کے عزم و ارادے کے آگے بے بس ہو گیا تھا۔ ملیر پہنچنے پر ماروی کے رشتہ داروں نے ماروی پر شک و شبہ ظاہر کیا۔ اب ماروی کو اپنی سچائی اور پاک دامنی کا یقین دلانا تھا۔ آخر یہ طے پایا کہ لوہے کی سلاخ کو انگارے کی طرح سرخ کیا جائے اور اس سرخ سلاخ کو ماروی اپنے ہاتھوں سے اٹھائے۔ جب ماروی نے سرخ سلاخ کو اپنے ہاتھوں میں رکھا تو اسے کسی قسم کا نقصان نہ پہنچا۔ یہ دیکھ کر سب کو یقین ہو گیا کہ ماروی پاک دامن ہے۔ اس وقت یہ منظرکو عمر بھی دیکھ رہا تھا۔ عمر بھی دہکتے شعلوں پر سے ننگے پائوں گزر گیا اور اس نے اپنی سچائی کا ثبوت لوگوں کو دیا۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی نے ’’سرمائی‘‘ میں اس کا ذکر کچھ یوں کیا ہے۔

کیا ہے قید میرے جسم و جاں کو

عبث اے سومرا سردار تو نے

نہ جانے کیوں ہے یہ ایذا رسائی

دیئے کیوں روں کو آزار تو نے

ازل ہی سے مرے دل کو ودیعت

ہوئی ہے پیارے ’’مارو‘‘ کی محبت

(منظوم اردو ترجمہ۔ شیخ ایاز)

تازہ ترین