• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں اِس خواب کی دہائیوں تک آبیاری کرتا رہا کہ نوکری سے ریٹائرمنٹ کے بعد بقیہ زندگی اپنے گاؤں میں گزاروں گا۔ میں اُس دن کا اِس شدت سے انتظار کر رہا تھا کہ میں نے وہ تاریخ بھی معلوم کر رکھی تھی جس دن میں ریٹائرمنٹ کے لئے شرائط پوری کر لوں گا۔ ایک دن بھی ضائع نہ کرنے کے خوف کے باعث میں نے دو سال پہلے سے تیاریاں شروع کر دی تھیں۔ اس کے لئے گاڑی، ٹریکٹر، سولر سسٹم بھی بہت پہلے سے خرید لیا گیا تھا۔ چنانچہ ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد میں گاؤں پہنچ گیا اور اپنے نئے تعمیر کردہ مکان میں رہائش اختیار کر لی۔ ویسے تو ہر روز کوئی نہ کوئی نامعقول مسئلہ پیدا ہو جاتا تھا جس سے میں نبردآزما ہو لیتا تھا لیکن گلی میں بھرا ہوا سیوریج کا غلیظ پانی بہت اذیت ناک تھا۔ میں نے کم از کم تین مرتبہ اپنی جیب سے پیسے خرچ کر کے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی لیکن چند دن گزرنے کے بعد صورت حال پہلے کی طرح خراب ہو جاتی تھی۔ اسی کشمکش میں ایک رات چار بجے کے قریب گلی کے سیوریج کی بدبو سے میری آنکھ کھل گئی اور میں سوچ بچار کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ سیوریج کے مسئلے کا مادی وسائل سے کوئی خاص تعلق نہیں ہے بلکہ یہ سماجی ذہنی ارتقاء کا عکاس ہے۔ یعنی مادی ذرائع وجود میں آبھی جائیں اور ذہنی سطح ان کے استعمال کی استعداد کے قابل نہ ہو تو گلی میں سیوریج کے پانی کا کھڑا ہونا ناگزیر ہے۔ چنانچہ میں دہائیوں سے پالے ہوئے خوابوں کے چکنا چور ہونے کی اذیت لے کر واپس لوٹ آیا۔ یہ قصہ میرے گاؤں کا ہی نہیں پورے پاکستان کا ہے بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ ساری دنیا کا ہے۔

نئی ٹیکنالوجی سے پوری دنیا میں مادی وسائل کی فراوانی کئی ہزار گنا بڑھ چکی ہے لیکن اس کا متقاضی ذہنی ارتقاء سمت معکوس کی طرف بڑھتا نظر آرہا ہے۔ گویا کہ پاکستان اور دنیا کا جسم تو بڑے پہلوانوں کی طرح تنو مند ہو چکا ہے لیکن سر دولے شاہ کے چوہوں کی طرح سکڑ رہا ہے۔ پچھلے چالیس سالوں میں امریکہ اور ہندوستان کی معاشی ترقی کو ذہن میں رکھتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ اور نریندر مودی کے ابھار کو دیکھیں تو یہ نکتہ واضح ہو جاتا ہے۔ عام تاثر کے الٹ پاکستان بھی معاشی اور مادی ترقی میں بہت فاصلہ طے کر چکا ہے لیکن اس کے ریاستی اور سماجی ادارے اس قدر انحطاط کا شکار ہیں کہ وہ چالیس سال پہلے کے سماج کو چلانے کے بھی قابل نہیں ہیں۔ یورپ میں جب انیسویں صدی میں صنعتی انقلاب اپنے پنجے پھیلا رہا تھا تو اس کے ساتھ ہی انسانی ذہنی ارتقاء بھی تیزی کے ساتھ اعلیٰ منزلوں کی طرف رواں دواں تھا۔ گویا کہ دنیا کی معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ فکری افزائش نو کا عمل بھی جاری تھا۔ لیکن موجودہ دور میں معاشی ترقی کی رفتار ماضی کے مقابلے میں کئی سو گنا تیز تر ہے لیکن فکری سطح منجمد ہو کر رہ گئی ہے۔ کئی دہائیوں سے سماجی علوم میں کسی طرح کے بنیادی فکری نظام میں نئی اختراع کا آغاز نہیں ہوا۔ المیہ یہ ہے کہ دنیا کے نظام میں بنیادی تبدیلیاں آچکی ہیں لیکن ان کے بارے میں غور و فکر مفقود ہے۔

اس تجریدی بحث کو ٹھوس شکل میں سمجھنے کے لئے ہم ایک دو مثالیں لے سکتے ہیں۔ مثلاً پرانے زرعی اور صنعتی دور میں زمین یا مادی سرمایے کی مقداری ملکیت سے دولت پیدا ہوتی تھی اور انسانی ذہنی قابلیت ان کے تابع ہوتی تھی لیکن پچھلے چالیس سالوں نے ہزاروں سالوں سے قائم دولت پیدا کرنے کے نظام کو سر کے بل کھڑا کر دیا ہے۔ آج کے دور میں ذہنی سرمایہ کی قیمت سب سے زیادہ ہے۔ دنیا کے امیر ترین اشخاص، بل گیٹس اور جف بیزوس نے صرف ذہنی قابلیت سے دولت پیدا کی ہے۔ یعنی اب ذہنی سرمایہ مادی وسائل کی ملکیت پر سبقت لے چکا ہے۔ اسی تصور کو تھوڑا آگے بڑھا کر دیکھیں اور تصور کریں کہ جب آرٹیفشل انٹیلی جنس (نقلی ذہانت) کے ذریعے تمام کام خود کار مشینیں اور روبوٹ کرنے لگیں گے تو انسان کا پیداوار اور سماج میں کیا کردار ہو گا؟ اس بنیادی تبدیلی سے انسان سے متعلق تمام علوم میں بھونچال آئے گا اور ہر تصور کی نئی تعریف کرنا پڑے گی۔ یہ تو خیر عالمی سطح کی تبدیلیاں ہیں لیکن مقامی طور پر بھی دیکھیں تو ذرائع ابلاغ میں اب لکھنے کی وہ اہمیت نہیں رہی جو بولنے کی ہے۔ لکھنے والوں اور بولنے والوں کی آمدنی کا فرق ایک نئی جہت کا اشارہ کر رہا ہے۔

اب اسی تناظر میں پاکستان کو دیکھیں تو یہ عیاں ہے کہ ملک میں کافی تیز رفتار معاشی ترقی ہوئی ہے، پرانا زرعی نظام ختم ہو رہا ہے اور نیا صنعتی سماج جنم لے رہا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں اجتماعی فکر زرعی نظام کی سطح پر رکی ہوئی ہے اور اس کا عہد حاضر کے تقاضوں سے کوئی تعلق نہیں۔ تاریخی طور پر بھی آج کے پاکستان کی آبادی ستر سال پہلے والے نظام کو چلانے کے تجربے سے بھی محروم تھی۔ ریاستی اداروں اور کاروباری و معاشی سیکٹروں پر ہندو غالب تھے۔ انکے ہندوستان منتقل ہونے کے بعد جو خلا پیدا ہوا اس کو بڑی مشکل سے جیسے تیسے پورا کیا گیا لیکن یہ اب بھی سادہ زرعی معاشرہ تھا، جس میں صلاحیتوں کے خلا کو پُر کرنا اتنا مشکل نہیں تھا جتنا کہ اب ہے۔ اب معاشی اور سیاسی نظام بہت پیچیدہ ہو چکا ہے جس کے لئے زرعی دور کا پیدا کردہ فکری نظام کافی نہیں۔ صرف معاشی عوامل کے زور پر پاکستان جتنی ترقی کر سکتا تھا وہ ہو چکی اور اب آگے بڑھنے کیلئے جس اجتماعی سماجی فکر کی ضرورت ہے وہ ناپید ہے اور المیہ یہ ہے کہ پالیسی سازوں کی اپنی ذہنی سطح بھی اس مقام تک نہیں پہنچی جہاں وہ اس بنیادی مسئلے کا ادراک کر سکیں۔ پہلے گاؤں کے لوگ باہر کھیتوں میں جاکر انفرادی طور پر اپنی حاجات پوری کر لیتے تھے لیکن اب سیوریج کا نظام چلانے کے لئے مختلف طرح کے اجتماعی شعور کی ضرورت ہے۔

تازہ ترین