یہ قصّہ شاید آپ نے بھی سنا ہو۔انقلاب فرانس اور اس سے منسلک وحشت ناک خون خرابے کے بعد کسی نے ایک بڑے پادری سے کہ جو انقلاب کا حامی رہا تھا، پوچھا کہ اس تمام عرصے میں آپ نے کیا کیا؟جواب تھا ’’میں زندہ رہا‘‘یعنی یہ کہ بچ گیا۔گویا ایک پر آشوب زمانے میں اپنے آپ کو قتل ہونے سے یا ہلاک کئے جانے سے محفوظ رکھنا بھی ایک کارنامہ ہے اور وہ بھی سر جھکائے اور رحم کی درخواست کئے بغیر۔ اب ظاہر ہے کہ ہمارے معاشرے کی صورتحال کسی خونی انقلاب جیسی تو بالکل نہیں ہے لیکن فکری اور تہذیبی سطح پر ایک جبر کا سا ماحول ضرور ہے۔انتہاپسندی، عدم برداشت اور تعصّب کے جنونی اظہار کے واقعات مسلسل ہوتے رہتے ہیں۔نیشنل ایکشن پلان کے نفاذ کو چار سال ہو چکے،موجودہ حکومت نے اس پر عمل کرنے کے ایک نئے عزم کا اعلان کیا ہے۔مطلب یہ کہ دہشت گردی،انتہاپسندی اور نفرت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی حکمت عملی اپنائی جائے گی۔کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی بھی اس عمل کا ایک حصّہ ہے۔کہیں کہیں کچھ ہوتا بھی دکھائی دے رہا ہے البتہ انتہاپسندی کی عوامی سوچ کا غلبہ اپنی جگہ قائم ہے۔میرے پاس اس کی ایک اہم اور قابل غور مثال ایک ایسا قتل ہے کہ جس کی خبریں تو شائع ہوئیں اور چند تبصرے بھی لیکن جس نے اس قوم کے ضمیر کو اس طرح نہیں جھنجھوڑا کہ لوگ جان لیں کہ ہم پر کیسا عذاب نازل ہوا ہے۔ حکمرانوں کو تو جیسے اس کی اطلاع ہی نہیں ملی۔کم از کم مجھے تو نہیں معلوم کہ وزیراعظم عمران خان نے اس کا نوٹس لیا ہو اور وہ دوڑ کر مقتول کی تعزیت کیلئے اس کے گھر گئے ہوں اور اس معاملے پر غور کیلئے ایک اعلیٰ سطح کی کانفرنس منعقد کی ہو کہ سب مل کر یہ سوچیں کہ یہ کیا ہوا،یہ کیوں ہوا اور اس قسم کے واقعات کی روک تھام کیلئے کیا کچھ کیا جا سکتا ہے۔میں نے کہا کہ یہ قتل ایک مثال ہے کہ ہمارے نوجوانوں کے اذہان میں انتہا پسندی اور نفرت کی آگ کیسے دہک رہی ہے۔ شاید اس سے بھی زیادہ خوفناک مثال یہ ہے کہ حکمرانوں کو اس واقعہ کی سنگینی کا احساس تک نہ ہوا۔جو پیغام اس قتل میں پنہاں ہے وہ ان تک پہنچا ہی نہیں۔مطلب یہ کہ احساس زیاں بھی جاتا رہا۔
آپ سمجھ گئے کہ میں بھاولپور کے ایک کالج کے انگریزی ادب کے استاد کے قتل کی بات کر رہا ہوں جو ان کے اپنے شاگرد نے خنجر کے پے درپے وار کر کے کیا۔یہ گزشتہ ہفتے کی بات ہے۔ اس ہفتے اس قتل کے بارے میں مزید معلومات سامنے آئی ہیں۔پہلے یہ بتایا گیا تھا کہ قتل کی وجہ وہ ویلکم پارٹی تھی جو ایک دن بعد ہونی تھی اور طالبعلم خطیب حسین کو اپنے استاد پروفیسر خالد حمید سے یہ شکایت تھی کہ وہ اس مخلوط پارٹی کے حق میں تھے۔اب یہ واضح ہوا ہے کہ خطیب حسین کو ان خیالات سے اختلاف تھا جن کا اظہار پروفیسر خالد حمید اپنی کلاس میں کیا کرتے تھے اور یہ بھی کہ اس قتل کا منصوبہ بڑی حد تک ایک مذہبی جماعت سے تعلق رکھنے والے وکیل کی شہ پر بنایا گیا۔ایک انگریزی اخبار میں زیر حراست قاتل کا انٹرویو بھی بدھ کے دن شائع ہوا۔وہ تو اپنے اس کارنامے پر فخر کرتا ہے۔اس کی نظر میں لبرل خیالات رکھنے والے کی سزا موت ہے۔ایسی سوچ کی پرورش میں کن عوامل کا دخل ہے،اسے سمجھنا ضروری ہے۔سوشل میڈیا کا کردار اپنی جگہ،جس مذہبی جماعت سے تعلق کے اشارے ملے ہیں اس نے تو گزشتہ سال کے قومی انتخابات میں بھی حصّہ لیا اور اس کی کافی حمایت بھی ہے۔یہ فیصلہ کیا گیا کہ ایسی جماعتوں کو قومی سیاست کے دھارے میں شامل کیا جائے تاکہ وہ انتہاپسندی اور تشدد کے راستے سے ہٹ جائیں۔اس وقت میں اس نکتے پر بات کرنا نہیں چاہتا۔میرا مسئلہ یہ ہے کہ اگر کسی کالج یا یونیورسٹی یعنی اعلیٰ تعلیم کے کسی ادارے میں بھی آزادانہ گفتگو نہ کی جا سکے کہ جس کا تعلق نصاب سے ہی ہوتا ہے تو پھر اس اعلیٰ تعلیم کے کھڑاگ کی آخر ضرورت ہی کیا ہے۔ آپ کہیں گے کہ ان تعلیمی اداروں کو ہم معاشرے میں سرگرداں زہر آلود ہوائوں سے کیسے بچا سکتے ہیں اور بڑی حد تک یہ بات صحیح ہے۔مشال خان کو اس کے اپنے ساتھی طالبعلموں نے جس طرح قتل کیا،اسے اب دو سال ہونے والے ہیں۔اس کا پیغام بھی ہم سب کو معلوم ہے لیکن شاید حکمرانوں سے اب بھی پوشیدہ ہے۔تعلیم کا تو مقصد ہی سوال پوچھنا،تحقیق کرنا اور نئے خیالات کو پرکھنا ہے۔میں بالکل اندازہ لگا سکتا ہوں کہ پروفیسر خالد حمید انگریزی ادب پڑھاتے وقت کیسی باتیں کرتے ہوں گے۔دوسرے کئی مضامین ایسے ہیں جن کی تدریس میں کئی سخت مقام آ سکتے ہیں۔یہ سالوں پہلے کی بات ہے کہ کراچی یونیورسٹی کی ایک کلاس میں استاد یورپ میں نشاۃ ثانیہ کی تاریخ پڑھا رہا تھا جو چودھویں صدی سے سترہویں صدی تک پھیلی ہوئی ہے اور جب یورپ قرون وسطیٰ کے اندھیرے سے نکل کر آپ کہہ سکتے ہیں کہ ایک نئے زمانے میں داخل ہوا،قدیم علوم کو ایک نئی زندگی ملی اور فلسفہ،ادب اور فنون کی تحریک آگے بڑھی اور رومن کیتھولک کلیسا کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ ہوا یہ کہ ایک طالبعلم کھڑا ہو گیا کہ سر!یہ آپ ہمیں کیا کفر پڑھا رہے ہیں۔ مجھے کسی نے بتایا کہ جب استاد نے اس کی شکایت اپنے وائس چانسلر سے کی تو ان سے کہا گیا کہ ذرا احتیاط کیا کریں۔
وہ جو میں نے افراتفری اور بدنظمی کے عہد میں زندہ رہنے کے کارنامے کا ذکر کیا ہے تو اس پر ذرا غور کریں۔یہ کام کم از کم ان لوگوں کیلئے جو انسانی اور جمہوری آزادیوں کا دفاع کرتے ہیں، کافی مشکل ہے لیکن میرا خیال ہے کہ یہ ضروری بھی ہے۔گو اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ آپ منافقت سے کام لیں اور اپنے ضمیر کا سودا کر لیں۔زندہ رہ کر اپنی جدوجہد کو جاری رکھنا ہی اصل چیلنج ہے۔یہ سچ ہے کہ موجودہ حالات روشن خیال،ترقی پسند افراد کو جینے نہیں دیتے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہر قدم پر کوئی آپ کی نگرانی کر رہا ہے۔صحافیوں کی مشکل یہ ہے کہ انہیں اپنی بات کسی نہ کسی انداز میں کہنا ہی پڑتی ہے۔یہ اپنے آپ پر خود پابندیاں عائد کرنے کا کاروبار ہے۔اگر آپ ٹاک شوز دیکھتے ہیں تو آپ کو معلوم ہے کہ ہمارے ملک میں مکالمے کا معیار کیا ہے اور اس سارے کھیل میں حقائق، دلیل اور اصولوں سے پاس داری کا کتنا خیال رکھا جاتا ہے۔بڑی حد تک سوشل میڈیا کو بھی روایتی میڈیا کی برادری میں شامل کیا جا سکتا ہے لیکن سوشل میڈیا میں ان جانے لوگ ان دیکھے نشانوں پر تیر چلا سکتے ہیں۔گالم گلوچ تو عام بات ہے۔اصولاً ایک استاد کو صحافی سے زیادہ محفوظ ہونا چاہئے کیونکہ وہ ایک پابند ماحول میں اپنے مضمون کے دائرے میں ان نوجوانوں سے مخاطب ہوتا ہے کہ جو شعوری طور پر ترسیل علم کے عمل میں شامل ہوتے ہیں۔لڑکپن میں کسی کالج یا یونیورسٹی میں پڑھانا میرا خواب تھا۔یہ تو اچھا ہوا کہ اپنی آوارگی کے سبب میں اپنی تعلیم ہی مکمل نہ کر سکا۔صحافی بننے کا موقع مل گیا تو اب اس کارزار میں غالب کے ایک فارسی شعر کے حوالے سے ’صحرا میں باغ بانی کا قانون‘لکھنے کی ناکام کوشش کرتا رہتا ہوں۔