• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں قدرت نے فیاضی سے کام لیتے ہوئے اسے تمام قدرتی نعمتوں سے نوازاہے۔ ارض پاک میں ایک جانب بلند و بالا پہاڑ ہیںتو دوسری جانب برفانی چوٹیاں ، لق و دق صحرا ہیں تو ساتھ میں سمندر بھی ہے ۔ صحرا کا لفظ سنتے ہی ہمارے ذہن میں ایک لق و دق ویران خطہ آتا ہے جہاں میلوں دور تک ریت پھیلی ہو، تیز گرم دھوپ جسم کو جھلسا رہی ہو، چاروں طرف کیکر کے پودے ہوں، اونٹ ہوں اور دور کسی نظر کے دھوکے جیسا نخلستان ہو جہاں پانی اور کھجور کے درخت ہوتے ہیں۔

ایسا ہی ایک علاقہ جو تھر پارکر کے نام سے جانا جاتا ہے صوبہ سندھ میں ہے۔ سندھ کے صحرائی علاقے تھر پارکر کے حوالے سے عمومی تاثر یہ ہے کہ صرف بھوک افلاس، قحط، غذائی قلت اور پانی نہ ہونے کی وجہ سے اموات ہی صحرائے تھر کا مقدر ہیں۔ یہ تمام حقائق اپنی جگہ لیکن یہ صرف تصویر کا ایک رخ ہے۔ تھرپارکر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے۔ صحرائے تھردنیا کاساتواں بڑا صحرا ہے۔ اپنی ویرانی، اداسی ،سحر انگیزمناظر اور دیگر خوبیوں کے سبب یہ صحرا اپنی مثال آپ ہے۔

اس جدید دور میں بھی تھرپاکر کے باشندے قدیم دور کے انسانوں کی طرح زمینی حقائق کے برعکس زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ لوگ زمین سے باتیں کرتے ہیں۔ چرند و پرند کی زبان سمجھتے ہیں۔ درختوں سے دوستی کرتے ہیں۔حیرت انگیز سنگ تراش ہیں۔ بہترین کھانا پکانے والے، بہترین ڈرائیور، بہترین کاشت کار اور مزدورہیں۔

مہمان نواز ایسے کہ خود بھوکے رہ لیں گے پر بے زبانوں کو بھوکا پیاسا نہیں رہنے دیں گے۔ قرابت دار ایسے کہ کسی بھی تھری سے پوچھ لو تمھارے گھر میں کتنے لوگ ہیں۔ وہ بتائے گا میری بیوی، چار بچے، ماں، پانچ بکریاں، ایک اونٹ اور سات مرغیاں اور پھر ان کے بارہ چوزے۔

’’تھر پارکر‘‘ سندھ کا انتہائی جنوبی مشرقی ضلع تھا جو رقبے کے لحاظ سے سندھ کا سب سے بڑا ضلع تھا۔ 1993 ء میں میرپور خاص کے نام سے ایک نئی ڈویژن قائم کی گئی جو چار اضلاع پر مشتمل ہے یعنی میرپور خاص ’’سانگھڑ‘‘ عمر کوٹ اور تھرپارکر ۔ نئی انتظامی تقسیم سے پہلے ضلع تھرپارکر دو حصوں میں بٹا ہوا تھا۔ ایک حصہ ’’بیراج زون‘‘ کہلاتا ہے اور یہ سکھربیراج سے نکلنے والی نہروں سے سیراب ہوتا ہے اور یہ ضلع کا شمالی مغرب حصہ ہے۔ د وسرا بارش کے پانی پر انحصار کرنیو الا جنوب مشرقی حصہ جسے ’’ڈیزرٹ زون‘‘ یا ریگستانی علاقے کا نام دیا گیا ہے۔ یہ ’’ ڈیزرٹ زون مزید دو حصوں میں بٹا ہوا ہے یعنی شمال مغربی حصہ جو تھر کہلاتا ہے اور جنوب مشرقی حصہ پارکر کہلاتا ہے۔

تھر کا علاقہ چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں سے مماثل مٹی کے بڑے بڑے تودوں اور ان کے درمیان زمین کے قدرے ڈھلوان یا سطح ٹکڑوں کی شکل میں ہے جبکہ جنوب مشرق میں یہاں ایک پہاڑی سلسلہ بھی موجود ہے جو کوہستان کا رونجھر کہلاتا ہے۔ تا ہم ’’ڈیزرٹ زون‘‘ میں تھر کے علاقے کی نسبت پار کر علاقہ ہے جو محض پندرہ فیصد ہے لہٰذا عام طور پر جب بھی تھر کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے تو اس سے مراد’’ تھر ‘‘اور’’پارکر‘‘ دونوں حصوں پر مشتمل علاقہ ہوتا ہے۔

انتظامی اعتبار سے ’’ڈیزرٹ زون‘‘ دو سب ڈویژنوں میں مٹھی اور چھاچھرو میں تقسیم کیا گیا ہے۔ مٹھی سب ڈویژن دو تعلقوں، مٹھی اور ڈیپلو پر مشتمل ہے جبکہ چھاچھرو سب ڈویژن تعلقہ نگر پارکر اور تعلقہ چھاچھرو میں منقسم ہے۔ سب ڈویژن کا انتظامی سربراہ اسسٹنٹ کمشنر ہوتا ہے جبکہ تعلقہ کا انتظامی سربراہ مختارکار کہلاتا ہے۔ سب ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز مٹھی ٹائون اور چھاچھرو ٹائون میں ہیں جبکہ ڈیپلو اور نگر پارکر ٹائون تعلقہ ہیڈ کوارٹرز ہیں۔ تھر کا شمال مغربی علاقہ تعلقہ عمر کوٹ میں ہے یعنی تعلقہ عمر کوٹ کا کچھ حصہ ’’بیراج زون‘‘ میں ہے اور بیشتر ’’ڈزرٹ زون‘‘ میں ہے۔ ہر تعلقہ دیہوں میں منقسم ہے اور ہر دیھ متعدد گوٹھوں (گائوں) پر مشتمل ہے تعلقہ مٹھی میں 534منظور شدہ گوٹھ میں تعلقہ ڈیپلو میں 775 ، تعلقہ چھاچھرو میں تقریبًا 680تعلقہ نگر پارکر میں تقریبًا 375 اور تعلقہ عمر کوٹ کے ’’ڈزرٹ زون‘‘ میں قریبًا 200 گوٹھ ہیں۔

اس طرح تھر اور پارکر کے منظور شدہ گوٹھوں کی مجموعی تعداد اڑھائی ہزار سے متجاوز ہے۔ حکومت کی جانب سے منظور شدہ گوٹھ قرار دیے جانے کے لئے ضروری ہے کہ گائوں میں کم از کم 10گھر ہوں۔ ایک گوٹھ میں گھروں کی زیادہ سے زیادہ تعداد 100سے 200بھی ہوسکتی ہے۔ اڑھائی ہزار سے زیادہ منظور شدہ گوٹھوں کے علاوہ چھوٹے چھوٹے سینکڑوں دیگر گوٹھ ہیں جو دو چارچھ یا آٹھ گھروں پر مشتمل ہیں اور سرکاری طور پر ’’گوٹھ’’ شمار نہیں کئے جاتے۔ چھوٹے گوٹھ میں بھی کم از کم ایک کنواں ضرور ہوتا ہے ورنہ پھر چھوٹے گوٹھ کسی ایسے نسبتًا بڑے گوٹھ کے قرب و جوار میں واقع ہوتے ہیں جہاں کنواں موجود ہو۔ ضلع تھر پارکر ’’ڈزرٹ زون‘‘ تھر کا مجموعی رقبہ ساڑھے 8ہزار مربع میل ہے۔ ایکڑوں میں یہ رقبہ تقریبًا 54 لاکھ ایکڑ بنتا ہے۔ علاقے سے تعلق رکھنے والے تجربہ کار سرکاری افسران کے محتاط تخمینے کے مطابق تھر میں کنووں کی مجموعی تعداد 10 ہزار سے متجاوز ہے اور اس طرح ہرمربع میل ایک سے زائد یا ہر چار مربع میل میں کم از کم 5کنویں ضرور موجود ہیں۔ 1981ء کی مردم شماری کے مطابق ضلع تھر پارکر کے ’’ڈیزرٹ زون‘‘ تھر کی آبادی 5 لاکھ 71 ہزار 178 تھی جو تقریبًا تین فیصد سالانہ کی شرح سے بڑھ کر اب لگ بھگ 7لاکھ ہوچکی ہے۔ کچھ سیاسی پارٹیاں، لیڈر اور علاقے سے تعلق رکھنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ سرکاری افسر تھر کی مجموعی آبادی تقریبًا 9لاکھ تک باور کراتے ہیں یہاں صرف سرکاری اعداد و شمار ہی نقل کئے جارہے ہیں اور انہی کی بنیاد پر دیگر حساب کتاب کیا گیا ہے۔ گویا سرکاری اعداد وشمار کی روشنی میں تھر میںہر مربع میل میں تقریبًا 82 افراد آباد ہیں۔

مویشیوں کی افزائش نسل کے لیے مشہور ضلع کے1997 کے اعداد شمار کے مطابق تھر میں گائے بیل، بھینسوں، بھیڑوں اور بکریوں کی مجموعی تعداد تقریبًادس لاکھ دسر ہزار ہے گویا ہر مربع میل میں تقریبًا 118 گائیں، بھینسیں، بکریاں اور بھیڑیں وغیرہ ہیں۔ اونٹ، گدھے، گھوڑے، پالتو کتے، بلیاں، مرغیاں وغیرہ اس میں شامل نہیں۔جنگلی جانوروں میں گیدڑ، مور، تتر، فاختائیں سانپ وغیرہ شامل ہیں۔ کبھی کبھی چرخ، جنگلی بلے اور ہرن وغیرہ بھی دکھائی دیے جاتے ہیں۔ سانپ بکثرت ہیں اور ہر سال سانپ کے کاٹنے سے 300سے 400مریض تعلقہ ہیڈ کوارٹرز اسپتالوں سے رجوع کرتے ہیں۔ گویا ایک محتاط اندازے کے مطابق ہر مربع میل میں تقریبًا200پالتو یا جنگلی جانورموجود ہیں۔ تھر میں درجنوں اقسام کے درخت، گھاس، جھاڑیاں، جڑی بوٹیاں اور پودے پائے جاتے ہیں اور بارش ہوجانے کے بعد زیر استعمال راستوں کے سوا زمین کے چپے چپے پر روئیدگی نظر آتی ہے، علاقے سے تعلق رکھنے والے تجربہ کار سرکاری افسران کا اندازہ ہے کہ ہرمربع میل میں تناور درختوں کی تعداد 200سے زیادہ ہے۔ کہیں کہیں تھوہر کے پودے بھی نظر آجاتے ہیں۔ تھر کے ہزاروں گوٹھ کچے راستوں کے ذریعے مربوط ہیںجن کی مجموعی لمبائی ہزاروں میل ہے۔ پختہ سڑک صرف ایک ہے جو نوکوٹ سے مٹھی جاتی ہے۔

بجلی صرف مٹھی ٹائون میں ہے۔ فی کس آمدنی تقریبًا725 روپے سالانہ ہے جو ملک کی سالانہ اوسط فی کس آمدنی کا ایک تہائی ہے۔ لڑکیوں کی شادی دس بارہ برس کی عمر میں کردی جاتی ہے۔ یہاں جرائم کی شرح سندھ کے دیگر شہروں و دیہی علاقوں کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ قتل، اغوا، مجرمانہ حملوں جیسے جرائم شاز ونادر ہوتے ہیں۔ چوری چکاری بالکل نہیں۔ مویشی مزے سے جنگل میں چرتے ہیں اور جب پیاس لگے گائوں کو لوٹ آتے ہیں۔ تھر میں 20سے 40فٹ کی گہرائی پر پانی نکل آتاہے۔ خواہ ’’بھٹ‘‘ (ٹیلے) پر کنواں کھودیں یا کسی اورجگہ پر پانی نکل آئے گا۔ چونکہ بارش بہت کم ہوتی ہے اور بعض اوقات تین تین برس نہیں ہوتی اس لئے زیر زمین پانی کی مقدار کم ہوگئی ہے۔ اونٹ یا بیل سے پانی کھینچنا شروع کریں تو دو چار گھنٹے کے بعد کنویں میں پانی کی سطح اتنی گرجاتی ہے کہ ڈول میں پانی نہیں آتا۔ پھر کئی گھنٹے انتظار کرنا پڑتا ہے کہ پانی کی سطح معمول پر آجائے لیکن یہ کنویں زیر زمین پانی کے صرف ان ذخائر تک کھودے جاتے ہیں جو بہت کم گہرائی پر واقع ہیں۔

تھر کے صحرا میں رہنے کے لئے بنائی جانے والی جھونپڑی کو ’چنرے‘ کہا جاتا ہے۔ یہ 10 سے 12 فٹ کے دائرے میں گندم کے بھوسے میں ٹاٹ یا روئی ملے مٹی کے گارے سے گول دیوار نما شکل میں تیار کیا جاتا ہے، گول دیوار کے اوپر لکڑیوں سے فریم بنایا جاتا ہے، اور پھر فریم کے اوپر صحرائی گھاس کی چھتری نما چھت بنا کر آہنی تار یا رسی سے باندھ دیا جاتا ہے۔ 

تازہ ترین