• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:آصف نسیم راٹھور…بریڈفورڈ
چار اپریل 1979پاکستان اور دنیا بھر میں بسنے والے جیالے اور جمہوریت پسند عوام کیلئے ایک ایسا منحوس اور بدترین دن تھا جسے تاریخ میں ایک سیاہ ترین دن کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اگر آپ جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں تو لازمی آپ اس عدالتی فیصلے کی مذمت کریں گے جو لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس مولوی مشتاق اور سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس انوارالحق نے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کرنے کے لئے پھانسی دینے کا غلط فیصلہ دیا تھا۔ چار اپریل 1979کو بھٹو کو پھانسی دے دی گئی، جو ایک بدترین عدالتی قتل تھا، جس کے ذمہ داران میں فوجی آمر جنرل ضیاء الحق، مولوی مشتاق اور انوارالحق شامل تھے۔ ذوالفقارعلی بھٹو کا قصور یہ تھا کہ وہ مسلم ممالک اور تیسری دنیا کا ہیرو تھا کیونکہ امریکی سامراج کو اس طرح کے اور خاص کر تیسری دنیا کے وہ رہنماء بالکل پسند نہیں آتے جو دنیا کے طاقتور ترین سامراج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک موقع پر سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے بھٹو کو کہا تھا کہ ایٹمی پروگرام ختم کر دیں ورنہ بھٹو صاحب آپ کیلئے اچھا نہیں ہو گا کھلے عام سزا دینے کی دھمکی دی تھی۔ چار اپریل 1979کے سیاہ دن کے حوالے سے مجھے یہ لکھنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ ذوالفقار علی بھٹوکو قتل کرنے اور تختۂ دار تک پہچانے میں غیر مُلکی طاقتیں اور اس میں پاکستان کا مُلک پر قابض حکمران ٹولہ، منصف ججوں اور جماعت اسلامی نے تاریخ کا بدترین کردار ادا کیا۔ پاکستان کی عدلیہ کبھی بھی غیر جانبدار نہیں رہی، عدلیہ کے بہت زیادہ فیصلے اور خاص کر سیاسی فیصلے ہمیشہ نظریہ ضرورت کے تحت ہوئے ہیں، سب سے پہلے جسٹس منیر کا وہ فیصلہ آیا جس میں گورنر جنرل غلام محمد کےغیر جمہوری فیصلے کو نظریۂ ضرورت کی چھتری تلے جائز قرار دیا گیا تھا۔ پاکستان کے عظیم محسن سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی عدالتی قتل کہلاتی ہے 1977میں ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی منتخب حکومت پر شب خون مارا اور مُلک پر قابض ہوگیا لیکن بھٹو کی شہرت اور عوام کی اُن سے بے پناہ محبت دلوں سے نہ چھین سکا، اس لئے بھٹو کا وجود ہی ختم کرنے میں اپنی عافیت جانی۔ اقتدار پر قبضے کے بعد چیف جسٹس یعقوب علی خان کو گھر میں نظر بند کر کے جبری رخصت پر بھیج دیا اور جسٹس انوارالحق کو ستمبر 1977ء میں سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بنا دیا۔ لاہور ہائی کورٹ نے 18مارچ 1978کو بھٹو صاحب کو پھانسی دینے کا فیصلہ سنایا بعد میں چیف جسٹس انوارالحق کے سپریم کورٹ نےبھی بھٹوصاحب کی پھانسی کی سزا برقرار رکھی اور 4اپریل 1979کی صبح بھٹو صاحب کو سرکاری طور پر پھانسی دینے کا پی ٹی وی کے ذریعے اعلان کیا گیا۔ سپریم کورٹ کی بھٹو صاحب کو پھانسی دینے والے بنچ میں جسٹس نسیم حسن شاہ بھی شامل تھے۔ 17 اگست 1988کو جنرل ضیاءالحق ایک فضائی حادثے میں مارا گیا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد مولوی مشتاق کو ہر وقت موت کا خوف طاری رہتا تھا، مرنے سے قبل ایک پرُ اسرار بیماری میں مبتلا ہوگیا تھا۔ جس دن مولوی مشتاق زندگی کی قید سے آزاد ہوا،اس کے جنازے پر شہد کی مکھیوں نے حملہ کر دیا تھا۔ اخبارات میں شائع ایک تصویر کے نیچے لکھا ہوا تھا کہ بھٹو شہید کو سزا دینے والے جج مولوی مشتاق کی میت لاوارث پڑی ہے۔ مولوی مشتاق کے جنازے پر شہد کی مکھیوں نے اتنا شدید حملہ کیا تھا کہ آخری رسومات میں شامل لوگ جنازہ چھوڑ کر بھاگ گئے تھے 21مارچ 1978کو ذوالفقار علی بھٹو نے جیل سے عدالت کو کہا تھا ’’میرا خدا جانتا ہے کہ میں نے اس آدمی کا خون نہیں کیا، اگر میں نے اس کا ارتکاب کیا ہوتا تو مجھ میں اتنا حوصلہ ہے کہ میں اس کا اقبال کر لیتا اور اقبال جرم اس وحشیانہ مقدمے کی کارروائی سے کم اذیت دہ اور بے عزتی کا باعث ہوتا۔ میں مسلمان ہوں اور ایک مسلمان کی تقدیر کا فیصلہ اس ذات مطلق کے ہاتھ میں ہوتا ہے، میں صاف ضمیر کے ساتھ اس کے حضور پیش ہو سکتا ہوں اور اس سے کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اس مملکت اسلامیہ پاکستان کی راکھ کے ڈھیر سے دوبارہ ایک باعزت قوم اور معاشرہ کی تعمیر کی ہے۔ میں آج کوٹ لکھپت کے اس ’’بلیک ہول‘‘ میں اپنے ضمیر کے ساتھ مطمئن ہوں ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے حوالے سے واقعات و حادثات اب پاکستان کی قومی تاریخ کا حصہ ہیں‘‘۔ انصاف کے قتل کے اس تاریخی مقدمے کے دیگر تمام کردار بھی دنیا سے رخصت ہو کر اس آخری عدالت میں پہنچ چکے ہیں جہاں انصاف کا قتل نہیں بلکہ انصاف ہو گا۔ جسٹس نسیم حسن شاہ نے اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد یہ بات تسلیم کی کہ بھٹو کوپھانسی دینے کا فیصلہ دباؤ کا نتیجہ تھا، نسیم حسن شاہ نے یہ بھی کہا تھا کہ سابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ مولوی مشتاق کو یہ مقدمہ نہیں سننا چاہیے تھا۔ نسیم حسن شاہ نے یہ بھی تسلیم کیا کہ بھٹو کے مقدمہ میں شک کا فائدہ انھیں ملنا چاہیے تھا۔ نسیم حسن شاہ کے اس اعترافی بیان کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کو قانونی تہذیب اور وجود کے قتل سے کم نہیں سمجھا جائے گا اور ہر جمہوریت پسند کے نزدیک یہ عدالتی نظام کے غلط استعمال کا ایک ناقابل تلافی واقعہ تھا۔ تاریخ کا ایک اور دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ 23مارچ 1931کوکوئی مجسٹریٹ بھگت سنگھ کی پھانسی کے وقت وہاں کھڑا ہونے اور موت کے سرٹیفکیٹ پر دستخط کرنے کےلئے تیار نہیں تھا۔ ایک آنریری مجسٹریٹ نے یہ کام کیا تھا اور وہ مجسٹریٹ نواب محمد احمد قصوری تھا، جو اُسی جگہ قتل ہوا، جہاں بھگت سنگھ کو پھانسی دی گئی تھی۔ اور یہی نواب محمد احمد قصوری اپنے ہی قتل کے الزام میں اپنے عہد کے ایک اور بھگت سنگھ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا سبب بنا۔ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل میں جنرل ضیاء الحق کے ساتھ جماعت اسلامی بھی شامل تھی جماعت اسلامی کے امیر میاں طفیل محمد، آمر ضیاءالحق اورانوارالحق تینوں کا تعلق جالندھر سے تھا مگر ایک تعلق اس میں اور بھی زیادہ مضبوط تھا اور وہ تھا بھٹو دشمنی کا، جس میں مولوی مشتاق اور نسیم حسن شاہ بھی شامل تھے۔ بھٹو پھانسی پا کر تاریخ میں شہید کہلایا جبکہ ضیاءالحق اور اس کے ساتھیوں کی پہچان قاتلوں کی ہے، آج نہ کوئی مولوی مشتاق کو جانتا ہے اور نہ ہی انوارالحق کو، اور نہ ہی میاں طفیل محمد کا تاریخ میں کوئی مقام ہے مگر ذوالفقار علی بھٹو عدالتی قتل کے بعد پاکستانی تاریخ کا ایک مضبوط کردار بن چکے ہیں۔
تازہ ترین