زاہد گشکوری
اسلام آباد :… جعلی اکاؤنٹس کیس میں اہم ملزمان میں سے ایک نے سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے سے انکار کردیا۔ اس اقدام نے بظاہر احتساب عدالت میں دائر پنک ریذیڈنسی ریفرنس سے متعلق ثبوتوں کے اکٹھا کرنے پر مشترکا تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) اور قومی احتساب بیورو (نیب) کے درمیان سنجیدہ اختلاف رائے کو نمایاں کردیا ہے۔ نیب نے آصف علی زرداری کو پنک ریذیڈنسی کیس میں نامزد نہیں کیا جبکہ جے آئی ٹی نے اسے سابق صدر کی فرنٹ کمپنی قرار دیا تھا اور زرداری کے ساتھ ساتھ دیگر ملزمان خصوصاً یونس قدواوی کے خلاف ریفرنس کی سفارش کی تھی۔ نیب کے سینئر عہدیدار نے انکشاف کیا کہ قدواوی کے بھائی عبد الجبار نے زرداری کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے سے انکار کردیا ہے، وہ پنک ریذیڈنسی کیس میں اہم ملزم ہیں، جے آئی ٹی کی سفارشات لازم نہیں، ہمیں اپنی تحقیقات کی بنیاد پر اس کیس کی پیروی کرنا ہوگی لیکن آنے والے مہینوں میں ایک ضمنی ریفرنس داخل کیا جاسکتا ہے۔ نیب ریفرنس کے مطابق رحمت اللہ کے بیٹے عبد الجبار پنک ریذیڈنسی حاصل کرنے والے افراد میں سے ایک ہیں جنہوں نے 7 ایکڑ اراضی اسلم قریشی سے حاصل کی اور 23 جون 2017 کو منتقلی کی دستاویز پر دستخط کئے۔ انہوں نے ڈپٹی کمشنر کو 8 دسمبر 2017 کو درخواست بھی جمع کرائی۔ ڈسٹرکٹ ملیر کراچی نے حقوق کے ریکارڈ میں تصحیح کرنے کیلئے درخواست کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ زیر بحث اراضی کو دیہہ صفورا کے بجائے دیہہ مہران ون کے وی ایف ٹو میں غلط طور پر بدلا گیا۔ انہوں نے فرنٹ مین ہونے کے ناطے اور اپنے بھائی کی ایماء پر اپنے دیگر ملزمان ساتھیوں کے ساتھ جانتے بوجھتے ہوئے مذکورہ اراضی کی غیرقانونی ریگولرائزیشن میں مدد کی اور ترغیب دی جو انہیں مذکورہ اراضی کو کرپٹ، بد نیتی اور غیرقانونی ذرائع سے حاصل کرنے کے بے نامی مالکان میں سے ایک بناتا ہے۔ جے آئی ٹی نے اپنی حتمی رپورٹ بعنوان ’پنک ریذیڈنسی کا کردار گلستان جوہر میں سات ایکڑ اہم شہری ریاستی اراضی کی خیانت‘ (آصف علی زرداری کی ایک فرنٹ کمپنی) جہاں تحقیقات کرنے والوں نے دعویٰ کیا کہ سابق صدر نے اس کمپنی میں اہم کردار ادا کیا۔ یونس قدواوی نے اہم کھلاڑی ہونے کے ناطے اسلم قریشی کے ساتھ پنک ریذیڈنسی کی جانب سے 7 ایکڑ اراضی سے متعلق 17 ستمبر 2017 کو فروخت کے معاہدے پر دستخط کئے جو ایک پارٹنرشپ فرم ہے اور ان کے بھائی ملزم عبد الجبار کے نام پر رجسٹرڈ ہوئی۔ اس کے علاوہ انہوں نے اسلم قریشی کو 67 ملین روپے ادا کئے جس میں سے 35.4 ملین روپے سے زائد کی رقم کئی چیکس کے ذریعے ادا کی گئی جنہیں اے ون انٹرنیشنل، ابراہیم لنکرز اور عمیر ایسوسی ایٹس کے جعلی یا بے نامی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے جاری کیا گیا تھا۔ اس وقت کے ڈپٹی کمشنر ڈسٹرکٹ ملیر کراچی سید علی نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا اور 21 اکتوبر 2016 کو انٹری نمبر 491 پر پچھلے نوٹس کے ختم کرنے کیلئے 16 مئی 2017 کو آرڈر پاس کرکے غیرقانونی حمایت کی اور غیرقانونی طور پر ریگولرائزڈ اراضی کی فروخت کیلئے نو آبجکشن سرٹیفکیٹ جاری کرنے کی راہ ہموار کی۔ انہوں نے صورتحال کو برقرار رکھنے کیلئے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلوں کی بھی خلاف ورزی کی۔ ریفرنس میں اس وقت کے سیکریٹری لینڈ یوٹیلائزیشن ڈپارٹمنٹ سندھ ملزم آفتاب میمن کا نام بھی ہے۔