اسلا م آباد ( تنویر ہاشمی )وزیر خزانہ اسد عمر کو عہدے سے ہٹانے کی خبریں کئی دنوں سے گردش میں تھیں، کہا جاتا ہے اس کا سبب ملکی معیشت کے حوالے سے اہم فیصلوں میں تاخیر ، مہنگائی میں اضافے ، روپے کی قدر میں کمی ، مجوزہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سمیت دیگر معاشی فیصلوں پر گرفت نہ ہونا ہے، لیکن وفاقی بجٹ سے محض ایک ماہ قبل اور آئی ایم ایف سے قرضہ پروگرام کیلئے جاری مذاکرات جو نتیجہ خیز مرحلے میں داخل ہو چکے تھے ایسے وقت میں اسد عمر کو ہٹاناوزیراعظم کا مشکل ترین فیصلہ قرار دیا جارہا ہے ، معاشی ماہرین کے نزدیک عالمی مالیاتی اداروں نےپیش گوئی کی کہ آئندہ چند برسوں میں بھی پاکستان کی اقتصادی شرح نمو سست روی کا شکار رہے گی ،آئی ایم ایف کے مطابق توانائی کی قیمتوں ، میکرو اکنامک چیلنجز اور اصلاحات پر مکمل عملدرآمد نہ ہونے سے پاکستانی معیشت بری طرح متاثر ہے ،مہنگائی اور بےروزگاری کی شرح میں اضافے کی پیش گوئی کی گئی جو کہ اسد عمر کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے ، اس حوالے سے کہا جاتا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کو جو معیشت ورثے میں ملی تھی اس کو آٹھ ماہ کے قلیل عرصے میں بحران سے نکالنا ممکن نہیں تھا دوسری جانب تحریک انصاف کے مختلف دھڑوں میں کشمکش کوئی ڈھکی چھپی نہیں ۔سابق سیکریٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود نے جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایک ایسے مرحلے پر جب بہت سے معاملات پٹری پر آگئے تھےاور آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے ہو چکے تھے اور بجٹ آنیوالا ہے ایسا فیصلہ معاشی عمل میں مزید تعطل پیدا کرے گا۔