• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 محمد رضوان سعید نعمانی

آپ ﷺ نے فرمایا:"شعبان میرا مہینہ ہے ، اور رمضان اللہ جل شانہ کا مہینہ ہے "۔(فيض القدير للمناوی)

اس حدیث میں آپ ﷺ نے شعبان کے مہینے کی نسبت اپنی طرف اور ماہِ رمضان کی نسبت اللہ جل شانہ کی طرف کی ہے۔ علامہ "عبد الرؤف المناوی متوفیٰ 1031ھ" اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے رقمطرازہیں:"اللہ رب العزت کی طرف سے ماہِ رمضان کا روزہ زمانہ قدیم سے بطور عبادت مشروع ہے ،ہر امت پر اس کے روزےفرض رہے ہیں۔رہا شعبان کا مہینہ تو اس کے روزے سب سے پہلے آپﷺ نے شروع فرمائے، اسی لیے آپ ﷺ نے اس مہینے کی نسبت اپنی طرف فرمائی۔"(فیض القدیر :4/166)

شعبان المعظم بہت ہی بابرکت اورانتہائی فضیلت والا مہینہ ہے ۔ اس کے بابرکت ہونے کی ایک وجہ آپ ﷺ کا یہ عمل بھی ہے کہ آپ ﷺاس ماہ، رمضان کے مہینے کی تیاری فرماتے تھے اور آپﷺ کے نزدیک رمضان کے روزوں کے بعد افضل ترین روزے شعبان کے ہیں جو رمضان کی تعظیم (اس کی تیاری )کےلیے رکھے جاتے ہیں۔(سنن الترمذی)

روایات سے معلوم ہوتاہے کہ آپ ﷺ کبھی شعبان کا پورا مہینہ روزے رکھتے تھے اور کبھی پہلے پندرہ دن۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سےمنقول ہے،میرا خیال ہے کہ آپ ﷺ شعبان کے زیادہ تر دنوں میں بلکہ پورے مہینے میں دوسرے مہینوں کی بہ نسبت زیادہ روزے رکھتے تھے"۔(سنن ترمذی)

بعض روایات میں نصف شعبان کے بعد روزے رکھنے کی ممانعت بھی آئی ہے ۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے ، شعبان کاآدھا مہینہ باقی رہ جائے تو روزے نہ رکھو"۔(سنن ترمذی)

علمائے کرام نے دونوں طرح کی روایات کے درمیان تطبیق کی کئی صورتیں ذکر کی ہیں۔ آخر شعبان کے روزوں سے منع فرمانابھی دراصل رمضان کے روزے کی تیاری کا ایک اور موقع دینا ہے کہ مسلسل روزے رکھ کر کہیں ایسا نہ ہو کہ انسان کمزور ہوجائے اور اللہ کے فرض روزوں میں کوئی کوتاہی واقع ہوجائے۔

یہاں تک تو آپ ﷺ کا رمضان کےروزوں کی تیاری کے سلسلے میں عملی نمونے کا تذکرہ ہے ۔رمضان کی ایک عبادت "قیام اللیل " صلاۃ التراویح "بھی ہے ۔اس کے عملی نمونے اور پیش ازوقت پریکٹس کے لیے آپ ﷺ نے پندرہ شعبان کی رات کا انتخاب فرمایا، اس کی ترغیب آپ ﷺ نے اپنے قول اورفعل دونوں سے دی ہے "اس رات (شب برأت) میں قیام کرو (نوافل پڑھ کر ) اور اس کے دن میں روزہ رکھو"۔(سنن ابن ماجہ)

تاہم شب برأت کایہ قیام انفرادی ہے کہ ہر کوئی اپنے گھروں میں جتنی نفلی اور انفرادی عبادت کرسکتاہے کرے اور نوافل میں رکعتوں کی کوئی تعداد مخصوص نہیں اور نہ ہی خاص سورتوں کی تلاوت کی کوئی حیثیت ہے ۔جتنی رکعتیں ممکن ہوں،جہاں سے جتنی تلاوت کرسکتاہے، کرے ۔

یہی حدیث مذکورکا پیغام ہے کہ ہم شعبان کے اس بابرکت مہینے کی بابرکت ساعتوں کو ضائع نہ کریں، یہ رمضان کے مہینے کی تیاری کا سنہری موقع ہے، اس میں ہمیں آپ ﷺ کی طرح روزوں اور قیام اللیل کی عملی مشق کرنی چاہیے اور رمضان کی نیک ساعتوں کو دنیاوی مشاغل سے بچانے کےلیے اسی مہینے میں ہی مالی معاملات ،لین دین سے عہدہ برآ ہونا چاہیے اور زکوٰۃ بھی ادا کردینی چاہیے ۔اس مہینے میں زکوٰ ۃ نکالنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے غریب تک اس کا حق بروقت پہنچ جائے ،تاکہ وہ بھی یکسوئی اور دل جمعی سے رمضان کی نیک ساعتوں سے مستفید ہو سکے ۔

تازہ ترین