• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ترکی جو ستّر کی دہائی سے دہشت گردی کا شکار ہے اور اس وقت سے اب تک چالیس ہزارافراد اس کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں،آخرکار امن کے آثار واضح ہونا شروع ہوچکے ہیں۔ ترکی جہاں پر ہمیشہ ہی دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کرنے کو گناہ کبیرہ سمجھا جاتا رہا ہے اب حالات اس ڈگر پر آچکے ہیں کہ ایردوان حکومت کو ان دہشت گردوں کو بھی امن کے دھارے میں شامل کرنے کے علاوہ کوئی چارہ کار باقی نہیں بچا ہے۔ ایردوان حکومت نے اس سے قبل بھی دہشت گردوں کے سرغنہ عبداللہ اوجالان سے بلواسطہ مذاکرات کئے تھے لیکن اپوزیشن جماعتوں کے شدید احتجاج اور مظاہروں کی وجہ سے اپنے اس فیصلے کو واپس لینے پر مجبور ہوگئی تھی اب دوبارہ حزبِ اختلاف کی جماعت ری پبلیکن پیپلزپارٹی کی حمایت حاصل کرنے کے بعد نئے سرے سے مذاکرات شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاہم ابھی بھی ایک دیگر قوم پرست جماعت نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی ان مذاکرات کی مخالفت کررہی ہے اور ایردوان پر تابڑ توڑ حملے کررہی ہے۔
ترکی میں دہشت گردی کا سلسلہ 1974ء میں عبداللہ اوجالان کی قیادت میں قائم کردہ جماعتPKK (پارٹی کار کرئین کردستان یا پھرکردستان لیبر پارٹی) کے ابتدائی دنوں ہی میں شروع ہوگیا تھا۔ اس پارٹی کے قیام کا مقصدترکی کے مشرقی اور جنوب مشرقی، عراق کے شمالی، شام کے شمال مشرقی اور ایران کے شمال مغربی علاقوں کو جہاں کرد النسل باشندے اکثریت میں آباد تھے کو ملا کر ایک الگ وطن بنانا تھا اور اس سلسلے میں سب سے پہلے ترکی جہاں پر جمہوریت موجود تھی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کارروائی کا آغاز کیا گیا۔ اسی دوران اس جماعت نے ترکی کو صوبوں میں تقسیم کرنے، مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے کا حق حاصل کرنے اور وحدانی سسٹم کی جگہ وفاقی سسٹم قائم کرنے کے مطالبات پیش کردیئے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس پارٹی کے مطالبات میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا گیا اور پھر اس جماعت نے اپنے مطالبات منوانے کے لئے طاقت اور ہٹ دھرمی کا سہارا لیا۔ اسّی اور نوّے کی دہائی میںPKKنے ترکی بھر میں اور غیر ممالک میں ترکوں کو ہدف بنانا شروع کر دیا۔ دراصل اس سے قبل آرمینی نسل پرست جماعت آرسلا نے غیر ممالک میں ترک سفارت کاروں کو قتل کرنے کا جو سلسلہ شروع کیا ہوا تھا وہ ذمہ داری اب پی کے کے نے سنبھال لی تھی اور اس وقت سے اس دہشت گرد تنظیم پی کے کے نے ترک باشندوں کو اپنا ہدف بنانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔
دہشت گرد تنظیم پی کے کے کو اس وقت قوت حاصل ہوئی جب 1979ء میں شام کے صدرحافظ الاسد نے اس تنظیم کے سرغنہ عبداللہ اوجالان کو اپنے ملک میں پناہ دی اور پھر عبداللہ اوجالان نے حافظ الاسد کی اجازت سے لبنان کی وادی بقا میں دہشت گردی کے کیمپ قائم کرلئے جہاں کردالنسل لوگوں کو ورغلا کر دہشت گردی کی ٹریننگ دی جانے لگی اور اس طرح یہ دہشت گرد تنظیم شام کی مدد سے قوت پکڑتی چلی گئی اور شام اور ترکی کے درمیان تعلقات بھی خراب سے خراب تر ہوتے چلے گئے۔ 1998ء میں مصر کی جانب سے کی جانے والی ثالثی کی کوششیں کامیاب ثابت ہوئیں اور 19/اکتوبر کو شام کے وزیر خارجہ امر موسیٰ نے انقرہ آتے ہوئے شام کی جانب سے عبداللہ اوجالان کو ملک بدرکئے جانے سے آگاہ کر دیا۔ عبداللہ اوجالان کے شام سے نکالے جانے کے بعد ترکی کی خفیہ سروسMIT نے اس دہشت گرد کو گرفتار کرنے کے لئے اپنی کوششوں کا آغاز کردیا اور اسے سی آئی اے کے تعاون سے کینیا کے دارالحکومت نیروبی سے ہالینڈ جاتے ہوئے ہوائی اڈے کے قریب بڑے ڈرامائی انداز سے گرفتار کرلیا اور پھر ایک خصوصی طیارے کے ذریعے اسے ترکی لایا گیا۔عبداللہ اوجالان کی گرفتار ی پر ترکی بھر میں خوشی کا اظہار کیا گیا اور بلنت ایجوت حکومت جو کہ اپنی ساکھ کھوچکی تھی راتوں رات اس کی عزت، مقبولیت اور شہرت میں اس قدر اضافہ ہو گیا کہ اقتدار سے محروم ہونے کے خطرے سے دوچار یہ جماعت دوبارہ برسر اقتدار آگئی۔ اس دوران عبداللہ اوجالان پر خصوصی عدالت میں مقدمہ چلاتے ہوئے29 جون 1999ء میں پھانسی کی سزا سنا دی گئی لیکن بعد میں متحدہ امریکہ اور یورپی یونین کے دباؤ اور ترکی کی یورپی یونین کی رکنیت حاصل کرنے کے دائرہ کار اور شرائط کا خیال رکھتے ہوئے پھانسی کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کردیا گیا۔
ترکی جب دہشت گردی کا شکار تھا تو کسی بھی یورپی ملک نے اس دہشت گردی پر قابو پانے میں ترکی کی مدد نہیں کی بلکہ ترکی کو اس بات پر بھی یقین ہے کہ کئی ایک یورپی ممالک اس دہشت گرد تنظیم کی پشت پناہی بھی کرتے رہے اور ان ممالک کی جانب سے مالی طور پر بھی اس دہشت گرد تنظیم کی مدد کی جاتی رہی ہے اگر کسی ملک نے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ترکی کی مدد کی ہے تو وہ بلاشبہ پاکستان ہی ہے۔اسی لئے ترکوں کے دلوں میں پاکستان کو الگ ہی مقام حاصل ہے۔ پاکستان نے اس موقع پر جب یورپی ممالک نے ترکی کو اسلحہ فراہم کرنے پر پابندی لگا دی تھی ترکی نے دہشت گردوں سے نمٹنے کے لئے پاکستان ہی سے حاصل کردہ اسلحے اور گولہ بارود کو استعمال کیا تھا۔
موجودہ دور میں دہشت گرد تنظیم پی کے کے کا یہ سرغنہ استنبول کے قریب ایک چھوٹے سے جزیرے میں قید تنہائی میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے تاہم حکومت نے ریڈیو فراہم کرنے کے علاوہ کتابیں فراہم کرنے کی بھی سہولت دے رکھی تھی اور اب اس حکومت نے مزید نرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹیلی ویژن فراہم کرنے کی بھی منظوری دے دی ہے۔
وزیراعظم ایردوان کے دور میں ملک بڑی تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور لوگوں کے معیار زندگی میں ہونے والے اضافے کے ساتھ ساتھ ان کی سوچ میں بھی اب واضح تبدیلی دیکھی جا رہی اور ایک ایسا ملک جہاں پر دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کرنے کو ملک کی تقسیم قرار دیا جا رہا تھا، کی جانے والی اصلاحات کے نتیجے میں کرد النسل لوگوں کو ایسے حقوق بھی حاصل ہوگئے جس کی اس سے پہلے کوئی نظیر نہ تھی۔ اب کرد النسل باشندوں کو اس بات کا بھی احساس ہوچکا ہے کہ ترکی میں اگر کوئی شخص یہ مسئلہ حل کرسکتا ہے تو وہ بلاشبہ وزیراعظم ایردوان ہی ہیں۔ اس سلسلے میں کرد باشندوں ہی کی ایک رہنما لیلیٰ زانا جو کہ ایک دور میں نوبل امن ایوارڈ کی بھی امیدوار تھیں نے وزیراعظم ایردوان سے ملاقات کرتے ہوئے ایردوان ہی کے دور میں اس مسئلے کو حل کرنے کے یقین کا اظہار کیا تھا۔ کچھ عرصہ قبل تک حزب اختلاف کی جماعت ری پبلیکن پیپلزپارٹی جس نے اس سے قبل خفیہ سروس ایم آئی ٹی اور دہشت گرد تنظیم کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کی مخالفت کی تھی اب آخر کار مجبور ہو کر خفیہ سروس اور دہشت گرد تنظیمPKK کے سرغنہ کے ساتھ ہونیوالے مذاکرات کی حمایت کرنا شروع کردیا جس سے یہ توقع پیدا ہو رہی ہے کہ یہ مذاکرات اب کسی نتیجے پر ہی پہنچ کر منتج ہوں گے اور اس طرح ترکی جو کئی دہائیوں سے دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے مستقل بنیادوں پر امن قائم ہوتے ہوئے دکھائی دیتا ہے۔
تازہ ترین