پاکستانی سنیما میں اگر ہم مزاحیہ اداکاروں کا ذکر چھیڑیں تو سب سے پہلا نام منور ظریف کاہی آتاہے، جنہوںنے اپنے مخصوص انداز و بیان سے پردہ سیمیں پر قہقہے بکھیرے اور شہنشاہ ِ ظرافت کا خطاب پایا۔
ظریف کے لغوی معنی دیکھیں تو اس کا مطلب بامذاق شخص، چٹکلے باز، چُہل باز، خوش طبع، خوش مزاج، لطیفہ گو، ٹھٹھے باز، ہنسی مذاق کرنے والا نکلتاہے اور اگر ہم منور ظریف کی شخصیت، رویے اور فنکارانہ صلاحیتوں کو دیکھیں تو یہ سارے معنی ان پر صادق آتے ہیں۔ مزاح کی کوئی بھی شکل شاید مشکل سے ہی منور ظریف کے کمالِ فن سے بچ کر نکلی ہوگی۔
فلم شروع ہوتی تھی اور لوگ منور ظریف کی آمد کے منتظر ہوتے تھے، ان کی انٹری پر سنیما تالیوں اور سیٹیوں سے گونج اٹھتا تھا، ان کی ہر فلم میں لوگوں کیلئے قہقہوںکا سامان وافر مقدار میں موجود ہوتا تھا۔ فلم بین ان کی مزاح سے بھرپور اداکاری دیکھ کر لوٹ پوٹ ہوجاتے تھے اور وہ اپنے غم وقتی طور پر بھول جاتے اور چہروں پر مسکراہٹیں سجائے سنیما سے باہر نکلتے ۔
گوجرانوالہ شہر اپنے اس لیجنڈپر آج بھی فخرکرتاہے، جہاں منور ظریف نے 2فروری 1940ء کو ایک کمہا ر کےگھر میں آنکھ کھولی۔ چاربھائیوں میں وہ دوسرے نمبر پر تھے۔ منور سے پہلے ان کے بڑے بھائی قیام پاکستان کے بعد بننے والی فلموں میں ظریف کے نام سے اداکاری کرچکے تھے۔ منور سے دو چھوٹے بھائیوں مجید ظریف او ر رشید ظریف نے بھی فلموں میں کامیڈی کردار ادا کیے۔
منور ظریف نے 1960ءمیں اپنی پہلی پنجابی فلم ’’ ڈنڈیاں ‘‘ سے لے کر 1980ء میں بننے والی اپنی آخری فلم ’ لہو دے رشتے ‘ تک 300سے زائد فلموںمیں ہنسی کے طوفان اٹھائے، جن میں 70اردو فلمیں بھی شامل ہیں۔ اپنے بھائی کی طرح منور نے بھی کبھی عامیانہ اور سستی قسم کی حرکات و سکنات سے کام نہیں لیا بلکہ مزاحیہ اور برجستہ جملوں سے فلم بینوں کے دل موہ لیے۔
منور ظریف نے اپنے کیریئر کا آغاز اپنے بڑے بھائی ظریف کے انتقال کے بعد کیا۔ ہدایتکار رحیم گل کی فلم ’’ اونچے محل ‘‘ میں انھوں نے بطور ماتحت ہدایتکار فرائض انجام دیے۔ سیٹ پر جب منور ظریف نے جگت بازی اور حاضر جوابی کا مظاہرہ کیا تو رحیم گل نے متاثر ہوکر انہیں فلم میں ایک چھوٹا سا کردار دے دیا۔ فلم ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی کہ افتخار خان نے انہیں پنجابی فلم ڈنڈیاں میں کاسٹ کرلیا اور یہ فلم پہلے ریلیز ہوگئی۔ لوگوں کو ایک نیا ظریف ملا اور منورنے اپنے بھائی کے نام کی لاج رکھتے ہوئے ان کے نام کو مزید روشن کردیا۔
اپنی پہلی پنجابی فلم جس میں منور نے ہیرو کے طور پر کام کیا، اس کا نام ’’ اج د امہینوال ‘‘ تھی ،جس میں ان کے مقابل مشہور اداکارہ آسیہ تھیں ۔ یہ فلم ناکام ہوگئی لیکن اس کے بعد ’’بنارسی ٹھگ‘‘ نے انہیںشہر ت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ منور ظریف میں نسوانی کردار ادا کرنے کی بھی صلاحیت بدرجہ اتم موجود تھی، یہی وجہ ہے کہ ان پر ناہید اختر اور مہناز جیسی گلوکارائوں کے نغمے پکچرائز کروائے گئے۔
منورظریف نے جن فلموں میں بطور ہیرو اپنے مداحوں کو مسکراہٹیں بخشیں ان میں مرزا جٹ، دھی رانی، اکبرا، چن مکھناں، بھریا میلہ، انورا، پہلوان جی اِن لندن، چڑھدا سورج، لاڈو، مکھڑا چن ورگا، ملنگی ، تیرے عشق نچایا، ڈاچی، جند جان، دل دیاں لگیاںوغیرہ قابلِ ذکر ہیںجبکہ اردو فلموں میں ہمراہی، دیا اور طوفان، آئینہ، تم ہی ہو محبوب میرے، دل او ر دنیا، انسان اور آدمی، بہارو پھول برسائو، دامن اور چنگاری وغیرہ آج بھی لوگوں کو یاد ہیں ۔ منور ظریف کی کچھ فلمیں ایسی بھی تھیں جن کا چربہ پڑوسی ملک میں بنایا گیا لیکن مرکزی کردار میں ہیرو ان جیسی اداکاری نہ کرسکا۔
کچھ عرصہ بعد منور ظریف جب اداکار رنگیلااور اکمل کے ساتھ فلم ’’ ہتھ جوڑی‘‘ میں جلو ہ گر ہوئے تو یہ جوڑی فلم بینوں کو بہت پسندآئی،ا س فلم میں نزیر بیگم کا گایا ہوا ایک گانا ’’ تھوڑ ا تھوڑا چن ویکھیا‘‘ بہت مشہور ہوا اور منورظریف بھی مشہور ہوگئے اور اس شہرت میں ان کی ہر آنے والی فلم اضافہ کرتی چلی گئی۔ منور ظریف اور رنگیلا کی جوڑی نے کئی کامیاب فلمیں انڈسٹری کو دیں۔ فلم ’ پردے میں رہنے دو‘‘ اس جوڑی کی کامیاب ترین فلم ہے۔ اس کے علاوہ شباب کیرانوی دونوں کی جوڑی سے بہت متاثر تھے اس لیے دونوں کی مشہور فلمیں’ بات پہنچی تیری جوانی تک ‘ ، منجی کتھے ڈاواں ‘، ’ سچا جھوٹا پاکستان سینما کو پیش کی یہاںتک کہ دونوں کے نام سے ایک فلم ـ’ رنگیلا اور منور ظریف ‘ کے نا م سے بھی بنائی۔ جنوری 1967ء میں ریلیز ہونے والی ایک کامیاب فلم ’’ جگری یار‘‘ میں رنگیلا اور منور ظریف کے برجستہ جملوں اور بے ساختہ اداکاری نے فلم بینوں کو ہنسی میں لوٹ پوٹ کردیا ۔ اس فلم میں منور ظریف نے بیٹے اور رنگیلا نے با پ کا کردار ادا کیا۔ دونوں باپ بیٹوں کی نوک جھوک بہت ہی مزاحیہ تھی۔ رنگیلاجب منور ظریف کو ہمسائی سے عشق کرتے ہوئے پکڑ لیتاہے اور پھر پٹائی کرتے ہوئے گھر لاتاہے تو منور ظریف کا مزاحیہ گانا ’’ ہائے ابا جی ہن معاف کردو ‘‘ فلم بینوں کو بہت محظوظ کرتاہے۔ دسمبر 1968ء کی کامیاب میوزیکل فلم ’’ تاج محل ‘‘ بھی منور ظریف کی صلاحیتوں کا ثبوت تھی جس میں انہوں نے خواجہ سرا کا کردار بہت خوبصورتی سے ادا کیاجو فلم میں لوگوں کے رشتے کرواتا تھا ۔ اس کا ایک ڈائیلاگ’’ لوگوں کے رشتے جوڑ جوڑ کر میرا اپنا جوڑ جوڑ ہلنے لگاہے ‘‘ بہت مشہور ہواتھا۔ گانوں کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ منور ظریف رقص بھی کمال کا کرتے تھے اور1975ء میں فلم ’’ جانو کپتی ‘‘ میں انہوں نے رقص میں آسیہ سے مقابلہ کیا۔
منور ظریف نے کئی اعزازات اپنے نام کیے، 1971ء کی فلم ’’عشق دیوانہ‘‘ میں پہلی مرتبہ انھوں نے خصوصی نگار ایوارڈ حاصل کیا جبکہ بہارو پھول برسائو اور زینت جیسی فلموں پر انہیں نگار ایوراڈ سے نوازا گیا۔
مزاحیہ کرداروں کو باوقار انداز سے ادا کرنے والے منور ظریف 29اپریل 1974ء کو صرف 36سال کی عمر میں اس دارفانی سے کوچ کرگئے اور اپنےپیچھے مزاح سے بھرپور معیارفلموں کی ایک دنیا چھوڑ گئے، جس نے ان کا نام آج بھی زندہ رکھا ہواہے۔
تالیوں اور سیٹیوں سے گونج اٹھتا تھا، ان کی ہر فلم میں لوگوں کیلئے قہقہوںکا سامان وافر مقدار میں موجود ہوتا تھا۔ فلم بین ان کی مزاحیہ اداکاری دیکھ کر لوٹ پوٹ ہوجاتے تھے اور وہ اپنے غم وقتی طور پر بھول جاتے اور چہروں پر مسکراہٹیں سجائے سنیما سے باہر نکلتے ۔